گذشتہ روز ایک ایسی محفل میں شرکت ہوئی جہاں کراچی میں ایم کیو ایم کے عروج کا تذکرہ پارٹی کے ابتدائی ایام میں پاک لینڈ سیمنٹ کے مالک کی جانب سےالطاف حسین کی شاندار دعوت اور پھر چندہ دے دے کر تباہی تک کی داستان سے شروع ہوا اور اختتام تک بے شمار “تنظیمی” لطیفےسنتے سنتے رات کی گہرائی کے سبب ختم ہوا۔۔۔۔قصے تو بہت سے ہیں لیکن ایم کیو ایم کے ایک سابق وزیر کی کہانی کچھ زیادہ دلچسپ محسوس ہوئی جو کچھ اس طرح ہے:-
ایم کیو ایم کا معاملہ کمبائن فیملی سسٹم سے بھی کچھ آگے تھا۔۔۔کمبائن فیملی میں کم از کم میاں بیوی چھپ چھپا کر بہت سی باتیں کر لیتے ہیں لیکن ایم کیو ایم کی تنظیم میں کسی کو دوسرے “ساتھی” پر اس لیے اعتماد نہیں ہوتا تھا کہ کہیں وہ ساری باتیں لندن والی سرکار تک نہ پہنچا دے۔۔۔لہذا زباں بندی کا خاموش معاہدہ تھا جس میں الطاف حسین کی ہاں میں ہاں ملانے اور وفاداری کی معراج ثابت کرنے کی دوڑ تھی۔۔۔
۲۰۰۸ کے الیکشن میں ایم کیو ایم نے کراچی سے بھاری اکثریت حاصل کی تھی۔۔۔جیتنے والے تمام اراکین اسمبلی کو خاموشی سے قائد نے لندن بلا لیا تھا۔۔۔سارا دن اجلاس ہوتا رہا۔۔۔اس دوران الطاف حسین نے بڑے پیار سے اپنے ہاتھ کا بنا حلیم سب اراکین کو کھلایا۔۔۔۔حلیم کیا تھا بس دال کا شربت کہہ لیں۔۔۔کچا اس قدر کہ نگلنا عذاب۔۔۔موٹی موٹی گٹھلیاں اور تیرتی ہوئی کچی بوٹیاں۔۔۔لیکن واہ واہ اور زبردست کی صدا لگانے میں ایک سے بڑھ کر ایک اونچی آواز گونج رہی تھی۔۔۔الطاف حسین کچھ یوں خوشی اور محبت کا اظہار کر رہے تھے کہ کسی کی پلیٹ خالی نہ ہونے دیتے۔۔۔ایک طرف کنواں دوسری جانب کھائی۔۔۔پلیٹ خالی نہ ہو تو آواز آئے کیا تمہیں پسند نہیں آیا ہمارے ہاتھ کا بناحلیم؟؟؟ پلیٹ خالی کر دیں تو مزید زہر جیسا حلیم نما شربت بھر دیں۔۔۔اس سے بڑھ کر عذاب یہ کہ اپنے اندر گذرنے والے کرب کو ساتھ والے “ساتھی” سے بھی چھپا کر “بہت بہترین” بنا کر پیش کرنا تھا۔۔۔بہرحال اللہ اللہ کر کے جان چھوٹی۔۔۔اجلاس دوبارہ شروع ہوا تو کچھ ہی دیر میں ایک ایک کر کے سب ہی واش روم جاتے اور چہرہ جھکائے واپس آتے۔۔۔سب کا پیٹ شدید خراب ہو چکا تھا۔۔۔رات ہوئی تو جان بخشی ہوئی۔۔۔ہم سب تکلیف سے کراہتے اپنے کمروں میں آ گئے۔
اگلے دن ہمارے گھومنے پھرنے اور واپس کراچی جانے کا پروگرام تھا لیکن اچانک صبح چھ بجے کمرے کی گھنٹی زور سے بجنے لگی۔۔۔۔پیغام ملا کے فوری مرکزی دفتر پہنچیں۔۔۔اب حال ایسا تھا کہ تن کاٹو تو لہو نہیں۔۔۔جس کو وزارت مل گئی تھی وہ خوفزدہ ہوگیا کہ ہائے اللہ ۔۔۔۔ایک رات میں ہی شاید وزارت گئی۔۔۔اور جس کو وزارت نہیں ملی تھی وہ خوش ہوا کہ شاید رات خواب میں قائد کو کوئی خیال آ گیا ہوگا۔۔۔اجلاس والے کمرے میں بیٹھے تو ناراض چہرے کے ساتھ قائد کمرے میں داخل ہوئے اور ایک کاغذ غصے سے ٹیبل پر پھینکا۔۔۔سب کی سانسیں تھم گئیں کہ شاید پاکستان کی تنظیمی کمیٹی کا کوئی فیکس ہے جس میں اس کی اپنی شکایت بھی ہو سکتی ہے۔۔۔اب تو گئے۔۔۔کچھ دیر خاموشی کے بعد الطاف حسین بولے۔۔۔۔عجیب لوگ ہو۔۔۔اتنا واش روم کا استعمال کیا کہ بلڈنگ کا مین گٹر ہی بند ہو گیا ہے۔۔۔ہم پر جرمانہ ہو سکتا ہے اور ناجانے کیا کیا ۔۔۔وہ ایسے بولتے رہے جیسے ہم ہی صرف گٹر بند کرنے کے نہیں بلکہ پاکستان کے مسائل کے بھی اصل ذمہ دار ہوں۔ ایک طرف صبح صبح نیند خراب ہونے کا غصہ، دوسری طرف قائد کی مضحکہ خیز باتیں لیکن اصل بات یہ ہے کہ اتنے لوگوں میں کسی ایک کی یہ ہمت نہ تھی کہ قائد کو بتاتا کہ ہم نہیں بلکہ آپ کا بد ذائقہ ، کچا، گٹھلیوں والا گندہ حلیم اس کا ذمہ دار ہے۔ ایم کیو ایم کے سابق وزیر کچھ توقف کے بعد گویا ہوئے۔۔۔”شاید اس قسم کی خوفزدہ خاموشی ہی ہماری تباہی کا سبب بنی” ۔
ایم کیو ایم میں کسی خرابی کا تذکرہ لوگ آپس میں بھی کرنے سے قاصر تھے۔ ایک سکوت تھا جس نے آخر پارٹی کا شیرازہ کچھ ایسے بکھیرا کہ ریت کے ذرات کی مانند سمیٹنا ممکن نہ ہوا۔ پاکستان کے بدلتے حالات قائد کو ابتدا میں کوئی سنانا نہیں چاہتا تھا اور جب کسی نے آخری دنوں میں سنانے کی کوشش کی تو پھر اسے “شٹ اپ” کال ہی ملی۔ یہاں تک کے نائن زیرو پر مقامی قیادت کو پٹوانے کی کوشش تک ہوئی۔ بد دل تو لوگ تھے ہی مزید پاکستان مخالف نعروں نے جواز پیدا کر دیا۔۔۔الطاف حسین اب لندن میں دیواروں سے خطاب کرتے ہیں اور حلیم بنا کر خود ہی کھاتے ہیں جس کے ایک حکم پر کراچی چلتا تھا وہ اب تنہائی کا شکار ہے اور یہ ایک سزا سے کم کسی صورت نہیں۔ ہم سب بھی اپنی ذات میں چھوٹے موٹے الطاف حسین سے کم نہیں۔..تنقید پسند نہیں کرتے اور چاہتے ہیں کہ ہمارے سیاہ کو بھی سفید کہا جائے۔۔۔۔ اللہ محفوظ رکھے