ڈاکٹرشاہدصدیقی پاکستان کے نامورماہرتعلیم اورماہرلسانیات اورانگریزی اوراردوکے معروف مصنف،ادیب اورکالم نگارہیں۔ان کاایک ناول”آدھے ادھورے خواب” شائع ہوکرمقبولیت حاصل کرچکاہے۔ جس کے ناصرف متعددایڈیشن شائع ہوئے بلکہ اس کاسندھی،پشتو اور پنجابی میں ترجمہ بھی کیاگیا۔تعلیمی اورلسانی موضوعات پران کی کئی کتب شائع ہوچکی ہیں۔وہ طویل عرصہ تک ڈان اور نیوزمیں انگریزی کالم لکھتے رہے۔پھراردوکالم نگاری کی جانب آئے اوراردوکالم کے لیے سیاست،معیشت جیسے روایتی موضوعات کے بجائے تاریخ ،ثقا فت،لسانیات، تعلیم،موسیقی اورشخصیات پرقلم اٹھایا۔ جہاں ان کے یہ یکسرمختلف کالمزقارئین کی پسندیدگی حاصل کرنے میں بھی کامیاب ہوئے ،وہیں ان کاشماران روایتی کالمز میں نہیں کیاجاسکتا۔جن کے بارے میں کہاجاتاہے کہ ان کی زندگی عارضی ہوتی ہے۔شاہدصدیقی کا اسلوب دلکش وپراثراورزبان بیان سادہ اوردل میں اترنے والا ہے ۔یہ کالم ہمیشہ زندہ رہنے والے ہیں۔ اسی لیے ان کاکالمز کے دو انتخاب”زیرِآسماں” اور”موسمِ خوش رنگ” شائع ہوکرمقبولیت حاصل کرچکے ہیں۔
پوٹھوہار:خطہ دل رُبا”ڈاکٹرشاہدصدیقی کے کالمز کانیامجموعہ ہے۔جسے بک کارنرجہلم نے اپنے روایتی حسب طباعت سے آراستہ کیاہے۔ بہترین کتابت،عمدہ جلدبندی،غلطیوں سے پاک پروف خوانی، کتاب کے سرورق اوربیک پیچ کے اندر پوٹھوہارکے قدیم شہرراولپنڈی کی مشہورسوجان سنگھ حویلی کی چھت سے شہرکانظارہ پیش کیاگیاہے۔ تین سوچھتیس صفحات کی کتاب کی قیمت گیارہ سوپچیانوے بہت مناسب ہے۔ کتاب کاذیلی عنوان”خواب ہوتے گلی کوُچوں اوردل بروں کی کہانیاں” ہے۔دنیاکے بہت سے ادیبوں نے اپنے شہرکوتحریروں کا موضوع بنایاہے۔ لیکن شاہدصدیقی نے جس والہانہ پن سے پوٹھوہار کاذکرکیاہے اورقلم کے بجائے موقلم کااستعمال کیاہے۔اس نے مصور کی مانندپوٹھوہارکاپوراخطہ قاری کی نظروں میں گھوم جاتاہے اوراس نے جن جگہوں کودیکھاہوتاہے وہ اس کی نظروں میں پھرجاتی ہیں ۔کتاب کے انتساب سے بھی شاہدصدیقی کا خطے سے عشق آشکار ہوتاہے۔”پوٹھوہارکے نام۔جس کی سحرانگیزفضاؤںنے مجھے پروان چڑھایا اورجس کی مہکتی مٹی میں مجھے ہمیشہ کے لیے سوجاناہے۔”شاہدصدیقی جیساعاشق صادق جس خطے کوبھی میسرآئے،اس کی قسمت پر رشک کیاجاسکتاہے۔
شاہدصدیقی پوٹھوہارکے شہرراولپنڈی میں پیداہوئے۔راولپنڈی کے تاریخی گورڈن کالج سے ایم اے انگلش کے امتحان میں پہلی پوزیشن حاصل کی۔برٹش کونسل کے اسکالرشپ پربرطانیہ کی یونیورسٹی آف مانچسٹرسے ایم ایڈکیا۔کینیڈین اسکالرشپ پریونیورسٹی آف ٹورنٹوسے انگریزی لسانیات میں پی ایچ ڈی کی ڈگری حاصل کی اوربرطانیہ کے چارلس ویلس اسکالر شپ پرآکسفرڈیونیورسٹی میں پوسٹ ڈاکٹریٹ کا موقع ملا۔ڈاکٹرشاہدصدیقی پاکستان کے معروف ماہرتعلیم اورماہرلسانیات ہیں جوگزشتہ چاردہائیوں سے بطوراستاد،محقق، تعلیمی منتظم،ادیب اورمصنف کی حیثیت سے جانے جاتے ہیں۔ڈاکٹرصدیقی نے آغاخان یونیورسٹی، لاہوریونیورسٹی آف مینجمنٹ سائنسز،جی آئی کے انسٹی ٹیوٹ آف انجینئرنگ سائنسزاینڈٹیکنالوجی اورنیشنل یونیورسٹی آف ماڈرن لینگوجزمیں تعلیمی وانتظامی پوزیشن پرکام کیا۔وہ 2014ء سے 2018ء تک علامہ اقبال اوپن یونیورسٹی کے وائس چانسلررہے۔آج کل وہ لاہوراسکول آف اکنامکس میں فیکلٹی آف سوشل سائنسز،میڈیا اسٹڈیزآرٹ اینڈڈیزائن کے ڈین کے طور پرکام کررہے ہیں۔شاہدصدیقی ایک طویل عرصے تک قومی اخبارات ”ڈان’ اور”دی نیوز” میں لکھتے رہے۔آج کل روزنامہ دنیامیں باقاعدگی سے کالم لکھ رہے ہیں اورمتعددانگریزی اوراردوکتابوں کے مصنف ہیں۔
شکیل عادل زادہ ”زمین زاد” کے عنوان سے دیباچہ میں لکھتے ہیں۔شاہدصدیقی کے ہاں متن،موضوع اوراسلوب کی خوبیاں بہ درجہ کمال ہیں، قابلِ رشک حدتک خراماں خراماں سالہجہ،سادہ پرکار،سنجیدہ بھی اتنا،شگفتہ بھی اس قدر،رمزومعانی سے لبریز۔اس کااثروتاثرہی کچھ سوااورجداہے۔ پوٹھوہارپرکالموں کایہ مجموعہ کئی اعتبارسے منفردحیثیت اوردستاویزی اہمیت کاحامل ہے۔پوٹھوہارپرایسی کوئی مبسوط اوردل آویزکتاب نظروں سے نہیں گزری۔سب سے اہم بات تویہ ہے کہ اسے حقیقت آمیز،فکرانگیزتحریروں کے صورت گر،سخن طراز،سخن پرداز ڈاکٹرشاہدصدیقی نے قلم بندکیاہے۔اس مجموعے کے آئینے میں خطہ دل رباپوٹھوہارکانظارہ کیجیے ۔کیاکچھ یہاں نہیں ہے، کیسی کیسی داستانیں ، مقامات اورنادر روزگارہستیاں۔ ڈاکٹرصاحب کے ساتھ پنڈی کے کوچہ وبازار، قدیم بستیوں، حویلیوں،درس گاہوں سے ہوتے ہوئے ٹیکسلاکی بدھ یونیورسٹی،کٹاس راج مندر، سلطان سارنگ کے قلعہ روات، اٹک کے اکبری قلعے اورگلابی نمک کے خزینے کاسفرکیجیے اورایک سے ایک نام ور کااحوال جانیے۔شاہ مرادبابافضل کلیامی،سنگھوری کے شہید کیپٹن سرور، باقی صدیقی،فتح محمدملک، رشیدامجد،شاہدحمید، بل راج ساہنی، گلزار،مد موہن،سنیل دت،میناکماری، شیلندر اورآنندبخشی۔”
”کچھ کتاب کے بارے میں” میں شاہدصدیقی لکھتے ہیں۔”یہ کتاب محض تحریروں کامجموعہ نہیں بلکہ راولپنڈی اورپوٹھوہارسے میرے عشق کا احوال ہے۔یہ ان گلی کوچوں،عمارتوں،قلعوں،حویلیوں اوردل بروںکی کہانیاں ہیں جوہمیشہ میرے ساتھ رہے۔ یہ میری اپنی کہانی بھی ہے ۔جوکبھی میرے ساتھ ساتھ چلتی ہے اورکبھی بانسری کی لے کے تعاقب میں تاریخ کی گم گشتہ پگڈنڈیوں پرنکل جاتی ہے۔پوٹھوہار اورراولپنڈ ی کے دل بروں کی فہرست طویل ہے۔یہ بہادروں،صوفیوں،شاعروں اورمغنیوں،جفاکشوں اورتخلیق کاروںکی سرزمین ہے۔یہ پوٹھوہار کے ان سربستہ گوشوں کااحوال ہے جن کے طلسم نے مجھے اپنااسیربنالیا اورانھیں دیکھنے کاتجسس ایک نہ ختم ہونے والی تلاش میں بدل گیا۔یہ تاریخ کی کتاب نہیں صرف ان منظروں کابیان ہے جنھیں میری آنکھوں نے دیکھااورجن کالمس میری روح نے محسوس کیا۔”
شاہدصدیقی کی تحریرکیااوراق مصورہیں۔آپ اگراس خطے میں رہتے ہیں تو اس کی خوب صورت عکاسی سے محظوظ ہوں گے۔ اگرکبھی جانا ہوا تو مختلف نظارے آنکھوں میں تازہ ہوجائیں گے۔معروف شاعروکالم نگارمحمداظہارالحق نے کیاخوب لکھاہے۔” یہ تحریریں نہیں تصویریں ہیں، ہماراماضی دکھاتی تصویریں۔میرالڑکپن اور شبا ب بھی پوٹھوہار میں گزراکبھی سوچابھی نہ تھاکہ پوٹھوہاراتنادل نشیں تھا۔ لوگ نیویارک ، لندن اوراستنبول پرلکھتے ہیں۔پیرس ،فرینکفرٹ اور روم کویادکرتے ہیں۔شاہدصدیقی نے اپنی ہی گلیوں، اپنی عمارتوں،اپنے شہروں اوراپنے ہیروزپرلکھا اوریوںلکھاکہ آپ بیتی کوجگ بیتی کر دکھایا۔”
”پوٹھوہار خطہ دل ربا” کوسات ابواب میں تقسیم کیاگیاہے۔ پہلے باب” پوٹھوہارکی آغوش میں” بارہ کالم ہیں۔دوسراباب ”راولپنڈی :پوٹھوہا رکاجھومر”،میں سولہ کالم شامل ہیں، تیسراباب”راولپنڈی کے تعلیمی ادارے” ہے،جس میں پانچ کالموں کوجگہ ملی ہے۔ چوتھاباب” گورڈن کالج کی قوس ِ قزح”، میں چار کالمز ہیں۔پانچواں باب ”پوٹھوہارکی کہکشاں کے بچھڑ ے ستارے”،آٹھ کالمز پرمبنی ہے۔ چھٹاباب ”پوٹھوہارکے نیلم ومرجان” میں دس کالم اورساتویں باب” پوٹھوہاراورتاریخ کے خزانے ” میں نوکالمز شامل ہیں۔
مجموعی طورپران چونسٹھ کالمزمیں سفرنامہ، تاریخ ،ادب ،ثقافت،شخصی خاکے ،آپ بیتی اورجگ بیتی سب ذائقے موجود ہیں اورقاری کوایک ہی کتاب میں گوناگوں موضوعات سے لطف اندوزہونے کاموقع ملتاہے۔اپنے جائے پیدائش کے محل وقوع کابیان شاہدصدیقی کے الفاظ میں ملاحظہ کریں۔ ” پوٹھوہارقدیم تاریخ کے دامن میں ایک ایساجھلملاتاخطہ ہے جس کی چمک دمک کوزمانے کاالٹ پھیربھی کم نہ کرسکا۔ یہ مشرق میں دریائے جہلم اورمغرب میں دریائے سندھ کے درمیان کاعلاقہ ہے جوجنوبی کی طرف سے سالٹ رینج اورشمال میں مری کے پہاڑی سلسلے سے ملتاہے۔ پوٹھوہارکاعلاقہ جواپنے اردگردکے علاقوں سے بلندی پرواقع ہے جہلم،چکوال،اٹک، راولپنڈی اوراسلام آبادپرمشتمل ہے ۔ ان میں سے ہرایک ضلع اپنی جگہ یگانہ ہے۔یہ اونچے نیچے ٹیلوں، سرسبز کھیتوں،شاداب درختوں اورآزادہواؤںکادلرباعلاقہ ہے جو سترمیل پرپھیلاہواہے اور جہاں ہرموڑپرتاریخ کے نیلم ومرجان بکھرے ہوئے ہیں۔میں پوٹھوہارکی انہی سحرانگیزہواؤں میں پیداہوا،یہیں پلابڑھا اورپھرہمیشہ کے لیے اس کے حسن کااسیرہوگیا۔جب بھی مجھے زندگی کی بے ہنگم مصروفیات سے وقت ملتاہے پوٹھوہارکاحسن ِدل آویز مجھے چپکے سے آواز دیتاہے اورمیں بے اختیاراس کی پکار پرکھنچتاچلاجاتاہوں۔”
راولپنڈی کی وجہ تسمیہ اورتاریخ بارے میں بتاتے ہیں۔”راولپنڈی میری محبت ہے اورمحبت کوصرف محسوس کیاجاسکتاہے بیان نہیں کیا جا سکتا ۔ یوں بھی راولپنڈی کی پہچان کے کتنے ہی رنگ ہیں،کس کاانتخاب کریںاورکس کوچھوڑدیں۔راولپنڈی کانام راولپنڈی کیوں ہے، اس کی بھی دلچسپ کہانی ہے۔ راول ایک قبیلہ تھاجس کے نام پراس بستی کاآغازہوا۔پنڈمقامی زبان میں گاؤں کوکہتے ہیں۔ پنڈی اسم تصغیرہے یقینا یہ ایک چھوٹاساگاؤں ہواکرتاتھا۔راولپنڈی یعنی راول کاگاؤں۔راول قبیلے کوکیاخبرتھی کہ وقت کے ساتھ یہ چھوٹاساگاؤں ایک دن بڑے شہرمیں بدل جائے گااورپھریہ شہرمتحدہ ہندوستان میں انگریزوں کی سب سے بڑی چھاؤنی بن جائے گی۔انگریزوں نے راولپنڈی کاانتخا ب اس کے جغرافیائی محل وقوع کی وجہ سے کیاتھا۔جب سکھوں کوایسٹ انڈیاکمپنی کے ہاتھوں شکست ہوئی توپنجاب انگریزوں کے تسلط میں چلاگیا۔انگریزوں کے لیے شمالی علاقوں میں ابھی تک مزاحمت کے آثارتھے لہٰذاراولپنڈی کومرکزبناکرنہ صرف شمالی علاقہ جات میں مزاحمت کامقابلہ کیاجاسکتاتھابلکہ چین اور روس کی سرحدوں پربھی نظررکھی جاسکتی تھی۔راولپنڈی کی تاریخ میں ایک اہم موڑ اس وقت آیا جب 1886ء میں یہاں ریلوے لائن کاآغاز ہوا۔ ریلوے سے راولپنڈی کادوسرے شہروں سے رابطہ آسان ہوگیااوریوں یہاں کاروبار ی سرگرمیوں کوفروغ ملا۔ ”
کتاب کے پہلے باب کے کالمز میں شاہدصدیقی نے ”میراگاؤں میری دنیا” اپنے گاؤں کی کہانی کسی افسانے کے طرح بیان کی ہے۔ ”میری ماں میری استاد” کاشمارماں کے حوالے سے اردوکے چندعمدہ خاکوں میں کیاجاسکتاہے۔ ”سکینہ” ایک منفردکردارکاخاکہ لکھ کر مصنف نے اسے امربنادیا۔ ”میرے والدمیرے دوست” اور”انعام بھائی” بھی مختصراورپراثرخاکے ہیں۔تین چارصفحات میں شاہدصد یقی نے ان کی شخصیت کانچوڑکمال مہارت سے پیش کیاہے۔ ”پوٹھوہار میں فصلوں کی کٹائی کاموسم” بہت معلومات افزاکالم ہے۔جس میں فصلوں کی کٹائی کوکس طرح ایک تہوارکی طرح منایاجاتاہے ۔کسی گاؤں کی یہ جیتی جاگتی تصویرہے۔جہاں فصل کی کٹائی پرپوراگاؤں ایک ہو جاتاہے اورسب کوان کاحصہ بقدرجثہ ملتاہے۔”گاؤں کامیلہ” اور”گاؤں،بچپن اوررمضان ” بھی کسی بھی گاؤں کی تحریری تصویریں ہیں کہ گاؤں نہ دیکھنے والے بھی اس پورے ماحول اورتہذیب سے آشناہوجاتے ہیں۔
”راولپنڈی:پوٹھوہارکاجھومر”اور”راولپنڈی کے تعلیمی ادارے” ان دوابواب میں شاہدصدیقی راولپنڈی شہرکی بے مثال عکاسی کی گئی ہے۔ دنیابھرکے مصنفین نے اپنے شہروں کابہت خوب صورتی سے ذکرکیاہے۔ کئی ناول وافسانہ نگاروں کی تحریروں میں ان کے شہرکودیکھاجاسکتا ہے۔لیکن شاہدصدیقی نے جس محبت سے پنڈی کوپیش کیاہے۔اس کاجواب نہیں۔”ٹاہلی موہری،راولپنڈی کی قدیم بستی”،” ڈھیری حسن آباد ،راولپنڈی کی تاریخی بستی”،” راولپنڈی کی لال کرتی” ،” راولپنڈی کی بینک روڈ” ،”راولپنڈی کی کالج روڈ” ،”راولپنڈی کی ہارلے اسٹریٹ” ،”مریڑحسن اورمارچ کاایک مہکتاہوادن”،”راولپنڈی کی گوال منڈی” ،”راولپنڈی کالیاقت باغ” ،” راولپنڈی کی قدیم تاریخی جامع مسجد” ،”راولپنڈی بدھابائی اورلال حویلی” ،”راولپنڈی کی سردارسوجان سنگھ حویلی”،”راولپنڈی کی بیکریاں”،”راولپنڈی کے سینما گھر”اور”اپنی گلی میں اجنبی”میںشہرکومجسم کردیاہے۔
ذراٹاہلی موہری کے نام کی کہانی بھی سنیے۔”ٹاہلی موہری کے نام کی کہانی بھی دلچسپ ہے۔پوٹھاہارکاخطہ اونچے نیچے ٹیلوں کی سرزمین ہے ۔ پوٹھوہاری زبان میں موہری اونچی زمین کوکہتے ہیںاورٹاہلی (شیشم) کادرخت پوٹھوہار میں فراوانی سے پایاجاتاہے۔ٹاہلی موہری کی بستی بلندی پرواقع تھی جہاں ٹاہلی کے درختوں کی بہتات تھی۔”
یہ بھی پڑھئے:
قریشی صاحب کا ٹوٹا تارا اور عمران خان
پیر امین الحسنات عمران خان کو پیارے کیوں ہوئے؟
جانئے تو سہی عمران خان چاہتے کیا ہیں؟
کسی شہرکے بارے میں ایسی دلچسپ معلومات بھلااورکہاں ملے گی۔”پوٹھوہارخطہ دل ربا” میں پنڈی کی ایک ایک گلی اورایک ایک سڑک اوروہاں رہنے والوں کاذکراس والہانہ انداز میں کیاگیاہے کہ قاری اسے باربارپڑھنے اوریادرکھنے پرمجبورہوجاتاہے اوراسے محسوس ہوتا ہے کہ ”یہ تووہی جگہ ہے گزرے تھے ہم جہاں سے” ان میں کچھ دلچسپ کردارذہن سے چپک کررہ جاتے ہیں۔”قاضی روڈکے بائیں ہاتھ ایک اونچی سرسبزپہاڑی تھی جہاں ایک غیرملکی عورت رہتی تھی، وہ عجیب پراسرارکردارتھا۔وہ سردیوں میں لمبااوورکوٹ پہنے ہوتی اوراس کے ساتھ بہت سے کتے چل رہے ہوتے ہم سب لڑکے اسے کتوں والی میم صاحب کہتے تھے۔یہ میرے اسکول کے دنوں کی بات ہے،میں اکثر سوچتاہوںکہ وہ اپنے ملک سے دوراس پہاڑی پراکیلے کیسے رہتی ہے۔ سردیوں کی ٹھٹھرتی ہوئی شاموں اورگرمیوں کی تپتی ہوئی دوپہر میں وہ یوں ہی چپ چاپ گم سم سڑک پرچلتی نظرآتی اورآہستہ آہستہ پہاڑی پرچلتے ہوئے ہماری نظروں سے اوجھل ہوجاتی۔اب توڈھیری حسن آبادگئے ہوئے ایک عرصہ ہوگیا ہے۔وہ زمانہ ایک خواب ہوگیا۔ہاں کبھی کبھارجب زوروں کی بارش ہوتی ہے اورہوائیں سیٹیاں بجاتے گزرتی ہیں تومیرے تصور میں ڈھیری حسن آبادکی سرسبزپہاڑی جاگ اٹھتی ہے اورمیں دیکھتاہوں کہ تیزہواؤں میں اپنے لمبے اوورکوٹ کو مضبوطی سے پکڑے ایک عو رت سہج سہج پاؤں رکھتے اس سرسبزپہاڑی پرجارہی ہے جس کے آخرمیں اس کابارش میں بھیگتا ہو ا تنہا گھر ہے۔ ” کیا پڑھنے والا بھی مصنف کے ساتھ اس عورت کوچلتانہیں دیکھتا؟
اب ”راولپنڈی کی لال کرتی ” میںمحلہ کے نام کی وجہ ملاحظہ کریں۔”لال کرتی کی میری اولین یادمیراپرائمری اسکول ہے جوماموںجی روڈپرایوب ہال کے سامنے تھا۔مجھے یادہے تیسری جماعت میں جب میں اسکول میں داخل ہواتواورسوالوں کے علاوہ میرے ذہن میں ایک سوال یہ بھی تھاکہ لال کرتی لال کرتی کیوں ہے؟ بہت دنوں بعدہمارے ایک استادنے یہ الجھن دورکردی انھوں نے بتایاکہ لال کرتی پہلے اس جگہ کانام برٹش انفنٹری بازارتھا،یہ گوروں کی چھاؤنی تھی، رائل برٹش انڈین آرمی کے یونیفارم میں لال رنگ کی شرٹ ہوتی تھی یوں اس علاقے میں ہرطرف یہی رنگ نظرآتاتھااس لیے اس کانام لال کرتی مشہورہوگیا۔پاکستان اورہندوستان کے کئی شہروںمیں جہاں چھاؤنیاں تھیں وہاں لال کرتی کاعلاقہ بھی تھا۔دہلی ،انبالہ،میرٹھ،کان پور،پشاور،لاہوروغیرہ میں ایک عددلال کرتی تھی۔بعدمیں نہ تووہ رائل آرمی رہی اورنہ ہی وہ لال رنگ کی کرتی جووہ پہناکرتے تھے،اب لال کرتی کانام طارق آبادرکھ دیاگیاہے لیکن لال کرتی کارنگ اتنا کچا نہ تھا، سوابھی تک لوگ اسے پرانے نام سے ہی جانتے ہیں۔”
اب ذرالال کرتی علاقے کی کچھ تفصیلات بھی دیکھیں۔” لال کرتی کی ایک اہم عمارت ‘زلف بنگال’ تھی۔یہ عمارت ایک باثروت تاجرایشر داس کی ملکیت تھی۔ایشرداس’زلف بنگال’ کے نام سے تیل بنایاکرتاتھاجومتحدہ ہندوستان کے مختلف شہروں میں مقبول تھا،اسی مناسبت سے اس عمارت کانام بھی زلف بنگال رکھاگیا۔ذراآگے بڑھیں توبائیں ہاتھ بگاہوٹل تھا،جہاں ہروقت گاہکوں کی بھیڑہوتی۔اس کے ساتھ گڈلک بیکری تھی۔اس کے بالکل سامنے عیدگاہ تھی جہاں عیدکی نمازکے علاوہ مذہبی اورسیاسی جلسے بھی ہوتے تھے۔گڈلک بیکری سے آگے لال کرتی کی معروف پان شاپ تھی جس کانام دارالسرورتھا۔یہ ایک چھوٹی سی دکان تھی جس کے مالک محمدیوسف صاحب بہت نازک مزاج تھے۔مثلاً اگرکوئی کہے،اچھاساپان بنادیں، تووہ چِڑجاتے تھے اورکہتے تھے یہاں پان بہت اچھے ہیں،آپ کوکہنے کی ضرورت نہیں ۔ عقبی دیوارپرپانوںکے نام لکھے تھے۔واہ واہ ! حاجی صاحب کے ذہن ِ رسانے پانوں کے کیاکیانام تخلیق کیے تھے۔شام اودھ،چلتے چلتے، ہم سے نہ بولو، مغل اعظم،زینت لب،ہوہوہو،اکیلے نہ جاناوغیرہ۔مجھے یادہے طارق عزیزنے اپنے مقبول ٹی وی شونیلام گھرمیں اس پان شاپ کاخصوصی ذکرکیاتھا۔”
بھلاایسی دلچسپ تفصیلات قاری کوکہاں میسر آسکتی ہیں۔پھرمصنف پیرایہ بیان سونے پرسہاگا۔اگرآپ کبھی ایک بار بھی اس جگہ گئے ہیں تو پوراشہراورعلاقہ نظرں میں پھرجاتا ہے اورنہیں گئے توصورت تصویرمصورہوجاتاہے۔ ہارلے اسٹریٹ کاذکرکرتے ہوئے شاہدصدیقی لکھتے ہیں۔”اب مجھے راولپنڈی چھوڑے ایک عرصہ ہوگیاہے۔ ہارلے اسٹریٹ کودیکھے بھی ایک زمانہ بیت گیاہے، لیکن اس زمانے کی کچھ یاد یںاب بھی میرے ساتھ ساتھ چلتی ہیں۔معروف مزاح نگارشفیق الرحمٰن کاگھربھی ہارلے اسٹریٹ میں واقع تھا۔ادب اورادیبوں کاذکرہو تو بیگم سرفرازاقبال کے ذکرکے بغیرادھوراہے۔ان کاگھرادیبوں کاٹھکانہ ہوتاتھا۔فیض صاحب جب بھی راولپنڈی آتے ان کاقیام یہیں پر ہوتا۔منیرنیازی،اب انشا،فرازغرض اس دورکے سب اہم ادیبوں اورشاعروںکایہ گھراہم مرکزتھا۔ہارلے اسٹریٹ میں ادب کاایک اور مرکزڈاکٹرایوب مرزاکاگھرتھا،وہ فیض صاحب کے چاہنے والے تھے۔پی ٹی وی کی انگلش نیوزریڈرشائستہ زیدکاگھربھی ہارلے اسٹریٹ میں تھا۔ٹیلی ویژن کی ناموراداکارہ ساحرہ کاظمی بھی ہارلے اسٹریٹ میں رہتی تھیں۔معروف دانشوراورصدرایوب کے زمانے میں سیکریٹری اطلاعات الطاف گوہربھی یہیں رہتے تھے۔بھٹوصاحب نے بھی ہارلے اسٹریٹ میں ایک گھرتعمیرکرایاتھاجوان کی بیگم نصرت بھٹوکے نام تھا لیکن اسی دوران وہ وزیراعظم بن گئے تووہ گھرصفدرعلی شاہ نے ان سے خریدلیا۔ اس گھرکے ہمسائے میں صاحبزادہ یعقوب علی خان رہتے تھے۔یہیں پریحیٰی خان کابھی گھرتھاقریب ہی اس وقت کے وزیرتعلیم حفیظ پیرزادہ کاگھرتھا۔ہارلے اسٹریٹ کی اہمیت کا اندازہ اس سے بھی لگایاجاسکتاہے کہ یہاں پرمختلف ممالک کے سفارت خانے بھی تھے۔جن میں ناروے، سویڈن اورچین کے سفارت خا نے شامل تھے۔دنیاکے ہنگاموں سے جی اکتاجاتاہے تومیں آنکھیں بندکرکے تصورکے دوش پرہارلے اسٹریٹ پہنچ جاتاہوں۔یوں لگتا ہے پراناوقت لوٹ آیاہے اورگھنے درختوں کاسایہ میرے سرپرہے اورپتوں سے ٹھنڈی ہواچھن چھن کرمیرے گالوں کوچھورہی ہے۔”
ایسادل نشین اسلوب بہت کم کالم نگاروں کی تحریر میں نظرآتاہے۔وہ قاری کواپنے ساتھ لے کرچلتے ہیںاپنی آنکھ سے دیکھے مناظراس کے دل میں اتاردیتے ہیں۔یہ ہنربہت کم لکھاریوں کومیسرہے۔راولپنڈی کے لیاقت باغ کے بارے میں لکھتے ہیں۔” لیاقت باغ کبھی کمپنی باغ کہلاتاتھا۔یہ نام ایسٹ انڈیاکمپنی کی مناسبت سے تھا۔بہت سے قومی رہنماؤںنے کمپنی باغ میںجلسوں سے خطاب کیا۔پھرکمپنی باغ کی تاریخ میں سولہ اکتوبر1951ء کادن آیا۔اس دن وزیراعظم لیاقت علی خان نے ایک جلسے سے خطاب کرنا تھا۔وہ اپنی زندگی کی اہم ترین تقریرکرنے جارہے تھے۔ ابھی وہ برادران ملت ہی کہہ پائے تھے کہ دوفائرہوئے۔لیاقت علی خان تیوراکرگرپڑے۔مجمع پرسکتہ طاری ہوگیا۔ پھرایک اورفائرہوااورہجوم میں افراتفری مچ گئی۔ایک شخص سیداکبرکوپکڑلیاگیااوراس پراتناتشددکیاگیاکہ اس کی موت واقع ہوگئی۔ سیداکبراس روزاپنے گیارہ سالہ بیٹے کے ہمراہ جلسے میں شرکت کے لیے آیاتھا۔اگروہ قتل کے ارادے سے آیاہوتاتوبیٹے کوساتھ لانے کی وجہ سمجھ سے باہرہے۔ کچھ لوگ اس قتل کوایک بڑی سازش کاحصہ قراردیتے ہیں۔جس کی وجہ سے لیاقت علی خان کی خارجہ پالیسی کارخ امریکا کے بجائے روس کی طرف ہوناتھا۔قتل کے بعدان کی یادمیں کمپنی باغ کانام بدل کرلیاقت باغ رکھ دیاگیا۔”
شیخ رشیدکی لال حویلی کی اصل کہانی ”راولپنڈی،بدھابائی اورلال حویلی ” کسی خوب صورت افسانے سے کم نہیں اورجس کاتاثردیرپاہے۔ ”راولپنڈی کے تعلیمی ادارے میں شاہدصدیقی نے”سی بی پرائمری اسکول لال کرتی”،” سی بی ٹیکنیکل اسکول لال کرتی”،”سی بی سرسید کالج مال روڈ”،”راولپنڈی گورڈن کالج” اور”راولپنڈی کااصغرمال کالج”کاذکرکیاہے۔ ان میں سے پہلے چاراداروں میں انہوں نے تعلیمی مدارج طے کیے اورپانچویں میں بطوراستادکام کیا۔
”گورڈن کالج کی قوس وقزح”کے چارکالموں میں شاہدصدیقی نے اپنے محترم اساتذہ کوخراج تحسین پیش کیاہے۔ اس کاہرخاکہ محبت اور عقیدت سے لبریزہے۔گورڈن کالج کازمانہ میری کتاب زندگی کاایک یادگاربات ہے۔یہ محض کالج نہ تھاایک تہذیب اورایک ثقافت کا نام تھا۔کیسے کیسے اساتذہ تھے جن کے علم اورتجربے سے ہم نے خوشہ چینی کی ۔پروفیسروکٹرمل، سجادشیخ نصراللہ ملک، سجادحیدرملک،آفتاب اقبال شمیم اورتوصیف تبسم۔ان میں سے ہرشخص اپنی ذات میں انجمن،ایک ادارہ تھا لیکن اس کہکشاں کاسب سے روشن ستارہ خواجہ مسعود تھے جواساتذہ اورطالب علموں کے لیے انسپریشن تھے۔خواجہ صاحب کی زندگی کثیرالجہت تھی۔وہ بیک وقت ایک استاد، ایک منتظم،ایک بے مثال مقرر،ایک کالم نگار اورایک سوشل ایکٹیوسٹ تھے۔ ان کامطالعہ وسیع تھا۔ادب ،فلسفہ،سیاست،مذہب،تاریخ، سائنس، وہ کسی بھی موضوع پربولتے تویوں لگتاوہ اس کے ماہر ہیں۔وہ بطور پرنسپل ہروقت متحرک رہتے تھے جہاں کہیں دیکھتے کلاس میں ٹیچرموجودنہیں تو وہاں جاکر پڑھاناشروع کردیتے۔”
”پوٹھوہارخطہ دل ربا” کاسب سے دلچسپ باب”پوٹھوہارکی کہکشاں کے بچھڑے ستارے” ہے۔ جس میں مصنف نے اس خطے سے تعلق رکھنے والی شخصیات کاپراثرخاکے تحریرکیے ہیں۔ جن میں بھارت کے مشہورموسیقارمدن موہن، مایہ نازشاعر،افسانہ نگار،ہدایتکار،پروڈیوسر اورنہ جانے کیاکیاسمپورن سنگھ عرف گلزار،سنیل دت، میناکماری، آنندبخشی،بلراج ساہنی اورفلمی شاعرشیلندرشامل ہیں۔یہ تمام خاکے شاہد صدیقی نے افسانوی اندازمیں لکھے ہیں۔میناکماری کے خاکے سے اقتباس دیکھیں۔” علی بخش بھیرہ کارہنے والاتھا، جسے موسیقی کاشوق تھا اور جوایک روزاپنے شوق کی انگلی پکڑکربمبئی پہنچ گیاتھا،جہاں پارسی تھیٹرمیں اسے چھوٹاموٹاکام ملناشروع ہوگیاتھا۔وہی پراس کی ملاقات اقبال بانوسے ہوئی جس کا پہلانام پربھاتھا۔ علی بخش اوراقبال بانومیں فن کی محبت مشترک تھی۔پھردونوں کی شادی ہوگئی۔ان کے ہاں فن کی دولت توتھی لیکن گھرمیں مفلسی نے ڈیرہ ڈالرکھاتھا۔ان کی ایک بیٹی تھی جس کانام خورشیدتھا۔ایک اوربیٹی پیداہوئی توعلی بخش کے پاس ہسپتال کے اخراجات پورے کرنے کے بھی پیسے نہیں تھے۔علی بخش اسے پیدائش کے فوراً بعدایک قریبی یتیم خانے چھوڑآیا،لیکن واپس گھر آتے آتے اسے اپنی بیٹی یادآنے لگی۔وہ انھیں قدموں واپس لوٹااوریتیم خانے سے بچی واپس لے آیا۔اس بچی کانام مہ جبیں رکھاگیاجسے دنیااپنے زمانے کی معروف اداکارہ میناکماری کے نام سے جانتی ہے۔”
”پوٹھوہارکے نیلم ومرجان” میں خطے کی یادگارزمانہ شخصیات کابیان ہے۔ جن میں شاہ مراد، بابافضل کلیامی،میاں محمدبخش،کیپٹن سرورشہید نشان حیدر، داداامیرحیدر،باقی صدیقی، فتح محمدملک، رشیدامجد،یوسف حسن اوربک کارنرجہلم کے بانی شاہدحمیدشامل ہیں۔شاہدحمیدکی منفرد سوچ بارے میں لکھا۔”مجھے کچھ برس پہلے مارچ کامہینہ یادآجاتاہے جب مجھے شاہدحمید کاسندیسہ ملاتھا۔یہ دراصل ان کی صاحبزادی رخسار کی شادی کادعوت نامہ تھا،اس دعوت نامے کی پیشانی پر’سندیسہ’ لکھاتھا۔ سندیسہ لفظ دیکھ کرمیں مسکرادیا۔شاہدحمیدکی شخصیت میں تخلیق کا رنگ گہراتھا۔وہ لفظوںکے صوتی اورمعنوی حسن کادل دادہ تھا۔پامال راستوںکاسفراسے کبھی نہیں بھایا۔وہ ہرچیزمیں ایک نیاپن دیکھنا چاہتاتھا۔اپنے بچوں کے نام رکھنے کامرحلہ آیاتوتب بھی اس کی جدت پسندی اسے انفرادیت کے راستے پرلے گئی۔ بڑے بیٹے کانام گگن رکھا، دوسرے بیٹے کاامر، بیٹیوں کے نام بھی ایسے ہی جداگانہ ہیں۔سحر،حنا اوررخسار۔ ان ناموں میں انفرادیت،معنویت اور موسیقیت ہے ۔یہی شاہدحمیدکی شخصیت کاخاصاتھا۔وہ معیاری کونٹینٹ کے ساتھ ساتھ اس کی دلفریب پیش کاری پربھی اتناہی یقین رکھتاتھا۔ اس کایہی وصف اس کے ہمراہ تھاجب وہ کتابوں کی دنیامیں آیا۔کم سنی میں ہی اس کے والدکاسایہ سرسے چھن گیاتھا۔پھرزمانے کی جھلسادینے والے دھوپ تھی اورایک دشت بے اماں کاسفر۔ایسے میں کتابوںکی دنیانے اسے اپنی آغوش میں پناہ دی۔اب کتابیں ہی اس کی دوست اورغم گسارتھیں۔”
کتاب کاآخری باب ”پوٹھوہاراورتاریخ کے خزانے”میں اس علاقے کی تاریخی اہمیت کے حامل مقامات کاذکرہے۔ غرض”پوٹھوہار،خطہ دل ربا” میں خطے کے بارے میں کوئی پہلوشاہدصدیقی نے ان کہانہیں چھوڑا۔اس بے مثال کتاب کے تخلیق پرڈاکٹرشاہدصدیقی قارئین کے شکریہ کے مستحق ہیں اوربک کارنرجہلم جس کی ہرکتاب ہی ایک سے بڑھ کرایک ہوتی ہے اورجس نے کتاب کلچرکوفروغ دینے میں اہم کردار اداکیاہے۔ اپنی اس پیش کش پربجاطور پرفخر کااظہارکرسکتاہے۔