تعلیم و تحقیق اور ترقی و ادب کا چولی دامن کا ساتھ ہے، آغا جان پروفیسر فضل حق میر مرحوم و مغفور نے اپنے زندگی میں اطمینان و سکون اور خوشحالی و ترقی کے لئے انھیں ہتھیاروں کا سہارا لیا اور یہی الفاظ دوسرے معنوں میں تعلیم و تزکیہ بن جاتے ہیں جو الہامی کلام،قرآن حکیم کے دوایسے وسیع المعانی الفاظ ہیں جنھیں اگر کوئی جوانی کی صلاحیتوں کے ساتھ سمجھ کر دل و عقل سے قبول فرمائے تو اس فرد کی ذات و صلاحیتوں میں بے پناہ قوت فطرت بھر دیتی ہے جسے حکمت اور خداداد صلاحیت کا حامل سمجھتے ہیں۔
یہ بھی دیکھئے:
گرچہ مغربی طرز فکر و دانش سے متاثر معاشرتی ترقی و اداؤں میں شائد آج ہم اس قوت و توانائی اور تاثیر کو بھول گئے ہیں یا تصوف و طریقت کے اعتبار و اعتماد پر کمزور کردار کے باعث اس طرح کی بنیادی حقیقتوں سے ہم بیگانہ و ناآشنا ہوگئے ہیں۔ مرحوم و مغفور پروفیسر فضل حق میر صاحب جوانی سے لے کر بڑھاپے تک اس قوت تاثیر سے کام لیتےرہے۔ بظاہر دبلے پتلے،کمزور و نسبتا کم گو و خاموش انسان کے اندر بے پناہ علم و عمل کا ابھرنا اور تحقیق و دانش کے نتیجے میں جستجو و احساس ذمہ داری قبول کرتے ہوئے شوق و ذوق کے ساتھ کردار کی تشکیل و تعمیر اور علم و عمل کے بلندی پر فائز رہ کر محنت و مشقت اور ترتیب و سلیقہ مندی اختیار کرنا___ اس قوت تاثیر کے بغیر ممکن نہیں ہیں۔ پروفیسر فضل حق میر صاحب اس تاثیر اور کردار کا عملی مظاہرہ و نمونہ تھے۔ بلاشبہ جس فرد نے اپنے ذات،شخصیت اور صلاحیتوں و ماحول کوکنٹرول و پالش کرکے اس سے معاشرتی ترقی اور تہذیبی ارتقاء و فکری خدمات انجام دینے کا فارمولا کشید کیا۔
وہ کامران و بامراد ٹھہرتا ہے، وہ اپنے زندگی میں کشمیری ہونے کے باوجود پشتو زبان کے معروف شاعر و فلسفی رحمان بابا سے متاثر تھے وہ رحمان بابا کے متعلق لکھتے ہیں کہ ,,, رحمان بابا پشتو کے ممتاز شاعر ہی نہیں بلکہ ایک عظیم مفکر، مصلح،مبلغ اور درویش خدا مست ہیں_ رحمان بابا نے جس عام فہم،دلکش ،شیریں ،سادہ اور رواں زبان میں اپنے بلند افکار اور پاکیزہ تصورات کا اظہار کیا ہے وہ انھیں کا حصہ ہے آج بھی ان کے بے شمار اشعار لوگوں کو یاد ہیں اور بعض اشعار تو ایسے برمحل ہیں کہ پشتو زبان بولنے والے انھیں ضرب المثل کے طور پر بولتے ہیں_ رحمان بابا کے کلام میں تصنع اور بناوٹ نہیں وہ ابدی حقائق اور عالمگیر صداقتوں کو بڑی جرآت اور بے باکی سے انتہائی سادہ زبان میں اس طرح بیان کرتے ہیں کہ ہر شخص محسوس کرتا ہے کہ یہ اس کے دل کی آواز ہے۔
یہ بھی پڑھئے:
جارج آرویل کا اینیمل فارم اور پاکستان کے موجودہ حالات
ریکو ڈیک: منصوبے کی عجلت میں منظوری بلوچستان کے وسائل پر ڈاکا
شاہ محمود قریشی کی توقع اور لوٹا کریسی
پروفیسر فضل حق میر مرحوم ,,,مجلہ تعمیر نو،، میں عظیم صوفی شاعر و دانش مند انسان رحمان بابا کے متعلق اپنے خصوصی مضمون میں لکھتے ہیں کہ,,, رحمان بابا کے اشعار میں ایسا سوز،وابستگی درد اور کسک ہے کہ قاری محسوس کرتا ہے کہ رحمان بابا کا غم اس کے دل میں اترتا جارہا ہے اور وہ بھی رحمان بابا کے ساتھ محبوب کے فراق میں تڑپ رہا ہے یہی غم رحمان بابا کی زندگی کی متاع بے بہا ہے۔
رحمان بابا کے نزدیک دل خدا کا گھر ہے لیکن خدا کو دل میں مہمان کرنے کے لئے اسے خواہشات نفس سے پاک کرنا شرط اول ہے_ پشتو اشعار میں وہ فرمارہے ہیں کہ ( خدا جیسے عظیم بے مثال اور پاک محبوب سے محبت کرو اور اس کو خانہ دل میں مہمان کی حیثیت سے لاؤ تو پہلے اپنے خانہ دل کا صحن نفسانی خواہشات کے خس و خاشاک سے اور کندگی سے پاک و صاف کرلو،،) ترجمہ شدہ
محسنِ انسانیت صلی اللہ علیہ وسلم کا اسوہ حسنہ ان کے زندگی کا رہبر ہے جس کی وجہ سے انسان کا درد اور اس کی محبت ان کے کلام کی روح ہے کسی دکھی دل کے زخموں پر مرہم رکھنا اور انسانوں کی خدمت کرنا رحمان بابا کے نزدیک دین کی روح ہے وہ کہتے ہیں کہ
,,, جہاں تک ہوسکے خلق خدا کی خدمت کرو،
کسی کی آزاری نہ کرو،
ایسا ہی دل تو خدا کا عرش ہوتا ہے،،( ترجمہ)
رحمان بابا نے ایک موقع پر ظاہر داروں سے مخاطب ہو کر کہتے ہیں کہ
اے خطیب ممبر پر کھڑے ہو کر کیا خطبہ پڑھ رہے ہو،
اپنے نفس کے اوپر قدم رکھو حقیقی منبر یہی ہے،،
رحمان بابا کا کلام اپنے اندر افکار کی گہرائی اور راہنمائی رکھتا ہے وہ قوم و قبیلے، نسلی اور وطنی تفریق اور تفاخر کو خدا کے آفاقی پیغام کے منافی قرار دیتے ہیں ان کے نزدیک قابل قدر جوہر،انسان کی انسانیت،اس کا ایمان اور عمل ہے،
اپنے حسب و نسب پر مغروو ہو کر آسمان کے قلابے نہ ملا،
تو اصل میں زمین سے
پیدا ہوا ہے،،
قیامت کے دن عمل کی بجائے یہ نہیں پوچھا جائے گا
کہ تم کس کے بیٹے اور
کس کے پوتے ہو،،
خود کچھ نیکی کرو ماں باپ کی نیکیوں پر اترنا ٹھیک نہیں،
جو دلہن خود خوبصورت نہ ہو اس کی ماں اور نانی کی خوبصورتی کس کام کی۔
پروفیسر موصوف واضح پیغام کے ذریعے اپنے جامع مضمون کا اختتام ان الفاظ میں کرتے ہیں,,, گردش لیل و نہار اور زمانے کے حوادث سے کوئی ذی روح محفوظ نہیں رہا_ سحاب زندگی برق کی رفتار سے چلتا ہے زندگی کی تسبیح کے دانے ایک ایک کرکے پروئے جارہے ہیں جام زندگی قطرہ قطرہ بھرتا جارہا ہے لیکن پیغمبروں کا لایا ہوا آفاقی نظام زندگی زندہ رہتا ہے اور ان کے نقش پا کی پیروی کرنے والے عاشقان خدا مست اور ان کے افکار زندہ رہتے ہیں حسان بن ثابت رض، کعب بن ظہیر رض، امام ابو بصیری رض جیسے شاعران کوچہ مدینہ کے لئے موت نہیں_ بلاشبہ رحمان بابا کے بلند افکار آج بھی زندہ ہیں اس طرح رحما بابا بھی زندہ ہے رحمان بابا کے طرح لوگ کبھی بھی نہیں مرتے ہیں۔
خود پروفیسر فضل حق میر مرحوم و مغفور کے خدمات اور کارناموں میں بڑا اور عملی کارنامہ کویٹہ میں تعمیر نوجیسے باوقار اور انتہائی معتبر اداروں کا قیام سر فہرست آتا ہے مگر درحقیقت اس عملی کارنامے کے پیچھے اپنے ذات و شخصیت اور
خیالات و جذبات کو مربوط و بامقصد کڑیوں کے اندر لانا اصل کارنامہ و کامیابی ہوتی ہے۔ اسی مقصد زندگی اور ٹیکنالوجی بیس گر کو حکمت قرآنی اور شعور نبوت صلی اللہ علیہ وسلم نے سورت الیل و الشمس میں خوبصورت اور دلکش انداز میں
پیش فرمایا ہے،،،،، اور اسے ثمربار بنانے اور حتمی شکل دینے کے لئے بیسویں صدی کےمعروف مصنف و دانش ور ڈاکٹر اسٹیفن آر کوئے نے مشہور زمانہ کتاب
Seven Habits of the
highly effective people
لکھا ہے جو اب تک فروخت ہونے
اور پڑھنے میں سرفہرست شمار کی جاتی ہے۔
دینا بھر میں لیڈرشپ کوالٹی، لرننگ اور انسانوں کی مزاح و شخصیت کی صحت مندانہ سوچ وفکر اور بھرپور حوصلہ و ھمت فراہم کرنے کے لئے نسخہ فطرت و شفاء کاملہ مرتب کیا گیا ہے،،،جسے پاکستان میں ڈاکٹر ظفر مرزا صاحب نے درد دل کے ساتھ اردو کے قالب میں ڈھالا ہے،، ضرورت اس امر کی کہ پروفیسر فضل حق میر مرحوم و مغفور کے شاگرد اور مرید اس قیمتی کتاب کو ان کی خدمات اور کارناموں کے اعتراف میں فارسی،پشتو بلوچی براھوئی سرائیکی سندھی کشمیری پہاڑی اور پنجابی وغیرہ میں منتقل فرمائیں، جیسے پروفیسر فضل حق میر مرحوم نے اپنے زندگی میں رحمان بابا جیسے بزرگوں و مفکرین پر ورکنگ کیا تھا چوتھی برسی پر عقیدت و احترام مغفرت کاملہ و دانش مندی کے اصول و الفاظ کے ساتھ۔