عامر لیاقت حسین کون تھے، اینکر، سیاست دان، صحافی، انٹرنینر یا کچھ اور؟ یہ سوال لوگوں کو مشکل میں ڈال سکتا ہے لیکن سب کو نہیں جیسے ان سطور کا لکھنے والا۔
بیسویں صدی کے آخری برسوں(1995,1996,1997 اور بعد کے چند برس) کے دوران میں کراچی کا ماحول بڑا دل چسپ تھا، پرجوش اور کشیدگی بھرا۔ اس کے باوجود اس بدلتے ہوئے شہر میں رکھ رکھاؤ اور ذاتی تعلقات کے احترام خوب صورت مثالیں مل جاتیں تو بعضے متضاد کیفیات دیکھ کر دکھ بھی ہوتا۔ اسی زمانے کی بات ہے، نصرت مرزا کی کسی کتاب کی تقریب رونمائی منعقد ہوئی۔ اس تقریب میں مختلف مکاتب فکر تعلق رکھنے والی مختلف شخصیات نے شرکت کی۔ لاہور سے مرحوم عارف نظامی پہنچے۔ شہید محمد صلاح الدین بھی تھے۔ ایسا یاد پڑتا ہے کہ کشمیر سے تعلق رکھنے والی کوئی ممتاز شخصیت بھی موجود تھی، شاید سردار محمد عبدالقیوم خان مرحوم۔ یہ وہی دن تھے جب کشمیر میں جدوجہد آزادی زوروں پر تھی۔
یہ بھی پڑھئے:
پاکستان کا وہ شہر جو کبھی لٹل پیرس کہلاتا تھا
میڈیا انڈسٹری میں نیا ابھرنے والا ڈریکولا
دھرنے اور لانگ مارچ کامیاب بنانے والے چند جادو گر
اس لیے فطری طور پر کشمیر ہی موضوع گفتگو رہا۔ معروف اور بدنام کراچی آپریشن ہوئے بھی چند برس گزر چکے تھے لیکن شہر اب بھی اس کی تکلیف دہ یادوں میں کراہتا تھا۔ اسی آپریشن کے آس پاس شہر میں ایک ایسا ماحول بھی بن گیا جس سے کسی نہ کسی طرح یہ معنی بھی اخذ کر لیے جاتے تھے کہ کراچی کو پاکستان سے علیحدہ کر کے ہانگ کانگ بنانا مقصود ہے۔ اس قسم کا پروپیگنڈا ماحول کو مزید کشیدہ کر دیتا۔ اس قسم کے ماحول میں کشمیر کے ذکر سے پیدا ہونے والی جذباتی کیفیات کا اندازہ کیا جا سکتا ہے۔
شہید محمد صلاح الدین کی تقریر اسی جذباتی کیفیت کی آئینہ دار تھی۔ انھوں نے کہا:
‘میں لعنت بھیجتا ہوں، ایسے پاکستان پر جس میں کشمیر نہ ہو’۔
یہ ایک روایتی سے تقریب تھی، اخبارات میں جس کی رپورٹنگ بھی معمول کے مطابق ہوئی لیکن ایک اخبار ایسا بھی تھا جس نے اس خبر کو اپنے صفحہ اول پر چھ کالمی سپر لیڈ کے طور پر شائع کیا۔ سرخی تھی:
‘ تکبیر کے صلاح الدین کی پاکستان پر لعنتیں’۔
یہ اخبار تھا روزنامہ ‘ پرچم’۔ یہ اخبار ایک ایسی شخصیت کی ادارت میں شائع ہوتا تھا جسے لوگ اس کے نام و نسب کے باعث بہت جانتے تھے لیکن اگر وہ صحافی بھی تھے تو اس حیثیت میں ان کی شناخت کے یہ ابتدائی دن تھے۔ لہٰذا اس اخبار میں شائع ہونے والے مندرجات کو اسی انداز میں دیکھا جاتا۔
اخبار کی ہمدردی ایم کیو ایم کے ساتھ تھی۔ یہی سبب تھا کہ اس میں ایسی کہانیاں بھی شائع ہوتیں جن میں بتایا جاتا کہ اس جماعت کے متعلقین کے ساتھ دوران حراست کیا سلوک کیا گیا۔ ان کہانیوں کی اشاعت میں کچھ ایسی خاص بات نہ تھی۔ اس قسم کے واقعات بعض دیگر ذرائع سے بھی سامنے آتے رہتے تھے لیکن اصل دلچسپی ان کہانیوں کے ردعمل میں شائع ہونے والی وہ تحریریں ہوتی جو خود عامر لیاقت حسین کی بائی لائن سے صفحہ اول پر شائع ہوتیں۔ ان تحریروں میں ایک جملہ تواتر کے ساتھ شائع ہوتا:
فلاں کے ‘ اہل خانہ نے ظلم کی اس داستان کی اشاعت پر پرچم اور اس کے ایڈیٹر کو جھولیاں اٹھا اٹھا دعائیں دیں’۔
کراچی کے سیاسی و صحافتی حلقوں میں عامر لیاقت حسین کی یہ پہلی بھرپور انٹری تھی۔ اس کے بعد انھوں نے پیچھے پلٹ کر نہیں دیکھا۔
1999ء میں جنرل پرویز مشرف نے بغاوت کر کے نواز شریف کی حکومت کا خاتمہ کر دیا۔ یہ زمانہ عامر لیاقت حسین کے تعارف کا نیا زمانہ تھا۔ پاکستان میں ٹیلی ویژن کے پرائیویٹ چینل قائم ہو رہے تھے، خاص طور پر جیو۔ جیو نے اس زمانے میں اپنے منفرد اور دلچسپ پروگراموں سے بہت شہرت کمائی۔ ان میں ایک پروگرام الف تھا اور دوسرا عالم آن لائن۔ پہلے پروگرام کے میزبان انیق احمد تھے۔ اس پروگرام میں مذہبی و نظریاتی مباحث زیر بحث اتے۔ پروگرام میں اس عہد کے نامور مفکرین اور علما شرکت کرتے جیسے جاوید احمد غامدی اور ان ہی کی ہم پلہ شخصیات۔ عالم آن میں روائتی علما شریک ہوتے جو عمومی مسائل زیر بحث لاتے۔ یہ پروگرام دیکھتے ہی دیکھتے مقبول ہو گیا لیکن اپنی مقبولیت کے باوجود وہ پروگرام الف کی چھوٹی چھوٹی تفصیلات بھی اپنے علم میں رکھنا ضروری خیال کرتے۔
یہ عالم آن لائن ہی کے دن تھے جب ان کے نام کے ساتھ ممتاز مذہبی اسکالر کے سابقے کا اضافہ ہو گیا۔ وہ کتنے بڑے عالم تھے، مذہب کا مطالعہ انھوں نے کس گہرائی سے کر رکھا تھا؟ ان سوالوں پر ان کے مداح اور نقاد بحث مباحثے میں مصروف رہتے لیکن مرحوم کی اصل کامیابی یہ تھی کہ ان کا پروگرام مقبول تھا اور ان کی بات پر توجہ دینے والوں کی تعداد میں اضافہ روز افزوں تھا۔
بعض لوگوں کی زندگی میں جمود ہوتا ہے، حضرت داغ جہاں بیٹھ گئے، بیٹھ گئے۔ اس کے مقابلے میں عامر لیاقت کی زندگی میں تحرک تھا۔ جیو کو انھوں نے اپنی آخری منزل نہیں سمجھا۔ جیو سے نکلے، اے آروائی میں گئے۔ کچھ دن پی ٹی وی میں بھی گزارے اور یہاں وہاں سے ہوتے ہوئے ایکسپریس کے چینل تک پہنچے۔
ان کا یہ سفر ان کے فنی ارتقا کی کہانی بھی بیان کرتا ہے اور اس سے یہ بھی معلوم ہوتا ہے کہ کام کا ماحول اور اس کے لیے کیا جانے والا اہتمام کسی ٹیلی ویژن پروگرام کی کامیابی میں کیا کردار ادا کرتا ہے۔
جیسی شہرت، مقبولیت اور عزت انھیں جیو میں حاصل ہوئی، پھر اور کہیں حاصل نہ ہو سکی۔ اس فرق کا سبب بڑا دلچسپ ہے۔ جیو میں انھیں بہترین ٹیکنیکل معاونین کے علاوہ گہرا فہم رکھنے والے محققین کی اعانت بھی حاصل تھی۔ اکثر ہوتا ہے کہ ایک سے دوسرے چینل کو سفر کرنے والے اینکر اپنی ٹیم بھی ساتھ لے جاتے ہیں۔ عامر یہ فرق سمجھ نہ سکے یا ان محققین کا اپنے چینل سے رشتہ اتنا مضبوط تھا کہ انھوں نے کہیں اور جانا مناسب نہ سمجھا۔ عامر لیاقت حسین کی زندگی میں یہ فرق تسلسل کے ساتھ دکھائی دیتا ہے اور ٹیلی ویژن کو اپنا کیریئر بنانے والوں کے لیے اس میں بڑا سبق ہے۔
عالم آن لائن سے انھوں نے جو بہترین شناخت بنائی، وہ ان کی حوصلہ مند طبیعت کے لیے ناکافی تھی۔ ایسا لگتا ہے کہ مرحوم طارق عزیز کے پروگرام نیلام گھر سے وہ بہت متاثر تھے۔ شاید یہی سبب رہا ہو گا کہ انھوں نے رمضان نشریات اسی کی طرز پر شروع کیں۔ یہ درست ہے کہ انھوں نے شعوری یا غیر شعوری طور پر طارق عزیز کی پیروی کی لیکن اس حقیقت میں بھی کوئی شبہ نہیں ہے کہ انھوں نے اپنا پروگرام وسعت اور شہرت کے تعلق سے اس سے کہیں آگے پہنچا دیا۔ آج جس جس چینل پر بھی رمضان نشریات ہوتی ہیں، وہ عامر لیاقت ہی کی پیروی کرتی دکھائی دیتی ہیں ۔ یہ کہنا غلط نہ ہو گا کہ اس نوعیت کے تمام تر ٹیلی ویژن پروگراموں پر مرحوم کی گہری چھاپ دکھائی دیتی ہے۔
عامر لیاقت جیو سے نکلے تو جانے کہاں کہاں تک پہنچے لیکن جو کام انھوں نے اس چینل پر کیا، یادگار ہو گیا۔ عامر نے اسی قسم کے پروگرام دیگر چینلوں پر بھی کئے، سامعین کو متاثر کرنے کے لیے انھوں نے ناگن ڈانس بھی کیا لیکن وہ بات کہاں مولوی مدن کی سی۔ عالم آن لائن کی طرح اس قسم کے پروگرام بھی دیگر چینلوں پر جیو جیسی توجہ حاصل نہ کر پائے۔
بول چینل پر انھوں سیاسی پروگرام کرنے کی کوشش بھی کی۔ اس کے باوجود کہ سیاست سے ان کی گہری وابستگی تھی، ان کے یہ پروگرام توجہ نہ پاسکے بلکہ بعض لوگوں کاتو یہ خیال بھی ہے، ان کی وجہ سے عامر کی شہرت متاثر ہوئی۔ میں سمجھتا ہوں کہ اس کاسبب بھی ہمیں عالم آن لائن کی کامیابی کی وجوہات میں تلاش کرنا چاہیے۔
عامر کی سیاسی زندگی کا آغاز ایم کیو ایم سے ہوا۔ اس کی بنیاد ان کے والد مرحوم شیخ لیاقت حسین رکھ چکے تھے۔ شیخ لیاقت معروف مسلم لیگی تھے لیکن ایم کیو ایم کے عروج کے زمانے میں بعض دیگر سیاست دانوں اور دانش وروں کی طرح انھوں نے بھی اسی جماعت میں پناہ لی۔ فطری طور پر عامر بھی اسی جماعت میں چلے آئے۔ اخبار پرچم کے زمانے میں انھوں نے بڑی جرات سے اس جماعت کا موقف آگے بڑھایا تھا، لہٰذا جنرل مشرف کی فوجی حکومت میں پہلے عام انتخابات ہوئے تو انھیں قومی اسمبلی کا ٹکٹ ملا۔ وہ کامیاب ہوئے اور انھیں مذہبی امور کے وزیر مملکت کا منصب دیا گیا۔
یہی وزارت کا زمانہ ہے جب ایک دل گداز نعت خواں کی حیثیت سے ان کی شہرت ہوئی۔ عامر لیاقت کی نعت خوانی ان کے کیریئر میں خاص اہمیت رکھتی ہے۔ اس کا تذکرہ بھی ہوگا لیکن اس سے پہلے ان کی سیاست کی چند اہم باتیں۔ پروفیسر ڈاکٹر شہزاد اقبال شام بتاتے ہیں کہ جنرل مشرف کا جس زمانے میں اسرائیل کی طرف جھکاؤ ہوا اور اس کے تسلیم کرنے کی باتیں عام ہوئیں، انھوں نے بطور احتجاج وزارت سے استعفیٰ دے دیا اور جنرل مشرف کی پالیسیوں پر کڑی تنقید کی۔
الطاف حسین نے جب ایک جلسے میں پاکستان کے خلاف بدنما نعرہ لگایا، ایم کیو ایم کی سیاست کے تعلق سے بہت سے معاملات سرعام طے ہوئے اور بہت سے پس پردہ ۔ اسی زمانے میں پارٹی پر قبضے کی دوڑ شروع ہوئی۔ ایم کیو ایم کی سربراہی کے دعوے داروں میں ایک نام ان کا بھی تھا۔ انھوں نے بہت کوشش کی لیکن پارٹی کے پرانے راہنماؤں یعنی ڈاکٹر فاروق ستار کے مقابلے میں ان کا چراغ جل نہ سکا۔ یہی واقعہ تھا جس کے بعد انھوں نے ایم کیو ایم سے مایوس ہو کر تحریک انصاف میں پناہ لی۔
ایسا لگتا ہے کہ ایم کیو ایم کی طرح تحریک انصاف میں بھی ان کے قدم جم نہ سکے۔ قومی اسمبلی کا انتخاب جیتنے کے باوجود اس جماعت میں انھیں زیادہ اہمیت حاصل نہ ہو سکی ۔ اس صورت حال نے انھیں بہت بدمزہ کیا۔ کبھی احتجاج کیا، کبھی پی گئے اور کبھی برس پڑے۔ اس سب کے باوجود عمران خان کی نگاہ میں انھیں کوئی خاص اہمیت حاصل نہ ہو سکی۔ یہ اس کے باوجود تھا کہ ایک بار جب انھوں نے قومی اسمبلی سے دوسری بار اعتماد کا ووٹ حاصل کیا تو اس موقع پر عامر لیاقت حسین نے ایک نعت پرسوز ترنم کے ساتھ پڑھی۔ نعت کے ایک شعر میں انھوں نے اس طرح کی تحریف کی
مجھ کو کرسی کی چاہ نہیں ہے مجھ کو سنتا جو وہ سمیع ہے
اپنے عمران کو تنہا نہ چھوڑیں آرہا ہوں میں آقا مدینہ
عامر لیاقت جس ذوق و شوق کے ساتھ نعت پڑھتے تھے ،اسی کیفیت میں درود شریف کا ورد بھی کیا کرتے تھے۔ وہ اپنے ہر مذہبی پروگرام میں اس اہتمام کے ساتھ درود شریف پڑھا کرتے کہ کیفیت طاری ہو جاتی۔
عامر لیاقت کی زندگی بڑی پہلو دار ہے۔ انھوں نے اپنے مختصر کیرئیر میں زندگی کے کئی شعبوں میں قسمت آزمائی کی اور کامیابی نے ان کے قدم چومے۔ ان کی کامیابی کاراز ان کی قوت فیصلہ میں تھی۔ ہمارے دوست اور ممتاز صحافی فیصل حسین جنھیں ان سے بہت قربت رہی ہے، بتاتے ہیں کہ وہ بہت تیزی سے فیصلہ کرتے اور اس پر جم جاتے، ان کی یہی خوبی ان کی کامیابی کا زینہ بن گئی۔ کیا سبب ہے کہ اپنے کیریئر میں عامر یہ حتمی فیصلہ کبھی نہ کر پائے کہ انھیں کیا بننا ہے، عالم دین، سیاست داں، اینکر یا صحافی؟ کیا خبر قوت فیصلہ کبھی کبھی کسی انسان کا امتحان بھی لیتی ہو؟