ڈاکٹر فیاض عالم صدیقی بنیادی طور پر تو ایک معالج ہی ہیں لیکن وقت اور حالات کا بہاؤ انھیں ایک اور دنیا کی طرف بہاتا چلتا گیا۔ نتیجہ یہ نکلا اللہ تعالیٰ نے اپنے بندوں کی خدمت کا کام ان سے لینا شروع کیا۔ اس سفر میں ان کی راہ میں کئی پڑاؤ آئے، ان دنوں وہ دعا فاؤنڈیشن کے زیر اہتمام ملک کے مختلف حصوں میں زیتون کی کاشت کے لیے سرگرم عمل ہیں جو اقتصادی انقلاب کا باعث بن سکتا ہے۔ زیر نظر تحریر میں انھوں نے معروف تاجر راہ نما سرجا قاسم تیلی کو یاد کیا ہے
٭٭٭٭٭٭
2005 کے اوائل کا واقع ہے- نعمت اللہ خان صاحب کی نظامت کا آخری دور تھا- راقم سفاری پارک اور کراچی زو کے کا بھی کووآرڈینیٹر بنادیا گیا تھا ( کیونکر بنایا گیا، یہ الگ اور دلچسپ کہانی ہے)
سفاری پارک میں کچھ جانوروں کی ضرورت تھی- فنڈز کی کمی کا سامنا تھا- منصور قاضی کے مشورے سے ہم نے پیپسی والوں کو خط لکھ دیا کہ ہمیں دو جوڑے زیبرا اور کچھ دیگر جانور خریدنے ہیں-
کچھ دن کے بعد ایک صاحب کا فون آیا کہ سراج قاسم تیلی صاحب سے ملاقات کے لیئے آجائیں- اگلے ہی روز ہم ان سے ملاقات کے لیئے پہنچ گئے-
انہوں نے فرمایا کہ یہ کام کچھ عجیب سا ہے اور سچ یہ ہے کہ کبھی کسی نے ایسی کوئی فرمائش کی بھی نہیں ہے لیکن نعمت اللہ صاحب کا خط آیا ہے تو انکار کرتے ہوئے شرم آئے گی۔
خان صاحب کراچی سے مخلص ہیں!
خان صاحب کی نظامت ختم ہونے کے کچھ ماہ بعد سفاری پارک میں دو جوڑے زیبرا کی آمد ہوسکی۔ پیپسی والوں نے 16 لاکھ روپے کی ادائیگی کی تھی- سراج قاسم تیلی مرحوم سے راقم کی پہلی اور آخری ملاقات تھی، جس میں یہ تاثر قائم ہوا کہ وہ “کراچی والے” تھے- ملک کے ایک بہت بڑے کاروباری فرد جو کراچی سے محبت کرتے تھے اور شہر کی تعمیر و ترقی کے حوالے سے ہر فورم پر دبنگ انداز میں بات کرتے تھے!
اللہ تعالی ان کی مغفرت فرمائے اور اپنی جوار رحمت میں جگہ دے، آمین۔