پیر امین الحسنات کی طرف سے اپنا سیاسی سفر پی ٹی آئی کے ساتھ شروع کرنے کا اعلان مسلم لیگ نون کے لئے اچھا شگون نہیں ہے۔ گو کہ بھیرہ کے پیر امین الحسنات کا نون لیگ کے ساتھ پرجوش تعلق گزشتہ عام انتخابات کے دوران ہی کمزور پڑ گیا تھا اور پیر صاحب کو نون لیگ کا ٹکٹ نہیں دیا گیا تھا (یا پھر اس وقت کے سیاسی حالات میں پیر صاحب نے خود ایک ایسا ٹکٹ لینے میں کوئی خاص دلچسپی نہیں ظاہر کی تھی جس میں ایک طرف ریاستی اداروں کے ساتھ تصادم کا پہلو تھا اور دوسری طرف تحریک لبیک و بریلوی ووٹ کی نون لیگ سے مخاصمت کا مسئلہ بھی تھا) مگر اس کے باوجود پیر امین الحسنات کا پی ٹی آئی کے ساتھ چلنے کا اعلان پنجاب میں نون لیگ کے لئے باعث تشویش ہونا چاہیئے۔ ایک ایسے وقت میں جب صوبائی انتخابات کا بگل بج چکا ہے اور پنجاب کے دیہی علاقوں میں پیروں اور سجادہ نشینوں کے سیاسی اثرورسوخ کو اپنے حق میں استعمال کرنے کی دوڑ سیاسی جماعتوں میں شروع ہوئی چاہتی ہے’ نون لیگ کے دیرینہ سیاسی حلیف بھیرہ کے اس خاندان کا پی ٹی آئی کی طرف جانا معنی خیز ہے۔
یہ بھی پڑھئے:
جانئے تو سہی عمران خان چاہتے کیا ہیں؟
پختونخوا میپ: ایک جماعت تین سربراہ
پیر امین الحسنات خود مسلم لیگ نون کی حکومت میں مذہبی امور کی وزارت پر فائز رہے ہیں۔ ان کے والد محترم ایک مایہ ناز علمی شخصیت تھے جنہوں نے بھیرہ میں دینی تعلیم کے ایک ایسے ادارے کی بنیاد رکھی جو اب باقاعدہ طور پر ایک چارٹرڈ یونیورسٹی کی صورت اختیار کر گیا ہے۔
روایتی طور پر پنجاب کا بریلوی ووٹ نون لیگ کو ملتا رہا ہے اور اس میں اس جماعت کے سینٹر-رائیٹ سیاسی جماعت ہونے کا بڑا ہاتھ تھا۔ پیپلزپارٹی کو پاکستان کے مذہبی طبقے میں سینٹر-لیفٹ کی جماعت کے طور پر مذہبی حلقوں میں کبھی بھی پزیرائی نہیں ملی۔ اس بات کا فائدہ نون لیگ اٹھاتی رہی ہے اور پنجاب میں مذہبی حلقوں نے ہمیشہ نون لیگ کو ترجیح دی۔ یہاں تک کہ جماعت اسلامی کا روایتی ووٹر بھی پنجاب میں نون لیگ کی طرف ہجرت کر گیا تھا۔ مگر اب گزشتہ کچھ عرصے سے نون لیگ اپنے اس نظریاتی تشخص کو کھو رہی ہے اور یہ ایک شہری اور ماڈریٹ آؤٹ لک کی حامل لبرل پارٹی کی شکل اختیار کرتی جا رہی ہے۔
کسی زمانے میں مذہبی حلقوں کے ساتھ روابط کے لئے نون لیگ کے پاس راجہ ظفرالحق کی طرح کی قد آور شخصیات صف اول کی قیادت کے طور پر موجود ہوتی تھی۔ مگر اب حالات بدل چکے ہیں۔ نون لیگ کے اندر موجود گروپ بندی میں بھی روایتی مذہبی اقدار کے حامل طبقے کے لئے کوئی خاص امکانات موجود نہیں ہیں۔ شہباز شریف کی کور ٹیم تو پہلے سے ہی خاصے لبرل سیاسی خیالات کے حامل افراد پر مشتمل ہے۔ اس پر مستزاد ان کے ٹیکنوکریٹ مشیر ہیں جو سلمان صوفی کی طرح کے افراد پر مشتمل ہیں۔ شہباز شریف پنجاب میں مذہبی حلقوں میں کبھی بھی ذاتی طور پر پاپولر نہیں رہے۔ دوسری طرف مریم نواز کی ابھرتی ہوئی قیادت میں بھی زیادہ تر جوان اور لبرل افراد سرگرم عمل ہیں۔ مریم نواز کو بطور قائد قبول کرنا بذات خود مذہبی طبقے کے لئے ایک مشکل مسئلہ ہے اور ان جماعتوں کے حامیوں کے لئے اسے آسانی سے ہضم کرنا ممکن نہیں ہے۔
نتیجہ یہ سامنے آ رہا ہے کہ نون لیگ کی طرف سے اس وقت متنوع مذہبی خیالات کی حامل شخصیات اور قوتوں کے ساتھ قیادت کی سطح پر روابط استوار رکھنے کے لئے کوئی بھی بااثر لیڈر موجود نہیں ہے۔ پنجاب میں تحریک لبیک پہلے ہی نون لیگ مخالف قوت کے طور پر موجود ہے۔ سیال شریف کی موثر گدی بھی پی ٹی آئی کے ساتھ ہے۔ اب پیر امین الحسنات کا بھی باقاعدہ پی ٹی آئی کی طرف چلا جانا اسی رجحان کی عکاسی کرتا ہے۔ ماضی میں بریلوی مکتب فکر کے فیصل آباد سے حاجی فضل کریم بھی نون لیگ کے سیاسی ہمسفر رہے تھے۔ گو وہ بعد میں اپنی راہیں جد کر گئے تھے جن پر ان کے صاحبزادے حامد رضا پوری شدت اور سختی کے ساتھ کاربند ہیں۔ حامد رضا بھی اس وقت پی ٹی آئی کے ساتھ کھڑے ہیں۔ بریلوی مکتب فکر کے علاوہ شیعہ جماعت مجلس وحدت المسلمین بھی اس وقت پی ٹی آئی کی باقاعدہ حلیف ہے۔ روایتی دیہاتی ماحول کے پاپولر کلچر میں مختلف گدی نشینوں سے وابستہ عوام میں ایک خاص زاویہ سے بریلوی-شیعہ تفریق تقریبا مٹ جاتی ہے جس کا سیاسی فائدہ پی ٹی آئی کا کسی حد تک مل سکتا ہے۔
بعض مبصرین کے مطابق پاکستان کی سیاست میں بالعموم اور پنجاب کی سیاست میں بالخصوص مذہبی ووٹ کی کوئی خاص اہمیت نہیں ہے۔ اس بیانیہ کی تائید میں عموما مذہبی جماعتوں کے حاصل شدہ ووٹ اور نشستوں کو بطور مثال پیش کیا جاتا ہے۔ ایک خاص تناظر میں یہ بات اپنی جگہ درست ہے مگر الیکٹورل سیاست میں جہاں ایک ایک ووٹ کی اہمیت ہوتی ہے اور دھڑے بندیوں کو مسلمہ اہمیت حاصل ہے’ وہاں مذہبی رجحانات کے تحت ووٹ ڈالنے والے ووٹرز کو یکسر نظرانداز کرنا درست نہیں ہوگا۔
نون لیگ اپنی سیاسی حکمت عملی کی بنیاد پر سردست سکڑ کر پنجاب میں محدود ہوچکی ہے۔ اس سے قبل یہی حال پیپلزپارٹی کا ہوا تھا کہ وہ اندرون سندھ تک محدود ہو کر رہ گئی تھی۔ نون لیگ کا پنجاب تک محصور ہونا اس لحاظ سے زیادہ سنگین بات ہے کہ پیپلز پارٹی کو کم از کم اندرون سندھ کسی قابل ذکر انتخابی چیلنج کا تاحال سامنا نہیں کرنا پڑتا۔ اس کے برعکس نون لیگ کو پنجاب کی ہر دیہی و شہری نشست پر پی ٹی آئی (اور جنوبی پنجاب کی بعض سیٹوں پر پیپلزپارٹی) کی طرف سے بھرپور مقابلے کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ اس تناظر میں پنجاب سے نون لیگ کے روایتی مذہبی حلیفوں کا پسپائی اختیار کرنا اس جماعت کے لئے خوش آئند انتخابی مہم کا آغاز نہیں ہے۔