‘دل’ بظاہر گوشت کا دھڑکتا ہوا ایک لوتھڑا جو سارے بدن میں لہو کو گرم اور رواں رکھنے کا ذمہ دار ہے مگر ساتھ ہی یہ دل ہی تو ہے جو ہمارے تمام جذبات و احساسات کو خود میں سمیٹ کر رکھتا ہے۔ گر یہ سرد و گرم جذبات و احساسات نہ ہوں تو انسان اور پتھر سے بنے مجسمے میں کوئی فرق نہیں۔ یہ جذبات کے ایک ایسے ٹھاٹھیں مارتے سمندر کا نام ہے جس کی وسعت کا کبھی کوٸی اندازہ ہی نہیں لگا سکا۔ یہ چاہے تو اپنے اندر دنیا سمو لے اور نہ چاہے تو تارک الدنیا ہو کر فقیرانہ روش اختیار کر لے۔ سنجوگ سے روگ کا سفر بھی ہنس کر طے کرے۔ سرخوشی کے عالم میں ایک دنیا لٹا دے اور تکلیف میں ہو تو اپنے رب کا گھر بن جائے۔ یہ دل ہی تو ہے جو محفل میں ویرانہ اور ویرانوں میں محفل سجا دیتا ہے۔ دل چہکے تو زندگی مہکے مگر جب یہی دل بوجھل ہو تو زندگی کتنی اداس و مضمحل ہو جاتی ہے۔
نرم اور حساس ہونا اس کی نہایت قیمتی و اعلی ترین صفات ہیں جو اپنی روشن کرنوں سے تمام عالم کو معطر و منور کر دیتی ہیں۔ مگر اتنی اعلی صفات کا حامل ہونے کے باوجود کبھی سوچا ہے کہ یہی دل زندگی کے ایک مرحلے پر آ کر سخت کیوں ہو جاتا ہے؟
یہ بھی دیکھئے:
ضمنی انتخابات کیا جلد انتخابات کی راہ ہموار کریں گے؟
مزاحمت اور علی اکبر عباس کی شاعری
دل تو نازک اور کومل جذبات و احساسات کو سمیٹ کر اپنے اندر محفوظ رکھتا ہے۔ ان جذبوں کی آبیاری کرتا ہے مگر پھر ایسا کیوں ہوتا ہے کہ ایک وقت ایسا بھی آتا ہے جب یہی نرم و نازک دل ہر جذبے سے عاری ہو جاتا ہے اور دیکھنے والوں کو پتھر کی طرح سخت نظر آتا ہے اور انہیں ایسا محسوس ہوتا ہے کہ شاید اس بدن میں دل جیسی شے کا وجود ہی نہیں۔
یہ حقیقت ہے کہ جب دل کی جگہ پتھر رکھ لیا جاتا ہے تو پھر وہ واقعی نہیں دھڑکتا۔ ہر جذبے ہر احساس سے عاری ہو کر کسی روبوٹ کی مانند کام کرتا ہے۔ یہاں تک کہ پھر کسی دوسرے کے آنسو اور کسی کا گڑگڑانا بھی اس پر اثر نہیں کرتا۔ خوشی کے لمحات بھی اسے وہ حقیقی مسرت نہیں دے پاتے جو ان لمحوں کا حق ہوتا ہے۔ سخت دل والوں کو لوگ ظالم اور بے حس گردانتے ہیں مگر یہ سختی بہت کم فطری ہوتی ہے۔ تند خوئی، سنگ دلی اور بے حسی پیدائشی ہرگز نہیں ہوتی۔ سرد مہری کے پیچھے نہ جانے کتنے طوفان چھپے ہوتے ہیں۔ لوگوں کی نظر میں یہ سخت گیر اور ظالم دراصل بہت پیچھے کہیں ماضی میں نرم طبع اور مظلوم رہ چکے ہوتے ہیں۔
لوگ یہ کیوں نہیں سمجھتے کہ دہکتا ہوا لاوا بھی جب آتش فشاں کے پھٹ پڑنے سے باہر نکلتا ہے تو پہلے پہل نرم ہی ہوتا ہے مگر پھر آہستہ آہستہ اطراف کی یخ بستہ سرد ہواؤں سے روشناس ہو کر ہی ٹھنڈا ہوتا ہے اور پھر وقت کے ساتھ سخت سے سخت تر ہوتا چلا جاتا ہے۔ یہاں تک کہ ایک وقت ایسا بھی آتا ہے کہ پھر کوئی موسم اس پر اثر نہیں کرتا وہ اپنی خاصیت میں بظاہر سخت اور بنجر ہوتا ہے مگر صرف نظر شناس ہی جانتے ہیں کہ اس سختی میں کیا راز پوشیدہ ہے۔ اکثر دل بھی ایسے ہی سخت ہوتا چلا جاتا ہے۔ خود پر ایک غیر فطری خول چڑھائے ہوئے یہ لوگ جو بظاہر سخت دل نظر آتے ہیں ان میں سے اکثریت کی بھی یہی داستانِ الم ہوتی ہے۔ دل لمحوں میں سخت نہیں ہوتا۔ پتھریلے مجسمے ایک دن میں نہیں بنتے۔ اپنوں کے تلخ رویے، ریزہ ریزہ توقعات اور مایوس لمحات جیسے نہ جانے کتنے ماہر سنگ تراش مل کر اس دل کی تراش خراش کرتے ہیں۔ تشنہ خواہشات اور اپنوں سے وابستہ توقعات کے ٹوٹنے کی اذیت معمولی نہیں ہوتی۔ لہجوں کو جھیلنا اور چبھتے جملوں کا کڑوا جام پینا آسان نہیں۔ اپنی ہی ذات کی نفی برداشت کرنا اور خود کو نظرانداز ہوتے دیکھنا جہاں بہت سوں کو توڑ کر انہیں ریزہ ریزہ کر دیتا ہے تو وہیں بہت سوں کو مجسموں میں بھی ڈھال دیتا ہے۔ وہ مجسمے جو ہر قسم کے جذبات و احساسات سے عاری ہوتے ہیں۔ جو پھر نہ کچھ بولتے ہیں نہ کسی کی سنتے ہیں اور نہ ہی کچھ سمجھتے ہیں۔
مگر یہ بھی حقیقت ہے کہ مخصوص حالات و واقعات اس دل کو جتنی بھی سخت پتھریلی چٹان میں تبدیل کر دیں مگر اسی چٹان پر گر خلوص و اپنائیت سے کشید کیا ہوا محبت کا ایک قطرہ بھی پڑ جائے تو اکسیر کا کام کرتا ہے اور پھر اسی سخت چٹان کا سینہ پھاڑ کر جب ایک ننھی سی سبز کونپل نمودار ہوتی ہے تو پھر یہی دل ہمیں حیران بھی کر دیتا ہے۔ یہ نمو رائیگاں نہیں جاتی۔ بے آب و گیاہ دل پھر سے گل و گلزار سا مہکنے میں زیادہ وقت نہیں لگاتا۔ اس دل کی دنیا کے سب رنگ ہی نرالے ہیں۔ مانے تو پہاڑ نگل جاۓ نہ مانے تو ایک کنکر بھی اس کو قبول نہیں۔