خیبر پختونخواہ میں بلدیاتی انتخابات کے پہلے مرحلے کے نتائج کے مختلف زاویوں سے تجزیوں کا سلسلہ جاری ہے۔ یہ تجزیے اس اعتبار سے اہمیت رکھتے ہیں۔ کہ ان کی مدد سے صوبے کی تازہ ترین صورت حال کو سمجھنے میں مدد ملتی ہے۔ ان کی مدد سے یہ بھی واضح ہوتا ہے کہ وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ عوامی رجحان میں کیا تبدیلی واقع ہو رہی ہے۔ ممتاز صحافی اور تجزیہ کار جناب عبدالجبار ناصر نے ان انتخابات کو پارٹیوں کے مقبولیت کا جائزہ لیا ہے۔ اس جائزے سے یہ حقیقت سامنے آئی ہے کہ ان انتخابات میں تحریک انصاف کے ووٹوں کی تعداد میں نصف کمی واقع ہوئی ہے۔ ان انتخابات کی دوسری دلچسپ حقیقت یہ سامنے آئی ہے کہ تحریک انصاف کی مخالف جماعتوں کے ووٹوں کی تعداد میںغیر معمولی اضافہ ہوا ہے۔( ادارہ)
خیبر پختونخوا کے17اضلاع کی مجموعی طو ر پر 66تحاصیل میں 19دسمبر کو پولنگ ہوئی۔ 24دسمبر تک 44تحاصیل کے مئیر اور چئیرمینوں کے فارم 19کے مطابق نتائج دستیاب ہیں۔ ایک تحصیل کے الیکشن ملتوی ہوئے اور 21 تحاصیل کے فارم 19 کے نتائج الیکشن کمیشن کی ویب پر نہیں ہیں۔
یہ بھی پڑھیے:
عمران خان کا تازہ بیان؛ کیا ان کے اختتام کی ابتدا ہے؟
پچیس دسمبر: آج قائد اعظم کا یوم ولادت ہے
ذیل کے اعداد وشمار انہی 44 تحاصیل سے متعلق ہیں۔ جن میں سیاسی و مذہبی جماعتوں کے حاصل کردہ ووٹ اور تحاصیل مئیر اور چیئرمینوں کے حاصل کردہ ووٹوں کی تفصیلات سامنے آتی ہیں۔ ترتیب حاصل ووٹ کے حساب سے رکھی گئی ہے ۔ ووٹ کے اعدادوشمار کا جائزہ 2018ء کے عام انتخابات سے لیا جائے تو دلچسپ صورت حال سامنے آتی ہے۔ ان اعداد و شمار کے مطابق تحریک انصاف کا ووٹ بنک تقریباً نصف کم ہوا ہے۔ جبکہ باقیوں کے ووٹ میں اضافہ ہوا ہے۔
اسی بارے میں یہ بھی دیکھئے:
اگرچہ ووٹ میں تحریک انصاف اب بھی سب سے آگے ہے، مگر ماضی کے مقابلے میں ووٹ بنک میں بہت حد تک کمی آئی ہے۔ ان اعدادو شمار میں آزاد حیثیت میں کامیاب ہونے والے 5اور تحریک اصلاح کے ایک چئیرمین کے ووٹ اور نشستیں نہیں شامل ہیں۔