میری سیرت سازی میں سب سے زیادہ معین و مؤثر دو شخصیتیں (مولانا اشرف علی تھانوی اور محمد علی جوہر )ثابت ہوئیں، ان دونوں نے کہنا چاہئے کہ زندگی کا رخ ہی موڑ دیا، ان دونوں کا فیض صحبت نہ نصیب ہوجاتا تو خدا معلوم کہاں کہاں اب تک بھٹکتا پھرتا_
پہلا نام تو ہندوستان کے مشہور لیڈرمولانا محمد علی جوہرکا ہے، یہ میرے گویا محبوب تھے، ان کا نام بچپن سے سننے میں آرہا تھا اور ان کی انگریزی مضمون نگاری اور انشاپردازی کی دھاک شروع سے دل میں بیٹھی ہوئی تھی
عمر میں مجھ سے چودہ سال بڑے تھے، شخصی تعارف اخیر ۱۹۱۲ء میں ہوا، محبت و عقیدت دور ہی دور سے بڑھتی رہی
ستمبر ۱۹۲۱ء میں جب یہ دوبارہ اسیر فرنگ ہوئے اور کراچی میں سزایاب تو زبان و دماغ پر ان کی اخلاقی و روحانی عظمت کا کلمہ رواں تھا اور ان کی ذات سے شیفتگی درجۂ عشق تک پہنچ چکی تھی، ۱۹۲۳ء کے آخر سے ختم ۱۹۳۰ء تک قرب و اتصال کے مواقع کثرت سے حاصل رہے اور عشق میں ترقی بھی ہوتی رہی، ان کی نہ کوئی بات دل کو بری لگتی نہ ان پر کسی حیثیت سے بھی تنقید کرنے کو جی چاہتا، یہی جی میں رہتا تھا کہ ان کے قلم اور ان کی انگلیوں کو چوم چوم لوں!
اسلام اور رسول اسلامﷺ سے اس درجہ شیفتگی، اللہ کے وعدوں پر اس شدت سے اعتماد، یہ اخلاص، یہ للہیت، تصنع و منافقت سے اس درجہ گریز، حق کے معاملہ میں عزیزوں، قریبوں، بزرگوں تک سے بےمروتی اور پھر ایسی فہم و ذکا، علم و آگہی، غرض میرے لئے تو ایک بےمثال شخصیت تھی، اللہ کروٹ کروٹ جنت نصیب کرے!
یہ بھی پڑھئے:
پوٹھوہار:خطہ دل ربا،ایسی محبت کم شہروں کومیسرہوگی
قریشی صاحب کا ٹوٹا تارا اور عمران خان
پیر امین الحسنات عمران خان کو پیارے کیوں ہوئے؟
دوسری شخصیت ان سے بھی اہم تر اور مفید تر جو میرے نصیب میں آئی، وہ “حکیم الامت حضرت مولانا اشرف علی تھانوی” کی تھی، مدتوں ان سے شدید بدظنی میں مبتلا رہا اور اس بدظنی کے بڑھانے میں بڑا حصہ خود حضرت ہی کے مریدوں، معتقدوں کا تھا، مدتوں یہ سمجھتا رہا کہ یہ ایک متشدد و خشک مولوی ہیں، برطانیہ نواز اور نصرانیوں کے دوست!
جب وصل بلگرامی نے ان کے وعظ پڑھنے کو دئے تو پہلی بار آنکھیں کھلیں اور پھر جب مراسلت کے بعد نوبت دید و زیارت کی آئی تو کتنے ہی کمالات ظاہری و باطنی کھل کر رہے، علم و تفقہ، تصوف و شریعت کے جامع، حسن عمل کے زندہ پیکر، اور ارشاد و اصلاح کے فن کے تو بادشاہ!
وقت کے دوسرے مشائخ کو ان سے کوئی نسبت ہی نہ تھی_
شیخ سعدی اگر آج ہوتے تو عجب نہیں کہ اپنا نسخہ گلستاں بہ غرض اصلاح ان کی خدمت میں پیش کرتے، حضرت غزالی ہوتے تو عجب نہیں کہ احیاء علوم الدین کی تصنیف میں استناد و استفادہ ان سے سطر سطر پر کرتے رہتے
جولائی ۱۹۲۸ء میں سلسلہ مکالمت و مجالست کا شروع ہوا اور کہنا چاہئے کہ آخر عمر شریف تک جاری رہا، اور سلسلہ مراسلت اس کے علاوہ!
۱۹۳۰ء سے جو کچھ اس ناکارہ سے دین کی خدمت بن پڑی اور اپنے رذائل نفس سے جس درجہ میں بھی شفا اپنے ظرف و بساط کے مطابق مل سکی، کہنا چاہئے کہ وہ سارا فیض اسی بارگاہ کا ہے
بزرگ اور عابد زاہد بزرگ اور معتد دیکھنے میں آئے لیکن مصلح، مزکی، مربی کوئی ایسا دیکھنے میں نہ آیا_____
“محمد علی” اگر میرے محبوب تھے تو “اشرف علی” میرے مقتدا و مطاع__ محبت کے مراکز اگر وہ تھے تو عقیدت کے مرجع یہ!
______آپ بیتی (ص:۲۹۳/۲۹۵)