نیا دور’ رضا رومی اور نجم سیٹھی کی طرح کے وہ سارے تجزیہ نگار جو عمران خان حکومت کے خاتمے کی خبریں دیتے تھے آج عمران کی اقتدار میں واپسی کی پیشین گوئیاں کر رہے ہیں۔ اس وقت یہ اہم نہیں ہے کہ عمران خان اقتدار میں واپس آ سکتا ہے کہ نہیں بلکہ زیادہ اہم بات یہ ہے کہ اقتدار سے رخصتی کے بعد سے اب تک ملکی و غیر ملکی سطح پر کن قوتوں کی مسلسل سپورٹ عمران خان کو حاصل رہی ہے۔
واقفان حال جانتے ہیں کہ ملکی سطح پر اسٹیبلشمنٹ کی پروردہ زیر زمین قوتیں ایک لمحہ کے لئے بھی عمران خان کے خلاف نہیں ہوئیں تھیں اور ان کی مسلسل سپورٹ عمران خان کو حاصل رہی۔ ان قوتوں کو اگر ڈیپ اسٹیٹ کی پراکسی مانا جائے تو پھر یہ بھی ماننا پڑے گا کہ ڈیپ اسٹیٹ ایک دن کے لئے بھی پراجیکٹ عمران خان سے دستبردار نہیں ہوئی تھی۔
یہ بھی پڑھئے:
ضمنی الیکشن: وہ ٹریپ جو پی ڈی ایم کی شکست کا باعث بنا
مزاحمت اور علی اکبر عباس کی شاعری
عمران خان کو سوشل میڈیا سمیت میڈیا کے مخصوص اینکرز خاص کر کامران خان جیسے کرداروں کی جو غیر مشروط حمایت حاصل رہی وہ بہت معنی خیز تھی۔ ان عوامل پر غور کرنے کے بجائے ہم زیادہ تر عمران خان کی فوج کے سربراہ اور ان کی ٹیم سے جاری لفظی جنگ کو دیکھتے رہے جبکہ پردے کے پیچھے کوئی اور کھیل جاری تھا۔ اس عرصے کے دوران عمران خان کو جس طرح کے مالی وسائل دستیاب رہے وہ بھی ڈیپ اسٹیٹ کی مرضی و منشا کے بغیر فراہم ہونا ناممکن ہوتے ہیں۔
بین الاقوامی فرنٹ پر عمران خان کو درپردہ کن قوتوں کی حمایت حاصل ہے اس بارے میں بھی سنجیدہ گفتگو کی ضرورت ہے۔ مولانا فضل الرحمن کا عمران خان پر یہودی لابی کے زیراثر ہونے کا الزام تو خیر ایک سیاسی نعرہ بازی ہے مگر عمران خان پراجیکٹ میں متحدہ عرب امارات سمیت برطانوی اسٹیبلشمنٹ کی دلچسپی پر ہمارے ہاں بالکل بھی تبصرہ نہیں کیا جاتا۔