ہزاروں سال نرگس اپنی بے نوری پہ روتی ہے
بڑی مشکل سے ہوتا ہے چمن میں دیدہ ور پیدا
معروف مفکر اور فلسفی ڈاکٹر علامہ محمد اقبال نے یہ شعر قانون فطرت اور معاشرتی زبوں حالی پر ایک صدی پہلے کہا تھا اور گزشتہ صدیوں کی علمی و فکری غربت و افلاس کا اظہار کرتے ہوئے فریاد رساں ہوئے تھے.
مگر اقبال کا یہ شعر آج ان پر صادق آتا ہے کہ ان کے بعد ابھی دوسرا اقبال پیدا نہیں ہوئے ہیں. گزشتہ دنوں خانہ فرہنگ جمہوری اسلامی ایران کوئٹہ کے ڈائریکٹر اور فکر و نظر کے حامل اسکالر ڈاکٹر سید محمد تقی زادہ واقفی نے کوئٹہ میں شارح اقبال پر واقع علمی و ادبی مرکز خانہ فرہنگ میں ایک مربوط اور منظم فکری سیمنار کا انعقاد کیا گیا تھا جس میں کوئٹہ کے اھل علم و ادب اور فکر و دانش کے خاوندان کے ساتھ برطانیہ سے آن لائن 21 ویں صدی کے معروف مصنف و شارح اقبال پروفیسر ڈاکٹر محمد عارف خان نے خصوصی خطاب کیا۔
پروگرام کا آغاز قرآن کریم کی خوبصورت تلاوت سے کیا گیا اور پھر پاکستان و ایران دونوں ممالک کے قومی ترانے اردو و فارسی زبانوں میں پیش کی گئی جس کے احترام میں سیمنار کے تمام شرکاء کھڑے رہے۔ پاکستان کے قومی ترانے کی دھن اور معنویت دونوں خوبصورت ہیں اور ساتھ ہی ایران کے فارسی ترانے نے مجلس کی خوبصورتی اور دلکشی میں اضافی مقصدیت کا رنگ بھر دیا۔
فارسی زبان میں ڈاکٹر علامہ محمد اقبال لاھوری کے شعری مجموعوں کی 60 فیصد سے زیادہ حصہ موجود ہے۔
فارسی برصغیر پاک و ہند اور افغانستان و ترکی کے ساتھ وسطی ایشیائی مسلم ریاستوں کی بھی بڑی زرخیز اور علمی زبان ہے اس لئے کوئٹہ سے ہی مجلس فکر و دانش نے خصوصی منصوبہ کے تحت پہلے مرحلے میں مکالمے اور منظرنامہ کی تشکیل نو و تاریخی ادراک و تحقیق اور ترقی یافتہ ممالک کے صف میں شامل ہونے کے لئے امن و دانش اور ترقی و خوشحالی کے حصول کے لئے
پاک افغان ایران اقبال ریسرچ ڈائلاگ اینڈ ڈیویلپمنٹ فورم کے تشکیل اور علمی ورکنگ کا آغاز کیا ہے۔
اس موقع پر پروفیسر ڈاکٹر محمد عارف خان کی معروف کتاب ّْْ”مباحث خطبات اقبال” کی تقریب رونمائی بھی ہوئی۔
سردیوں کے یخ بستہ موسم میں دن کے آخری پہر یہ خوبصورت و معنی خیز محفل،اگرچہ تاخیر سے شروع ہوئی۔ اس خوبصورت پروگرام کو پہلے صوبے کی مادر علمی و دانش گاہ یونیورسٹی آف بلوچستان کے اشتراک سے بھرپور انداز میں منعقد ہونا تھالیکن ر کورونا وائرس کے بے رحمانہ سلوک اور مروت سے خالی انتظامی روئیے کے باعث بالآخر حکیموں کی حکمت تلاش کرنے کے لئے ایرانی دوست
اکیلے سفر پر روانہ ہوگئے تھے۔
سیمنار سے معروف دانشور اور مصنف اقبال شناس سفیر اقبال برائے ایران افغانستان اور وسطی ایشیاء
پروفیسر ڈاکٹر عبدالروف رفیقی، ممتاز ادیب و شاعر روزنامہ جنگ کے کالم نگار قیوم بیدار، اسلامیہ کالج کے پرنسپل اور ممتاز دانشور و تاریخ دان پروفیسر عبدالرشید علیزئی،پروفیسر صدف چنگیزی، پروفیسر محمد عمران ہاشمی،نوجوان اسکالر احمد وقاص کاشی اور خاکسار کے ساتھ صدارتی گفتگو جمہوری اسلامی ایران کے کوئٹہ میں قونصل جنرل جناب ڈاکٹر حسن دانش وند نے خصوصی خطاب کئے۔
پروگرام کے مہمان خصوصی الحمد یونیورسٹی کے روح رواں و پرو ریکٹر پروفیسر ڈاکٹر عروہ جاوید نے اپنی مصروفیات کے باعث صرف دوسروں کے تقاریر سماعت کئے۔ پروگرام کی خوبصورت انداز میں کمپیرنگ ڈاکٹر عبدالرحمان نوید نے کی اور انتہائی شاندار انداز میں کلام اقبال موقع کی مناسبت سے بھرپور طور سے پیش کرتے رہے۔ اگرچہ پروجیکٹر کے ذریعے فارسی میں ترجمہ کلام اقبال اور ستارہ شرق بلند کی زندگی کے مختلف گوشوں کی پزیرائی پیش کی گئی۔
فاضل مقررین نے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ علامہ اقبال ماضی کے ساتھ حال و مستقبل کے دوربین و دانش مند مفکر اور فلسفی ہیں،اقبال نے ہی 1933ء میں سفر افغانستان میں کابل کے دانشوروں اور ادیبوں سے گفتگو و خطاب میں مستقبل بینی اور علمی و تمدنی ترقیوں کے ساتھ ساتھ تہذیبی و ثقافتی ورثے کو لمحہ موجود کی ضروریات کے پیش نظر شعور نبوت صلی اللہ علیہ وسلم اور امامت و ولایت کے وسیع تصورات کی فریم ورک میں پیش کرنے کی کوششوں پر زور دیا تھا۔
اقبال اس لئے زندہ ہے کہ مسلم معاشروں اور علاقائی و عالمی تہذیبی زندگی میں زندہ سوالات کے جوابات فراہم کرنا ابھی ھمارے ذمے ہیں۔ صدارتی گفتگو کرتے ہوئے جمہوری اسلامی ایران کے نمائندے خاص دانش ور درویش وند نے کہا کہ پاکستانی سوسائٹی کے تنوع اور خوبصورتی بے پناہ صلاحیتوں کی حامل ہے ایٹمی طاقت اور فکر و نظر کے خاوندان مفکرین و علماء کرام میں علامہ محمد اقبال لاھوری ایک ایسا نابغہ روزگار شخصیت اور صدیوں ناز کرنے کی علامت ہے جس کے افکار و نظریات پر مباحثے اور سوسائٹی کی تشکیل نو و تعمیر نو کی ضرورت ہے۔
برطانیہ سے ورچول خطاب کرتے ہوئے 21 ویں صدی کے مایہ ناز مصنف و دانش ور پروفیسر ڈاکٹر محمد عارف خان نے کہا کہ فکر اقبال پر سیمینارز و تحقیقی مباحث سے ہی زندگیوں میں انقلاب و آزادی کی تڑپ پیدا ہوتی ہیں،،
اقبالیات کے ادراک اور خوبیوں پر 20 ویں صدی میں جامع کام ہوئے ہیں اور 21 ویں صدی کے روحانی ارتقاءکے تسلسل اور نفسیاتی مسائل کے ادراک و احساس کے لئے فکر اقبال کو علمی و تحقیقی انداز کے ساتھ عام فہم بنانے کی ضرورت ہے جس طرح اھل ایران نے قبل از انقلاب اور بعد از انقلاب سوسائٹی کے ڈویلپمنٹ و فکری و نظریاتی ترقی میں فکر اقبال کو ماخذ کے طور پر استعمال کیا جاتا ہے پاکستان کیلئے فکر اقبال کے تعلیمات میں نصاب تعلیم و تربیت و قومی مفاد کے حامل اداروں میں فکر اقبال کو سمیٹے اور زندہ درگور کرنے کے بجائے بھرپور صلاحیت و ظرفیت کے مطابق استفادے کی ضرورت ہے
اس موقع پر ڈاکٹر علامہ محمد اقبال رحمۃ اللہ علیہ کے گرانقدر خطبات تشکیل الہیات اسلامیہ کے لمحہ موجود کے زندہ علمی و فکری سوالات کے تناظر میں تشریحات پر مشتمل انتہائی مربوط اور منظم فکری کاوش مباحث خطبات اقبال کی تقریب رونمائی کی گئی اور تمام شرکاء و دانشوروں کے اعزاز میں عشائیہ کے ساتھ یہ قیمتی کتاب پیش کی گئی۔
قبل ازیں تقریب رونمائی میں مجلس فکر و دانش کے سربراہ اور پاک افغان ایران اقبال ڈائلاگ ریسرچ اینڈ ڈیولپمنٹ فورم کے ڈائریکٹر عبدالمتین اخونزادہ نے خصوصی طور پر پروفیسر ڈاکٹر محمد عارف خان کی فکر و شخصیت اور ان کے نہایت ہی عمدہ و دانش مندانہ کتاب اور تشریحات اقبال کی تعارف پیش کرتے ہوئے کہا کہ اقبال کی فکری معنویت اور علمی و ادبی نظریات کی دینا میں زندگی باقی ہے اس لئے ضروری ہے کہ خطے کے ممالک بطور خاص پاکستان ایران اور افغانستان ملکر مکالمے کے ذریعے اپنے مسائل کی نشاندھی کریں اور فکر و نظر کے فراخدلانہ اپروچ کے ساتھ جرآت مندانہ سوچ اور اقدامات کے ذریعے خطے اور عالمی رہبری کے لئے کمر باندھ لیں۔
سرد موسم کی یخ بستہ شام کو خانہ فرہنگ جمہوری اسلامی ایران کوئٹہ کی ٹیم سید قدرت اللہ شہاب کی مخلصانہ خدمات کے انجام دہی اور میزبانی کے فرائض کے ساتھ ساتھ یہ معنی خیز محفل اقبال کے فارسی کلام کے خوبصورت دھنوں اور علمی و فکری الفاظ کے زیر و بم کے ساتھ اختتام پذیر ہوا۔