ADVERTISEMENT
واقعۂ کربلاء صرف عالم اسلامی ہی کا المیہ نہیں بلکہ پورے عالم انسانیت کا المیہ ہے۔ یہ کوئی ایسا واقعہ نہیں جو ماضی اور حال کے دبیز پردوں میں چھپ جائے اور بھلا دیا جائے، یہ اپنے غم واندوہ کی وجہ سے ہے بلکہ اپنے انسانی اصولوں کی وجہ سے ایک غیر فانی واقعہ ہے۔ کربلا کے واقعات تاریخِ انسانیت کا وہ عظیم المیہ ہیں جن میں ایک طرف جور وجفا کی انتہا ہے تو دوسری طرف حسینیت کے روپ میں استقامت، عزم، قوتِ عمل، معیارِ قربانی، صبر وقناعت، سخاوت، شجاعت، راست بازی اور ثباتِ قدم کی انتہا ہے۔
مذہب کے ساتھ انسان کا جذباتی رشتہ ہوتا ہے۔ معتقدات اور محسوسات افراد ومعاشرے دونوں سطحوں پر پائے جاتے ہیں اور کسی بھی مہذب معاشرے میں ان کا شمار اعلی اقدار میں ہوتا ہے۔ مذہب وعقیدت سے گہری وابستگی کے باعث عربی شاعری میں واقعہءکربلاء کو اہمیت حاصل ہے۔
عرب شعراء نے کربلاء سے دلچسپی ظاہر کی ہے اس لئے کہ ان کے معاشرے اکثر و بیشتر دھوکہ، استبداد، ظلم وستم اور اجنبیت کے شکار رہتے ہیں۔ شعراء ان مسائل کے حل کے لئے ایک ایسی بہتر دنیا کی امید رکھتے ہیں جو صرف ورثے میں ملتی ہے۔ وہ ماضی کا رخ کرتے ہیں تاکہ وہ آج کے معاشرے کی آزمائشوں کا مقابلہ کرنے کے لئے کوئی مناسب حل تلاش کرنے میں مدد دے۔ وہ ماضی کے نمونوں اور آزمائشوں سے سبق لیتے ہیں۔ عرب شعرا نے اپنی شاعری میں کربلاء کو بطورِ رمز استعمال کرکے عصر حاضر کے حالات بیان کیے ہیں ۔ انہوں نے کربلاء، حضرت امام حسین رضی اللہ عنہ اور ان کی شہادت کا جہاں جہاں نیا مفہوم بیان کیا ہے وہاں ان کی فکری بلندی اور طریقہ استدلال قابلِ دید ہے۔
بیشتر عربی شعراء کی شاعری میں ظلم و زیادتی کے خلاف للکار اور جوش نظر آتا ہے۔ مثلاً فاروق جویدہ، نزار قبانی، احمد مطر، مظفر النواب، اور سمیح القاسم نے آزادی، استحصال، جبر اور ظلم کے خلاف آواز بلند کرنے، امن پسندی اور سلامتی، انسانی عظمت کا اعتراف نیز قوم کے اندر سیاسی وسماجی اور اخلاقی بیداری پیدا کرنے جیسی باتوں کو خاص موضوع بنایا ہے۔ وہ شعرا موجودہ عہد کے پس منظر میں کربلاء کا مطالعہ کرتے ہیں اور کربلاء ہی سے اپنے عصری مسائل اور فکری الجھنوں کا حل تلاش کرتے ہیں وہ کربلاء کو ہر تخلیقی تجربے کا جز اور اس کے اظہار کا وسیلہ مانتے ہیں۔
عراقی شاعر احمد مطر واقعہءکربلاء کو جبر اور ظلم وستم کے خلاف انقلاب، قربانی اور جانثاری کی ایک علامت شمار کر رہے ہیں اور اسے اظہارِ بغاوت کے لیے استعمال کر رہے ہیں یہ بند دیکھیں:
مجھے اسے کوئی دلچسپی نہیں کہ
کون میرے ساتھ تھا اور کون میرے خلاف
مجھے اس سے کوئی سروکار نہیں کہ کون آنسووں سے رویا ہے
یا کون خون کا آنسو رو رہا ہے، مجھے صرف ایک ہی فکر ہے
اور وہ یہ کہ میں زندگی سے نکل کر موت میں داخل ہوں
اور واقعہء کربلا میں کام آنے والوں کی صف میں شامل ہو جاؤں
شاعر کے نزدیک زندگی سے وہ موت بہتر ہے جو شہیدانِ کربلاء کی فہرست میں داخل کر دے اور یہ زندگی کا ایک اہم مقصد ہے ۔انھوں نے سیاسی زاویہ سے واقعہء کربلاء کا گہرا مطالعہ کیا اور اس انقلابی دور میں کربلا کو کہیں علامت اور استعارہ بنا کر اور کہیں واضح طور سے دنیا کے سامنے پیش کیا۔ تاکہ لوگوں کے دلوں میں عزم وحوصلہ، جرأت وہمت اور صبر وشجاعت کے جذبات پیدا ہوں۔
مصری شاعری فاروق جویدہ کربلاء اور شہیدوں کے خون کے حوالے سے پیغمبروں کی سر زمین ‘مقبوضہ فلسطین’ کے سنگین حالات کو اپنی شاعری میں بیان کرتے ہیں اور کہتے ہیں کہ فلسطین صیہونیت کے زندان میں قید ہے اور امت مسلمہ شکستگی اور بے حسی کا شکار ہے ۔ یہ اشعار ملاحظہ ہوں :
پیغمبروں کی سرزمینوں سے کیا باقی ہے؟ اس سیاہ ستارے کے سوا کچھ بھی نہیں جو آسماں میں خوشحال بسر کر رہا ہے
مقتولوں کے جنازوں کے
اور عورتوں کی آہ وفغان کے سوا کچھ بھی نہیں
داحس کی ایسی تلواروں کے سوا کچھ بھی نہیں جنھوں نے غبراء کو موت کے گھاٹ اتار دیا تھا
آل بیت کی اس خون کے سوا کچھ بھی نہیں جو اب تک کربلاء کو گھیرے ہوئے ہے
کائنات ایک تابوت ہے
اور سورج کی آنکھ ایک سولی ہے
اور عربیت کی تاریخ
سخت انتقام کی تلوار یاخون ہے
پیغمبروں کی سرزمینوں سے کیا باقی ہے؟
پچاس سال
اور ہر جگہ شور وہنگامہ ہے
اور پھر خاموشی ہے
شاعر نزار قبانی کی نظر میں حادثہء کربلاء انتہائی بہادری اور شرافت کی غمازی کر رہا ہے اور جو جنازے اسلامی اور عربی ممالک میں آٹھ رہے ہیں وہ آزادی کے لیے اپنی جانیں قربان کر دینے کی اعلی مثالیں پیش کر رہے ہیں :
ہر جنازہ کربلا سے شروع ہوتا ہے
اور کربلا میں ختم ہو جاتا ہے
ان کا یہ بھی خیال ہے کہ ہمارے زمانے اور کربلاء کے زمانے میں بے حد مشابہت پائی جاتی ہے۔ عربی امت کا ہر روز روزِ کربلاء کی مصیبتوں کی طرح ہیں، کہتے ہیں:
ہماری پوری تاریخ آزمایش ہو گئی ہے
اور ہمارے تمام دن کربلاء ہو گئے ہیں
نزار قبانی نے موجودہ صورت حال کو “ہمارے تمام دن کربلا ہو گئے ہیں” سے تعبیر کیا ہے، اور ان کا خیال ہے کہ زندگی کی کسی بھی جد وجہد میں کربلا کی روح کا ہونا بہت ضروری ہے۔ زندگی کے کسی بھی شعبے میں کام کرنے والوں کے لیے ضروری ہے کہ وہ کربلاء کی تاریخ کا مطالعہ کریں اور اس کے بہادروں سے قربانی، جانفشانی، قوتِ برداشت، ہمت وعزیمت اور خودداری کا سبق حاصل کریں، یہاں تک کہ ان کے کھانے پینے، عادات وتقاليد، رہنے سہنے اور زندگی اور موت ہر ایک میں کربلا کی روح دوڑنے لگے:
ہم رونے والے شہروں کے باشندے ہیں
ہماری کافی کربلا کے خون سے بنائی جا رہی ہے
ہمارے گیہوں میں کربلا کا گوشت ملا ہوا ہے
ہمارا کھانا، ہمارا پانی
ہماری عادت، ہمارے دن
ہمارا روزہ، ہماری نماز
ہمارے پھول، ہماری قبریں
ہمارے چمڑوں پر کربلا کی مہر لگی ہوئی ہے
نزار قبانی کے یہ اشعار آج کے دور کی بدترین حالت کی ترجمانی کر رہے ہیں ۔ ان کی روشنی میں ہم عصر حاضر کو واقعہء کربلاء کے پس منظر میں دیکھ رہے ہیں اور یہ معاصر دور کربلاء کی فضا میں گردش کر رہا ہے۔
نزار قبانی کی نظم (اسرائیل کی دیواروں پر فدائیانہ اشتہارات) میں اسرائیل کے جبر و ظلم میں نفرت اور کینہ جیسی دو اہم چیزیں نظر آتی ہیں۔ انہوں نے اسرائیلی فوج کو فلسطینیوں کا محاصرہ کرنے میں معاویہ اور ابو عبیدہ کی فوج سے تشبیہ دی۔ کہتے ہیں:
اندر حد درجہ کینہ اور نفرت پایا جاتا ہے
یہاں سے ابو عبیدہ کی فوج
اور یہاں سے معاویہ کی فوج
تمہاری سلامتی چکنا چور ہے
کسی زانیہ کے گھر کی طرح
تمہارا گھر گھر ہوا ہے
نزار قبانی ہمیں ثابت قدمی اور مزاحمت کی دعوت دیتے ہیں۔ اور ہمیں صبر وتحمل سے کام لینا چاہئیے اور قربانیوں کے اس تاریخی دور سے گزرنے کی کوشش کرنی چاہئیے۔ کربلاء میں امام حسین کی طرح ہر پیش قیمت شئے کی قربان کر دینے کے لئے تیار رہنا چائیے۔ وہ کہتے ہیں:
حسین کے درد سے آئیں گے
فاطمہ زہراء کی رنجیدگی سے آئیں گے
اور کربلاء کے غموں سے آئیں گے
ہم اس لئے آئیں گے تاکہ تاریخ اور دیگر چیزوں کو درست کریں
عربی شاعر معاصر حالات کو بھی موضوع بنا رہا ہے۔ عراق میں میں ہزاروں بے گناہ قتل کر دئیے گئے اور وہاں خون کی ہولی کھیلی گئی۔ شاعر سمیح القاسم اپنی نظم ( محبت کے شہید) میں کربلا کو اس عربی خون کی ایک علامت قرار دے رہے ہیں جو آج تک عراق اور فلسطین کے جسموں سے بہہ رہا ہے، یہ اشعار ملاحظہ فرمائیں:
کربلاء کیا! اور بغداد میں بھی میری قوم کے خون وقتا فوقتا بہہ رہے ہیں
میں کیا کہوں گا اگر میرے درد کے بارے میں پوچھا جائے
یہ زخم میرا زخم ہے اور یہ چاقو میرا چاقو ہے
اور جب مجھے موت کا منظر یاد آئے گا تو میں کس پر روؤں گا
اپنے عراق پر یا اپنے فلسطین پر!؟
شاعر موجودہ صورتحال کو واقعہء کربلاء کے پسِ منظر میں دیکھ رہے ہیں ۔شاعر نے بغداد اور فلسطین کا ذکر کیا ہے اور وہاں آئے دن بہائے جانے والے خون، اور ان مظلوموں کے لیے کسی یار ومددگار کے نہ ہونے کی جانب اشارہ کیا، اس سے اندازہ ہوتا ہے کہ عرب شعرا کا مقصد یہ ہے کہ پوری دنیا کے ممالک کی ہر اعتبار سے اصلاح کی جائے، وہاں موجود ظلم وزیادتی کے خلاف آواز اٹھائی جائے اور امن وسکون کی زندگی گزارنے کے اخوت و بھائی چارگی کا پیغام عام کیا جائے اور لوگوں آزادی دی جائے ۔اس طرح ملکوں کی سیاست اور معاشرت دونوں کی اصلاح کی جائے ۔
آج پوری دنیا میں ہر طرف خون بہایا جا رہا ہے ۔ لگتا ہے کہ آج بھی ہر مظلوم امت کربلاء میں ہی ہے ۔ظالم طاقتیں معصوموں پر ظلم کیے جا رہی ہیں۔ آج خوف کے ماحول میں نہ زندگی محفوظ ہے اور نہ جان ۔ یزیدی طاقتیں نہتوں پر ظلم وستم کئے جا رہی ہیں۔ عربی شعرا اپنی شاعری میں جدید مسائل کا ذکر کرتے ہوئے ان حالات کی نشاندہی کرتے ہیں جن سے آج سماج دوچار ہے ۔ مثلاً دہشت گردی، اور ظلم وتشدد۔ یہ مسائل نہ صرف آج کے عربوں کے مسائل ہیں بلکہ یہ عالمی سطح پر بھی نظر آتے ہیں ۔ دنیائے ادب میں تو حضرت امام حسین رضی اللہ عنہ اور کربلا کا شمار نہ صرف مذہبی معتقدات میں ہوتا ہے بلکہ تخلیقی کارواں کا ہر دور سے ایک اعلی سطح کا مستحکم جذباتی تعلق بھی قائم ہے ۔ بیدار دنیا کا شاید ہی کوئی گوشہ ایسا ہو جہاں حق وباطل کے معرکے میں حضرت امام حسین رضی اللہ عنہ کا نام بطور سچائی اور حق کی علامت کے طور پر نہ پہنچا ہو۔