کیا عمران خان کا تازہ بیان ان کے اختتام کی ابتدا ہے؟ عمران خان نے اپنے تازہ بیان میں مستقبل قریب میں رونما ہونے والی امکانی پیش رفت پر احتجاج کیا ہے۔ ان کا یہ احتجاج کسی اپوزیشن لیڈر جیسا ہے۔ ان کے بیان میں پائی جانے والی تلخی ان کی پریشانی ظاہر کرتی ہے۔
سزا یافتہ مجرموں کو چھوڑنا ہے تو کیوں نہ جیلوں کے دروازے کھول دیے جائیں۔ انھوں نے یہ بھی کہا کہ نواز شریف کی نااہلی ختم کرنے کی کوشش کی جا رہی ہے۔’
عمران خان کے اس بیان میں ایک تو ان کی پریشانی ظاہر ہو رہی ہے۔ وہیں وہ ایک نیا بیانیہ ترتیب دینے کی کوشش میں بھی مصروف نظر آتے ہیں۔
اس موضوع سے متعلق یہ وڈیو بھی دیکھئے:
ان کے نئے بیانئے میں چند نئے دلچسپ نکات بھی شامل ہیں۔ تحریک انصاف کی قیادت نے حسب عادت عمران کے نئے بیانئے کی جگالی شروع کر دی ہے۔ اس کے ساتھ ہی یہ بھی کہا جارہا ہے کہ نواز شریف آتے ہی جیل بھیج دیا جائے گا۔
اب ان دو نکات کا جائزہ لیا جائے تو ان دونوں میں تضاد دکھائی دیتا ہے۔ اگر نواز شریف کی نااہلی ختم کی جا رہی تو صاف ظاہر ہے کہ معاملات ان کے ہاتھ میں نہیں رہے۔ اگر معاملات ان کے ہاتھ میں نہیں رہے تو پھر یہ کیسے ممکن ہے کہ نواز شریف کو جیل بھیجا جاسکے؟
یہ بھی پڑھئے:
پچیس دسمبر: آج قائد اعظم کا یوم ولادت ہے
میاں نواز شریف وطن واپسی کے اشارے کیوں دے رہے ہیں؟
آتے دنوں میں گم، ڈاکٹر زاہد منیر عامر کا نیاشعری مجموعہ
اسی کے ساتھ عمران نے اپنی جماعت کی تنظیم توڑ دی ہے۔ جب کسی بڑے سیاسی دھچکے کے بعد کسی جماعت کی تنظیمیں توڑنے کی نوبت آتی ہے تو یہ شکست خوردگی کی پہلی علامت ہوتی ہے۔ یہی مرحلہ ہوتا ہے جب کسی سیاسی جماعت کی اصل طاقت یعنی کارکن مایوس ہو کر گھر بیٹھ جاتے ہیں۔ کارکنوں کے غیر متحرک ہونے سے پہلے الیکٹبلز ساتھ چھوڑ جاتے ہیں۔ عمران خان نے تحریک انصاف کو اس مرحلے پر لا کھڑا کیا ہے۔
تحریک انصاف کے نئے بیانئے کے ساتھ دو پہلو مزید جڑ چکے ہیں۔ خیبر پختونخوا میں شکست کے فوراً ہی بعد اسی جماعت کے ذرائع نے یہ امکان ظاہر کیا کہ بلدیاتی انتخابات کا اگلا مرحلہ ملتوی کیا جا سکتا ہے۔ ایسا کیوں کیا جائے گا، اس کے لیے موسم کی شدت کا عذر اختیار کرنے کا امکان ظاہر کیا گیا ہے۔
دوسری بات یہ سامنے آئی کہ انتخاب تو کرا دیا جائے لیکن یہ مرحلہ فوج کی نگرانی میں مکمل کرایا جائے۔
یہ سب باتیں شکست خوردگی کی نشان دہی کرتی ہیں۔ جب کوئی سیاسی گروہ ایسی صورت حال سے دوچار ہو جاتا ہے تو اس کی کیفیت پہاڑ کی چوٹی سے گرنے والے اس پتھر کی سی ہو جاتی ہے جسے درمیان میں روکنا ممکن نہیں رہتا۔