غلطی!
جماعت اسلامی آزاد کشمیر و گلگت بلتستان کے سابق امیر عبدالرشید ترابی نے آزاد کشمیر میں ایک نووارد کودیتا سرمایہ دار کے حق میں بغیر جماعتی مشاورت کے دستبردار ہوکر اپنے آپ کو سیاسی طور پر بہت ہی کمزور ثابت کردیا ہے۔ ایک نظریاتی سیاسی کارکن کا اس طرح کا عمل نظریاتی اور اصولی سیاست کے لئے دھچکا ہے۔ ترابی صاحب خود ہی دستبرداری سے چند روز قبل سردار تنویر الیاس خان پر انتہائی سنگین الزامات لگا چکے ہیں، ایسے میں ان کی دستبرداری سوالیہ نشان ہے۔
پیش کش!
دستبرداری کی وجوہ کے بارے میں جماعت اسلامی ضلع باغ آزاد کشمیر کے امیر عثمان انور کا دعوی ہےکہ وفاقی وزراء نے جماعت اسلامی آزاد کشمیر کے مرکزی رہنما عبدالرشید ترابی صاحب کو پیش کش ( اب معاہدہ) کی تھی کہ وہ تحریک انصاف کے امیدوار کے حق میں دستبردار ہوگئے تو ان کو کشمیر اسمبلی میں پہنچایا اور کشمیر کمیٹی کا چیئرمین بنایا جائےگا۔ اس پر مقامی جماعت نے متفقہ طور پر ترابی صاحب کو مکمل فیصلے کا اختیار دے دیا۔
اداروں کی انڈر اسٹینگز!
دستبرداری تقریب میں سردار تنویر الیاس خان نے دعوی کیا ہے کہ عبدالرشید ترابی صاحب کو علم ہے کہ “ہمارے ساتھ فیصلہ ساز اداروں کی انڈر اسٹینگز ہیں”۔ یاد رہے کہ جب بھی فیصلہ ساز اداروں کی بات ہوتی ہے تو اس سے مراد قومی سلامتی کے ادارے ہی لئے جاتے ہیں۔ حسن ظن یہی ہے کہ سردار تنویر الیاس نے ہوائی بات کی ہے، لیکن اگر یہ بات درست ہے تو انتہائی افسوسناک اور قابل گرفت عمل ہے۔
دستبردار!
پیش کش کے مطابق عبدالرشید ترابی صاحب آزاد کشمیر اسمبلی کے حلقہ ایل اے 15 سے تحریک انصاف کے امیدوار سردار تنویر الیاس صاحب کے حق میں دستبردار ہوچکے ہیں۔ ترابی صاحب کے اس فیصلے کے بعد جماعت کے کارکنوں میں غم و غصہ ہے۔
ترابی کا جماعت سے اخراج!
جماعت اسلامی آزاد کشمیر و گلگت کے امیر ڈاکٹر خالد محمود خان نے جماعت سے مشاورت کے بعد دستبرداری سے لاتعلقی، سخت افسوس کا نہ صرف اظہار کیا، بلکہ انتہائی سخت فیصلہ کرتے ہوئے عبدالرشید ترابی صاحب کی جماعت سے بنیادی رکنیت کا خاتمہ اور ضلع باغ کے جماعتی نظم کو تحلیل کردیا ہے۔ جماعت اسلامی پاکستان کے مرکزی رہنما امیر العظیم نے ایک بیان میں ڈاکٹر خالد محمود خان کے فیصلوں کی تائید کی ہے۔
سوالات!
اب یہاں پر ترابی صاحب کی دستبرداری، پیش کش اور معاہدوں کے حوالے سے کئی سوالات پیدا ہوتے ہیں کہ کیا یہ معاہدے قابل عمل ہیں یا ترابی صاحب اور جماعت اسلامی کے ساتھ ہاتھ ہوگیا۔
پہلا سوال: پاکستانی پارلیمانی کشمیر کمیٹی دراصل پارلیمان یعنی سینیٹ اور قومی اسمبلی کی مشترکہ قائمہ کمیٹی ہے۔ کیا اس کا چیئرمین ایک غیر منتخب اور قانونی طور پر ایک غیر متعلق شخص بن سکتاہے؟
دوسرا سوال: ترابی صاحب کا فیصلہ رضا کارانہ ہے یا کسی دبائو کا نتیجہ؟
تیسرا سوال: تحریک آزادی کشمیر کو ترابی صاحب کی دستبرداری اور تنویر الیاس خان کی جیت کا کیا فائدہ ہوگا؟
جوابات!
پہلا جواب: موجودہ آئینی اور قانونی ڈھانچے کے مطابق پاکستانی پارلیمانی کشمیر کمیٹی کی چیئرمین شپ عبدالرشید ترابی صاحب کو ملنے کی کوئی قانونی گنجائش نہیں ہے۔
دوسرا جواب: حالات و واقعات اور سردار تنویر الیاس کے دعوے اور جماعت ضلع باغ کے امیر عثمان انور کے اعتراف کو مدنظر رکھا جائے تو یہ معاہدہ دبائو اور لالچ کا نتیجہ ہے۔
تیسرا جواب: عبدالرشید ترابی صاحب کی دستبرداری کا فیصلہ تحریک آزادی کے لئے فائدے کی بجائے انتہائی نقصان کا باعث بننے کا خدشہ ہے۔
معاہدے پر عمل کے ممکنہ راستے!
پہلا راستہ: آزاد کشمیر اسمبلی کو قومی اسمبلی کے برابر قرار دیکر کشمیر کمیٹی میں باقاعدہ نمائندگی دی جائے۔
دوسرا راستہ: آزاد کشمیر کو قومی اسمبلی یا سینیٹ میں نمائندگی دیکر ترابی صاحب کو پہلے رکن منتخب کروایا جائے اور پھر کمیٹی کا چیئرمین میں بنایا جائے۔
تیسرا راستہ : کشمیر کمیٹی کی پارلیمانی حیثیت ختم کرکے قومی کشمیر کمیٹی بنائی جائے اور آزاد کشمیر کو نمائندگی دی جائے۔
چوتھا راستہ: آزاد کشمیر اسمبلی کی اپنی کوئی کشمیر کمیٹی بناکر ترابی صاحب کو ذمہ داری دی جائے۔ اولذکر تینوں راستوں پر عمل در آمد آئینی، قانونی اور پارلیمان کے قواعد و ضوابط میں ترمیم کے بغیر ممکن نہیں ہے۔ آخر الذکر کے لئے بھی آزاد کشمیر اسمبلی کے قواعد و ضوابط میں ترمیم ضروری ہے۔
ریاست کشمیر!
اگر آئینی ترمیم اور قانون سازی کے بعد آزاد کشمیر اسمبلی کو مذکورہ بالا مبینہ مراعات مل جاتی ہیں تو پھر متنازعہ ریاست جموں وکشمیر کا مستقبل کیا ہوگا؟ کیا اصل اسٹیک ہولڈر کشمیری عوام اس ممکنہ یا متوقع یا مبینہ چیر پھاڑ کو قبول کرےگی؟
گلگت بلتستان!
آزاد کشمیر کو ملنے والی مبینہ مراعات کے بعد پھر یہ سوال حق بجانب ہوگا کہ گلگت بلتستان کو کس جرم کی سزا دی جارہی ہے؟ گلگت بلتستان بھی اسی ریاست کا قانونی ، تاریخی اور اخلاقی حصہ ہے۔ کیا گلگت بلتستان اس پر خاموش رہے گا؟ مختصر یہ ہے کہ اس طرح کے امتیازی سلوک کے بعد گلگت بلتستان ردعمل سخت ہوگا اور مجموعی صورتحال میں اس چیر پھاڑ سے پاکستان کے کشمیر کاز کو نقصان پہنچنے کا اندیشہ ہے۔
اصولی یا وصولی سیاست!
خلاصہ کلام یہی ہے کہ کشمیر کے حوالے سے حکومت کے عزائم کچھ ٹھیک نہیں لگ رہے ہیں اور عبدالرشید ترابی صاحب نے نہ صرف اپنے آپ ، بلکہ پوری جماعت اسلامی کو مشکل میں ڈال دیا ہے۔ اس عمل سے ممکن ہےکہ ترابی صاحب کو ذاتی فائدہ ہو ، مگر جماعت اسلامی کے لئے مشکل پیدا کردی اور انکی اپنی اصولی سیاست بھی سوالیہ نشان بن گئی ہے۔ اس تاثر کو ختم کرنا بہت مشکل ہوگا کہ ترابی صاحب نے اصولی اور تحریکی سیاست کی بجائے ایک سرمایہ دار کے حق میں دستبردار ہوکر وصولی سیاست کو ترجیح دی ہے، کیونکہ آزاد کشمیر اسمبلی کے متوقع انتخابات کے حوالے سے سرمایہ دار صاحب کی مبینہ وصولی سیاست کی داستانیں زبان زد عام ہیں۔
ضلع باغ کا فیصلہ!
مذکورہ بالا تمام صورتحال کا حتمی فیصلہ ضلع باغ کے عوام نے کرنا ہے کہ انکا انتخاب اصولی، تحریکی اور ریاست کے مفاد یا وصولی اور ذاتی مفاداتی ہے۔ اب حلقہ نمبر 15 میں ایک سیاسی و تحریکی کارکن مشتاق منہاس اور ایک سرمایہ دار و کودیتا سردار تنویر الیاس خان کا مقابلہ ہے۔ ضلع باغ کے لوگوں کا جو بھی فیصلہ ہوگا، اس کے منفی اور مثبت اثرات پوری ریاست جموں وکشمیر پر مرتب ہونگے۔
آخری بات!
اطلاعات کے مطابق تحریک انصاف اور وفاقی وزراء اب تک آزاد کشمیر میں 100 کے قریب افراد سے خواتین، علماء، ٹیکنوکریٹ اور بیرون ملک نشستوں اور بلدیاتی اداروں میں ایڈمنسٹریٹر شپ کا وعدہ کرچکے ہیں۔ سینیئر صحافی عبدالواجد خان کے مطابق ٹیکنوکریٹ کی ایک نشست کے لئے 12، علما و مشائخ کی ایک نشست کے لئے 6، خواتین کی 5 نشستوں کے 30 افراد سے وعدہ یا معاہدہ ہوچکا ہے۔ اسی طرح 30 سے زاید افراد کو ایڈمنسٹریٹر بلدیہ اور چئیرمین ڈیم کی یقین دہانی کرائی گئی ہے۔ اس صورتحال سے ایسا لگ رہا ہے کہ خرید و فروخت کی ایک منڈی لگ چکی ہے۔