آج پاکستان کے نام ور مصور صادقین کی برسی ہے۔ صادقین کا پورا نام سید صادقین حسین نقوی تھا اور وہ 20 جون 1930ء کو امروہہ میں پیدا ہوئے تھے۔ 1948ء میں آگرہ یونیورسٹی سے گریجویشن کرنے کے بعد وہ ہجرت کرکے پاکستان آئے جہاں انہوں نے بہت جلد اپنی منفرد مصوری اور خطاطی کے جھنڈے گاڑ دیئے۔
ان کی شہرت کا آغاز میورلز سے ہوا جو انہوں نے کراچی ایر پورٹ، سینٹرل ایکسائز لینڈ اینڈ کسٹمز کلب، سروسز کلب اور اسٹیٹ بنک آف پاکستان کی لائبریری میں بنائیں۔ کچھ عرصے کے بعد وہ پیرس چلے گئے جہاں انہوں نے اپنے فن کے یادگار نمونے پیش کئے اور کئی بین الاقوامی اعزازات حاصل کئے۔
1969ء میں انہوں نے غالب کی صد سالہ برسی کے موقع پر کلام غالب کو بڑی خوب صورتی سے مصور کیا۔ 1970ء میں انہوں نے سورہ رحمٰن کی آیات کو انتہائی دلکش انداز میں پینٹ کیا اور مصورانہ خطاطی کے ایک نئے دبستان کی بنیاد ڈالی۔ انہوں نے لاہور کے عجائب گھر کی چھت کو بھی اپنی لازوال مصورانہ مصوری سے سجایا۔ 1981ء میں انہوں نے ہندوستان کا سفر کیا اور ہندوستان کے کئی شہروں میں اپنے فن کے نقوش بطور یادگار چھوڑے۔
1986ء میں انہوں نے کراچی کے جناح ہال کو اپنی مصوری سے آراستہ کرنا شروع کیا مگر ان کی ناگہانی موت کی وجہ سے یہ کام مکمل نہ ہوسکا۔
صادقین ایک بہت اچھے شاعر بھی تھے اور رباعیات کہنے میں خصوصی مہارت رکھتے تھے۔ ان کی رباعیات کے کئی مجموعے بھی شائع ہو چکے ہیں۔ ان کی ایک رباعی ؎
ہیں قاف سے خطاطی میں پیدا اوصاف
ابجد کا جمال جس کا کرتا ہے طواف
بن مقلہ ہو یاقوت ہو یا یہ فقیر
ہم تینوں کے درمیان اسما میں ہے قاف
حکومت پاکستان نے انہیں صدارتی تمغہ برائے حسن کارکردگی عطا کیا تھا۔ صادقین 10 فروری 1987ء کو کراچی میں وفات پا گئے اور سخی حسن کے قبرستان میں آسودہ خاک ہوئے۔