1994 میں لاہور پریس کلب دیال سنگھ مینشن کے دو کمروں سےنکل کر پہلی بار شملہ پہاڑی کےدامن میں ایک نئی خوبصورت اور شاندارعمارت میں منتقل ہوا۔ صحافیوں کی خوشی دیدنی تھی۔ کلب کی پہلی گورننگ باڈی میں مجھے بھی منتخب ہونے کا موقع ملا۔ نئی عمارت بڑی منفرد دکھائی دیتی۔ جس کا کچھ حصہ نیچے اور کچھ اوپر تھا۔
نوجوان صحافیوں میں مقبول ہماعلی کلب کے صدر تھے۔ ساری باڈی بڑی سرگرم اور مختلف امور کے حوالے سے جذباتی تھی۔ گورننگ باڈی میں سارے میرے سنیئر تھے۔ پہلے اجلاس میں کئی فیصلے ہوئے۔ میں نے تجویز دی کہ کیفے ٹیریا گورننگ باڈی خود چلائے، اسے ٹھیکے پر نہیں دینا چاہیے۔ اسے تسلیم کرلیا گیا اور قرعہ میرے نام کا نکلا۔ میں نے کہامیری تجویز تھی کوئی اور سنیئر ذمہ داری نبھائے۔ اجلاس میں ہم سب کے سنیئر حسین نقی صاحب بھی تھے۔ ان کااور ہماعلی کا خیال تھا کہ مجھے ہی کیفے ٹیریا کی ذمہ داری سنبھالنا ہوگی۔
یہ بھی پڑھئے:
عمران خان کا تازہ بیان؛ کیا ان کے اختتام کی ابتدا ہے؟
پچیس دسمبر: آج قائد اعظم کا یوم ولادت ہے
میاں نواز شریف وطن واپسی کے اشارے کیوں دے رہے ہیں؟
اجلاس کا ماحول اختتام میں بہت دوستانہ ہوگیا۔ ہماعلی نے کسی کو چھیمی شاہ کہہ کر پکارا۔ مجھے لگا سنیئر فوٹو گرافر اظہرجعفری کا نام ہے۔ اسی طرح کسی نے دوسرے کو چھیمی شاہ کہہ دیا۔ اب گاہے بگاہے کوئی نہ کوئی یہ نام لیتا۔ میں یہی سمجھتا۔ ان چند میں سے کوئی ایک ہوگا۔ اب مزے کی بات کسی کے نام کو بگاڑنے پر بھی چھیمی نہیں بنتا تھا۔ میرے لئے پریس کلب میں چھیمی شاہ ڈھونڈنا ایک معمہ سا بن گیا۔ کارڈ روم میں بھی اس نام کی گونج سنائی دیتی۔ حامد جاوید سے تعارف تھا۔ میں نے دیکھا زیادہ تکرار سے انہیں پکارا جاتا ہے۔ اب جیسے کنفرم ہوگیا کہ حامد جاوید ہی چھیمی شاہ ہیں۔ کبھی کبھی شک گزر جاتا جیسے کوئی کورڈ ورڈ ہے۔ دوست یار اسے کسی خاص موقع کے لئے استعمال کرتے ہوں۔
مجھ سے رہا نہ گیا۔ ایک دن ہماعلی سے ہی پوچھ لیا۔ کیونکہ انہوں نے ایک نئےکردار جسے پہلے نہیں سنا تھا۔ انہیں بھی چھیمی شاہ کہہ دیا۔ جواب ملا۔ یہ کسی کا نام نہیں۔ بڑا تعجب ہوا پھر کون ہے؟ کیوں اتنی تکرار سے پکارا جاتاہے۔ ہماعلی نے اپنے مخصوص انداز میں کہا۔مائی ڈئیر چھیمی شاہ پیار کا نام ہے۔ میں نے تمام ممکنہ نام لےڈالے۔ مگر ہماعلی کا یہی کہناتھا۔ پریس کلب میں ہم خیال دوست زیادہ تر اسے پیار کے لئے استعمال کرتے ہیں۔
کارڈ روم میں سادہ مزاج صحافی سلیم شاہ آتےتھے۔ جن کےبارے میں بتایا گیاہے کہ کارڈکھیلنے والےپہلے آنکھوں آنکھوں میں پھر کھلے عام کہنےلگے۔ یہ چھیمی شاہ ہیں۔ یعنی سادہ شریف آدمی ہیں۔ جن دوستوں نے یہ سلسلہ شروع کیا، وہ چھیمی شاہ کو کارڈ روم سےباہر لے آئے۔
یہ بھی دیکھئے:
بات بظاہر صاف تھی لیکن آنے والے دنوں میں کئی لوگوں کا کہناتھا یہ صرف حامد جاوید کا نام ہے۔ وہ ہمارے ساتھ اخبار میں آکر کام کرنے لگے۔ ہر اپنا غیر انہیں چھیمی شاہ کہتا۔ لیکن مزے کی بات یہ تھی وہ بھی دوسروں کو اسی نام سے مخاطب کردیتے۔ مطلب وہی کہ پیار کانام ہے۔ حامدجاوید بڑے دبنگ طبیعت کے انسان تھے۔ ساتھیوں کے بڑے کام آتے۔ ایک روایت یہ بھی ہے کہ انہوں نے سابق چیف جسٹس جن کے نام کی مناسبت تھی۔ انہیں بڑی سادگی میں ایک بار چھیمی شاہ کہہ دیا۔ جس کے بعداس نام کے زیادہ چرچے ہوگئے۔
ہمارے دوست گوہر بٹ کی یادداشت بہت اچھی ہے۔ میں نے ایک عرصے بعد دریافت کیا۔ وہ بھی لمحے بھر کیلئے کنفیوز ہوگئے۔ پہلے بولے،حامد جاوید، پھراظہر جعفری ،کچھ ذہن پر زوردیا اور کہا نہیں ایک استعارہ ہے۔ جسے پیارکرنے والوں نے ایک دوسرے میں ٹائٹل کے طورپر بانٹ دیا۔
آج اٹھائیس برس بیت گئے۔ جب بھی لاہور پریس کلب کی زبانی یادداشتیں اکٹھی کی جاتی ہیں۔ اس نام پر کئی چہرے نظروں کے سامنے جبکہ بے شمار واقعات بھی یادآجاتے ہیں۔ کلب میں کئی ہردلعزیز کردار رہے ہوں گے لیکن آج بھی پرانے ممبر بلامبالغہ تصدیق کریں گے کہ چھیمی شاہ پیار، محبت اور سادگی سے بھرپور کسی بھی ممبر کیلئےاستعمال ہونے والا نام ہے۔