پی ٹی آئی کے ووٹروں نے عمران خان نے ایک وارننگ دے دی ہے۔ ویسے کچھ وارننگز تو ملک کے حالات اور انتخابی نتائج نے بھی دی ہے۔ ان انتخابی نتائج میں ایک بات تو پی ٹی آئی کے لیے اطمینان کا پہلو رکھتی ہے۔ اس کا تعلق خیبر پختونخوا سے ہے جہاں اتوار کے ضمنی انتخاب میں پی ٹی آئی کا امیدوار بھاری اکثریت سے جیت گیا۔ اسکا مطلب ہے کہ پی ٹی آئی کی مخالف جماعتوں کو اسے شکست دینے کے لیے ابھی بہت کچھ کرنا ہے۔
ایک انتخابی دنگل سندھ میں ہوا جہاں تین ڈویژنوں میں ہونے والے بلدیاتی انتخابات میں پیپلز پارٹی نے ہمیشہ کی طرح جھاڑو پھیر دیا۔ اس مقابلے میں پی ٹی آئی کہیں دور دور تک نظر نہیں آئی۔
اسی بارے میں یہ بھی دیکھئے:
فواد چودھری کو اعتراض تھا کہ پیپلز پارٹی کے آٹھ سو نمائندے بلامقابلہ کامیاب ہوئے۔ یہ تو انتخابات نہ ہوئے۔ ایسا اعتراض کرنے والی جماعت کا اپنا حال یہ تھا کہ ہزاروں نشستوں یہ جماعت صرف دو امیدوار ہی کھڑے کر سکی تھی۔
ایک وارننگ تو یہی ہے جو عوام نے اس جماعت کو دی ہے۔ دوسری وارننگ ممکن ہے کہ جولائی میں آئے جب پنجاب میں صوبائی اسمبلی کے بیس نشستوں پر ضمنی انتخابات ہوں گے۔
یہی وجہ ہے کہ عمران خان اور اس جماعت کے دیگر راہنماؤں نے ان انتخابی نتائج کو ابھی سے متنازع بنانا شروع کر دیا ہے۔ اس سلسلے میں حکومت کو بھی تنقید کا نشانہ بنایا جا رہا ہے اور الیکشن کمیشن آف پاکستان کو بھی۔
یہ بھی پڑھئے:
دعوت اسلامی کے مولانا الیاس قادری نے حج کا ارادہ کیوں توڑا؟
ستائیس جون: بھٹو کے وکیل یحییٰ بختیار کی آج برسی ہے
سوال یہ ہے کہ اس جماعت کا کاووٹر عمران خان کے اس طرز عمل کو کس انداز میں دیکھ رہا ہے؟ اس سوال کا جواب تازہ سروے نے فراہم کیا ہے۔ گیلپ سروے کے مطابق رائے عامہ اس جماعت کے کے مخالفین 57 فیصد ہے جبکہ اس کے حامیوں کی تعداد 43 فیصد ہے۔ ان 43 فیصد میں 71 فیصد کا خیال ہے کہ پی ٹی آئی کو مفاہمت کی سیاست کرنی چاہیے نہ کہ تصادم کی۔
سوال پیدا ہوتا ہے کہ پی ٹی آئی اگر ایسا نہیں کرتی تو کیا ہو گا، وہ ہوگا جو لانگ مارچ میں ہوا ۔ لوگ اس جماعت سے لاتعلق ہو جائیں گے۔ یہی خطرے کی گھنٹی ہے لیکن لگتا ہے کہ عمران خان کی اس گھنٹی کی آواز ابھی تک نہیں پہنچی۔