سودی بینکاری کے سلسلے میں وفاقی شرعی عدالت کے فیصلے کے خلاف اپیل اور دینی جماعتیں
سودی بینکاری کے بارے میں وفاقی شرعی عدالت کے فیصلے کے خلاف اپیل پر ردعمل کے دوران بعض دینی جماعتوں کے کردار پر سوشل میڈیا پر بحث چل رہی ہے۔ میری رائے میں دینی جماعتوں نے اسلامائزیشن کے قانونی و عدالتی ایجنڈے کو ایک طرف رکھ کر اس کی بنیاد پر اپنے بیانیہ کو تشکیل دینے کا کام ایک عرصہ ہوا چھوڑ دیا ہے۔ جمعیت علماء اسلام تو چند ایشوز کو چھوڑ کر کبھی بھی اسلامائزیشن کی تفصیلی پراجیکٹ میں دلچسپی رکھتی ہی نہیں تھی۔ غالبا ان کی دلچسپی اس موضوع پر آئین کی تشکیل کے بعد ختم ہو گئی تھی۔ اپنے کور آرگیومنٹ میں معاشرے کی اسلامی خطوط پر تشکیل کے لئے جمیعت کے نزدیک غالبا تبلیغی جماعت کا دعوتی اور از خود اختیار کئے جانے والا ماڈل زیادہ مفید ہے۔
یہ بھی دیکھئے:
جنرل ضیاء الحق کے دور میں جمیعت اپوزیشن میں تھی اور ضیاء کی اسلامائزیشن ان کو کبھی متوجہ نہیں کر سکی۔ سو جمیعت کی اس اپروچ کو سمجھے بغیر ان کی اسلامائزیشن کی عدالتی و قانونی کوششوں میں نیم دلانہ دلچسپی کو پوری طرح نہیں سمجھا جا سکتا۔ آپ یہ بحث کر سکتے ہیں کہ یہ اپروچ درست نہیں ہے مگر اپنی پالیسی و اپروچ میں وہ آزاد ہیں۔ دیگر مذہبی جماعتیں بھی عملی طور پر پوسٹ ضیاء دور کی حقیقت میں جی رہی ہیں اور ایک آدھ استثناء کے ساتھ سب ہی عوامی فلاح و بہبود اور گڈ گورننس وغیرہ کے سیاسی نعروں کو مرکزی نکات بنا کر سیاسی میدان میں سرگرم ہیں۔ اسی لئے آپ کو قانون سازی و عدالتی محاذ پر اکا دکا کے علاوہ زیادہ تر دینی جماعتوں کی سرگرمی نظر نہیں آتی۔
پاکستان میں دستوریت (constitutionalism) کی بحث میں جمعیت علماء اسلام کا عمومی رجحان سیاسی دستوریت کی طرف رہا ہے۔ وہ سیاسی معاملات کو عدالتوں میں لے جانے کی عام طور پر نفی ہی کرتی رہی ہے۔ مگر اسلامائزیشن کو عدالتی محاذ کے بجائے پارلیمانی فورم پر کرنے کی بات کی جائے تو جمعیت کے پیش نظر یہ کام بھی مرکزی اور بنیادی ایجنڈے کے طور پر نہیں رہا۔ یہی وجہ ہے کہ بارہا ایسی قانون سازی ہوتی رہی جو شریعت سے جزوی طور پر متصادم تھی مگر جمعیت اسے روکنے کے لئے قبل از وقت کچھ نہیں کرتی رہی اور بعد ازاں جب معاملہ جذباتی ہونے لگا تو جمعیت نے بھی اس کی مخالفت میں اپنا کردار ادا کیا۔
یہ بھی پڑھئے:
معاشی بحران کا واحد حل ؛ ٹیکنولوجی بیس معاشرہ
پی ٹی آئی کے ووٹروں کی عمران خان کو وارننگ
یہ اس بات کی دلیل ہے کہ اسلامائزیشن چاہے عدالتی فورم کے ذریعے ہو یا مقننہ کی سطح پر’ اس کے ذریعے معاشرے کی اسلامی تشکیل جمیعت کا منہج نہیں رہا۔ آئین پاکستان کے عمومی خدوخال کی اسلامی بنیادوں پر تشکیل کا معاملہ طے کرنے کے بعد جمعیت علماء اسلام نے کبھی بھی ایسی خاطر خواہ کوشش نہیں کی کہ شریعت کا نفاذ قانون کے زور پر کیا جائے۔ اس کے لئے وہ قانون کے بجائے پالیسی پر مبنی سوفٹ حکمت عملی اختیار کرنے کی روش کو فوقیت دیتے ہیں۔
دوسرے الفاظ میں یہاں کہا جا سکتا ہے کہ اسلامائزیشن کا ایجنڈا کبھی بھی جمعیت علماء اسلام کی ترجیحات میں شامل نہیں رہا۔ جب ترجیح نہ ہونے کی بات کی جائے تو یہ بات دینی حلقوں کو معیوب لگتی ہے مگر اسے ٹھیک تناظر میں سمجھنے کی ضرورت ہے۔ اسلام کا ترجیح ہونا ایک بات ہے اور اسلامائزیشن پروجیکٹ کا ترجیح ہونا دوسری بات ہے۔
پہلی بات مقصد ہے دوسری اس کے حصول کی حکمت عملی! جب یہ کہا جاتا ہے کہ اسلامائزیشن کا عمل جمعیت کی ترجیح نہیں رہا تو اس سے مراد ان کی حکمت عملی کے اختلاف کو اجاگر کرنا ہوتا ہے۔ ہمارے روایتی علماء معاشرے میں تبلیغ اسلام کے قائل اور عامل رہے ہیں۔ مگر نفاذ اسلام ان کا میدان نہیں رہا۔ مثلا شادی بیاہ اور سماجی تقریبات میں ہونے والی خرافات کو علماء ہمیشہ وعظ و نصیحت سے روکنے کی کوشش کرتے رہے مگر معاشرے میں جہاں لوگ یہ خرافات کرتے رہے تو وہاں علماء نے مکمل بائیکاٹ اور قطع تعلقی کی پالیسی کے بجائے ربط قائم رکھنے کی پالیسی اپنائے رکھی۔
یہ حکمت عملی کا فرق ہے کہ کچھ دوسرے مصلحین ایسی تقاریب کا نہ صرف مقاطعہ کرتے رہے بلکہ ان کے منتظمین کے سماجی مقاطعے کی بھی کوشش کرتے رہے۔ برصغیر کے مسلمانوں کے اجتماعی ضمیر نے پہلے گروہ کے تعامل کو قبولیت عامہ بخشی۔ اسی طرح کا تعامل اور اسلامی تعلیمات پر عمل کرنے کی حکمت عملی جمعیت سے وابستہ علماء نے سیاسی میدان میں بھی اختیار کی ہے۔ گویا یہ “نفاذ” پر فوکس سے زیادہ “از خود اختیار” پر آمادہ کرنے کی کوشش ہے۔ البتہ کبھی کبھار موضوع کی حساسیت یا دوسری حکمت عملی پر عمل پیرا گروہوں کے پیدا کردہ ماحول کی گرفت میں آ کر پہلا گروہ بھی سیل رواں کا شکار ہوتا رہتا ہے۔ جیسے سودی بینکاری کے فیصلے کے سلسلے میں اب دکھائی دیتا ہے۔ جمعیت کے راہنما مولانا اسعد محمود کی سودی بینکاری کے فیصلے میں کی گئی اپیل کے خلاف قومی اسمبلی کی تقریر اسی ماحول کی گرفت کا نتیجہ ہے۔ اس سے یہ نتیجہ نکالنا کہ جمعیت علماء اسلام حکومت سے نکل کر کسی جدوجہد میں شامل ہو جائے گی دراصل جمعیت کی اوپر بیان کردہ حکمت عملی سے لاعلمی کا شاخسانہ ہے۔