نئے پنکچر کون لگائے گا اور کتنے لگائے گا۔ کنگز پارٹی کے لیے حالات میں رکاوٹ کیا ہے؟ جسے توڑنا ہے کیا وہ مکمل طور پر ٹوٹ نہیں پا رہا؟
۔۔۔۔۔۔۔
مشہور کہاوت ہے جب کشتی ڈوبنے لگتی ہے تو بوجھ اتارا کرتے ہیں، سب سے پہلے چوہے چھلانگ لگاتے ہیں۔ لیکن کبھی کبھار معاملہ صرف طوفان کے خوف سے جان بچانے کا ہوتا ہے۔ اکثر قائد انہی کو کھوٹے سکے کہتے ہیں۔ حالانکہ یہی ان کے ستون کہلاتے ہیں۔
بانی پاکستان نے بھی اس اصطلاح کا استعمال کیا اور کہا تھا میری جیب میں کھوٹے سکے ہیں۔ سیاست اور حکمرانی میں ان کا چولی دامن کا ساتھ ہوتا ہے۔ جناح پر بھی جلد یہ سب آشکار ہوگئے۔ قائد اعظم کی سوچ کیا تھی مگر مملکت کے امور سنبھالنے والے نہ جانے کہاں کہاں سے نکل آئے۔ سیاست اور ریاست کے معاملات اداروں میں بیٹھے ذمہ داروں کو کیوں سنبھالنا پڑے۔ یہ سوال کئی نسلوں تک جواب طلب رہے گا۔
یہ بھی پڑھئے:
ڈاکٹر عافیہ، سینیٹر مشتاق نے امریکا میں کیا کیا، کیا کرنا چاہئے؟
ڈاکٹر عافیہ، سینیٹر مشتاق نے امریکا میں کیا کیا، کیا کرنا چاہئے؟
بدلتا خطہ نواز شریف کے لیے رحمت، عمران کے لیے زحمت کیسے بنا؟
جیسے ملک کا آئین تاخیر سے معرض وجود میں آیا، ویسے ہی جمہوریت کا تعارف بھی لوگوں کو بہت دیر سے ہوا، قائد کی بہن کا ایک فوجی جنرل کے ساتھ مقابلہ ہوا، جس میں لوگوں نے ووٹ ڈالے۔ مورخین کا اصرار ہے کہ ان انتخابات میں بھی ووٹ کو عزت نہیں مل سکی۔ شاید یہی نقطہ آغاز تھا، عوامی حق رائے دہی کی توہین کا۔ اس خاتون کو سیاسی طور پر دیوار سے لگانے کیلئے ذاتی حملے کئے گئے۔ یہ حربے آنے والے دنوں میں زیادہ بھرپور طریقے سے آزمائے اور سیاست کے بڑے بڑے شاہ سواروں کو اوندھے منہ کرایا گیا۔
جمہوری فیصلے تسلیم نہ کرنے کی بنیاد 70 کے الیکشن میں رکھی گئی، مشرقی حصے والوں سے اختلافات پارٹیوں کے شاید اتنے نہ تھے جتنے ذمہ دار حلقے رکھتے تھے ، مورخین کا کہنا ہے بھٹو اس دوسری تقسیم کے سہولت کار بنے، اور ملک ایک نئے جغرافیائی تعارف میں تبدیل ہوگیا۔
غیر جمہوری قوتیں جنہیں سیاسی بندوبستی کا شوق چرانے لگا تھا انہوں نے اپنے تیار کئے کھلاڑی کی مقبولیت بالائے طاق رکھتے اس کے ساتھ ایسا کمال سلوک کیا کہ تاریخ بھی فیصلہ نہیں کرپائی کہ یہ سب کس قدر اصولوں کے مطابق عمل تطہیر تھا۔ بہر کیف بھٹو کو راستے سے ہٹانے کی کارروائی مخالفین بھی بھلا نہیں پائے۔
آنے والے برسوں میں ذمہ داروں نے اس ڈیوٹی کو آسان کرلیا اور جمہوری عمل کی تقویت کیلئے ایسا فارمولا بنایا کہ کسی کو بھی حکمرانی کا تاج پہنادیتے۔ 90 کی دہائی میں یہ ایک کھلا راز تھا کہ تیس سے پینتیس حلقوں کو ادھر سے ادھر کرکے مرضی کا نتیجہ حاصل کرلیتے۔ اسی کو بنیاد بناکر اپنے ہی کھلاڑی نے مخالف کو چیلنج کردیا کہ 35 پنکچر لگائے گئے
یہ وہ ہوتے ہیں جنہیں الیکٹ ایبل اور لوٹے بھی کہا جاتا یے۔ ماضی میں مختلف نوعیت کی کنگز پارٹیاں وجود میں آئیں جن کا مقصد کسی مقبول پارٹی کو کمزور کرنا اس کی قیادت کو منظر سے ہٹانا ہوتا ہے۔ یہ کام کسی نہ کسی طور جاری ہے۔ بھٹو۔ بے نظیر۔ نواز شریف کی پارٹیوں میں توڑ پھوڑ کے بعد نئی جماعت کی مصنوعی پیدائش کی گئی۔ اس کام کے لئے مختلف شعبوں سے وابستہ لوگوں کو ذمہ دار خاص ذمہ داری لگادیتے رہے ہیں۔
اپنے بنائے کھلاڑی جب خودسری دکھانے لگتے ہیں تو پھر کوئی نیا بندوبستی فارمولا بنانا پڑتا ہے۔ اس سب کیلئے پہلے کچھ ہلچل پیدا کرنا پڑتی ہے تاکہ تبدیلی کا کوئی جواز نظر آئے یہ بالکل غیر حقیقی عمل نہ لگے۔
ملک میں نیا بندوبست اور 35 پنکچر لگانے کا عمل جاری ہے اس مرتبہ معاملہ صیغہ راز میں بھی رکھا ہے میدان کھلا چھوڑ دیا صرف ایک فریق کے دروازے بند ہیں باقی ذمہ داروں نے کسے بندوبستی سونپنی ہے۔ ابھی حالات نئی کنگز پارٹی کیلئے سازگار دکھائی نہیں دیتے کیونکہ جسے توڑا جارہا ہے وہ ابھی مکمل طور پر ٹوٹ نہیں پایا۔
یہ بھی واضح نہیں پنکچر کتنے اور کس نے لگانے ہیں۔ سیاست کی گاڑی پہلے ہی جمہوریت کی شاہراہ کے کنارے بند کھڑی ہے آئین اور قانون کے جیک بھی اسے انتخابی عمل کے سفر پر چلنے میں مدد نہیں دے پارہے۔ ذمہ داروں کا غصہ گاڑی کے رکنے سے زیادہ کسی اور بات پر ہے۔ اس لئے مسافر ڈر کے مارے سوال بھی نہیں کرتے کہ کب آگے بڑھیں گے۔