اور کل میرے اندر کے ایک بہت بڑے خوف نے شکست کھالی۔ کہانی کے آغاز میں ہی میں بتاتی چلوں کہ سالوں تک میرے اندر پنپتا یہ خوف کون سا تھا۔ زمانہ حمل کے نو ماہ مجھ پر طاری رہنے والا یہ خوف ٹرانس جینڈر بچے کی پیدائش کا تھا۔ میں اکثر یہ سوچ کر لرز جاتی کہ میری کوکھ سے عام بچے نے نہیں بلکہ ٹرانس جینڈر نے جنم لے لیا تو کیا ہوگا؟ یہ وہ خوف تھا جو اس سماج میں ٹرانس جینڈرز کے ساتھ ہونے والے شرم ناک اور غیرانسانی سلوک کا نتیجہ تھا۔ واہیات سے میک اپ میں سڑکوں پر ناچتے گاتے بھیک مانگتے ان خواجہ سراو¿ں کو دیکھ کر دل بیٹھ سا جاتا اور دل سے دعا نکلتی کہ خدایا میرے گھر اس مخلوق کا جنم نہ ہو۔
فیڈرل بی ایریا میں واقع فرخ مرزا سیلون کی سیڑھیاں چڑھتے وقت میں ایک بے نام سی بے چینی کا شکار تھی۔ یہ بے چینی دو حوالے سے تھی ایک تو یہ کہ میں اپنے بالوں پر ایک نئے فرد کے ہاتھوں قینچی چلوانے والی تھی جس کا رسک میں لینے کو کبھی تیار نہیں ہوتی اور اس سے بھی بڑا مسئلہ یہ تھا کہ قینچی اس شخص کے ہاتھوں میں تھی جسے زمانہ ٹرانس جینڈر کے نام سے جانتا ہے۔
چہرے پر متانت اور سنجیدگی، سادہ سا حلیہ، سانولا رنگ، پُراعتماد لہجہ، میکانکی اور ماہرانہ انداز میں چلتے ہاتھ، کپڑوں سے اٹھتی ہلکی سی خوش گوار مہک۔ میں نے آج تک کسی ٹرانس جینڈر کو اتنے قریب سے نہیں دیکھا جتنا اس وقت دیکھ رہی تھی۔
اپنے نام کی طرح باوقار فرخ مرزا کا تعلق یوں تو ٹرانس جینڈر کمیونٹی سے ہے لیکن پیشے کے اعتبار سے وہ ہیئر اینڈ میک اپ آرٹسٹ ہیں۔ فرخ کو اپنے ٹرانس جینڈر ہونے پر فخر ہے۔ ان کو اس مقام پر پہنچانے میں بے شک اس کے والدین اور خاندان کے دیگر افراد کا بڑا کردار ہے جنہوں نے فرخ کو کم عمری میں ہی خواجہ سراو¿ں کو دان کرنے کے بجائے اس کی بہترین پرورش کی اور اپنے پیروں پر کھڑا ہونے کے قابل بنایا۔
فرخ اس وقت بھی اپنے آبائی گھر میں مقیم ہیں۔ گھر کے دیگر افراد امریکا نقل مکانی کرچکے ہیں اور فرخ کو ان کے بھائی امریکا بلانے کی کوششوں میں مصروف ہیں۔
گھر کی بالائی منزل گویا فرخ کی کُل دنیا ہے جہاں وہ عورتوں کو سجانے سنوارنے کا شوق پورا کرتی ہیں۔ اپنی محنت سے نہ صرف خود کماتی ہیں بلکہ کئی عورتوں کے لیے ذریعہ روزگار بھی بنی ہوئی ہیں۔ ان کے سیلون کی ورکرز تو عام لڑکیاں اور خواتین ہی ہیں لیکن کسٹمرز میں خواجہ سرا بھی شامل ہیں۔
فرخ کے دروازے کے اندر قدم رکھ کر معلوم ہوا کہ مسجد کے ٹھنڈے فرش کے علاوہ بھی بعض جگہیں بہت پُرسکون ہوتی ہیں اور یہ بھی ادراک ہوا کہ ہم میں اور ٹرانس جینڈرز میں تو کوئی فرق ہے ہی نہیں سارا فرق ہمارے اپنے ذہنوں میں پلتی سوچ کا ہے۔
کیا اس سماج کی فضا فرخ اور ان جیسے دیگر ٹرانس جینڈرز کے لیے سازگار ہے؟ یہ ایک سوال وہاں گزارے ہر لمحے میں میرے اندر ہتھوڑے کی طرح برستا رہا۔ ایک طرف ٹرانس جینڈرز کی اپنی بقا کے لیے جنگ ہے تو دوسری جانب وہ دھکے ہیں جو سماج انہیں دے کر واپس پیچھے کی طرف دھکیل دیتا ہے۔ ابھی کوئی ہفتے بھر پہلے کی ہی تو خبر ہے کہ ایک بڑے نجی بینک کی مانسہرہ میں واقع برانچ میں ایک خواجہ سرا نادرہ اکاو¿نٹ کھلوانے گئیں جن کا اکاو¿نٹ تمام ضروری کارروائی کے بعد کھول دیا گیا، لیکن پھر فوراً ہی بینک کے ہیڈکوارٹر نے یہ کہہ کر ان کا اکاو¿نٹ بند کردیا کہ یہ خواجہ سرا ہیں اور ان کی آمدنی غیرشرعی ہے، کیوں کہ بینک کے شریعہ بورڈ نے اس پر پابندی لگا رکھی ہے اس لیے بینک نے اکاو¿نٹ کھولنے سے انکار کردیا۔ اس کے باوجود کہ نادرہ کے شناختی کارڈ پر جنس کے خانے میں “مرد ” درج تھا۔
ہمارے جیسے مردہ معاشروں میں ایسی خبروں کی گنجائش ہمیشہ ہی رہتی ہے۔ شریعت کے نام پر وہ کون سا بڑا کھیل ہے جو ہمارے یہاں نہیں کھیلا گیا۔ مذہب کے نام پر کتنے ہی جال نہیں بچھائے گئے اور اس بساط پر وہ کون سی شاطرانہ چالیں ہیں جو نہیں چلی گئیں۔ لیکن کیا ہی اچھا ہو کہ شریعت کو جیتے جاگتے انسانوں کا دم گھونٹنے کا آلہ تو نہ بنایا جائے۔ خصوصاً ان لوگوں کا جن کی پیدائش میں اپنا نہ کوئی اختیار ہو اور نہ ہی کوئی قصور۔ شریعت تو اضطرار کی حالت میں سور اور مردار کھانے کی بھی گنجائش نکال لیتی ہے وہ خواجہ سراو¿ں کے معاملے پر اتنی سفاک کیسے ہوسکتی ہے؟
ہم جس معاشرے کا حصہ ہیں وہاں لوگ مذہب کے معاملے میں بڑے ہی جذباتی ہیں، لیکن افسوس کہ ان کا مذہب فقط مفتی کی بات پر ایمان لانے کی حد تک ہے۔ ایسے سماج میں مذہب کے یہ نام نہاد وارث جس کو لاوارث چھوڑ دیں پھر اس کا کوئی بھی پرسان حال نہیں رہتا۔ کچھ ایسا ہی سلوک خواجہ سراو¿ں کے ساتھ ہورہا ہے۔ ان کا بھی یہاں کوئی وارث نہیں کیوں کہ ابھی سماج کی شریعت ان کی لاٹھی بننے کو تیار نہیں ہے۔
خواجہ سراو¿ں کے ساتھ اس سفاکی کی ابتدا تو ان کے اپنے گھروں سے ہی ہوجاتی ہے، سب سے بڑے دشمن تو خود والدین بن جاتے ہیں جو اپنے ہی پیٹ سے جنم لینے والے ٹرانس جینڈر کو قبول کرنے سے انکار کردیتے ہیں اور ان کے لیے عام زندگی گزارنے کے دروازے خود بند کردیتے ہیں۔ فرخ مرزا جیسے ٹرانس جینڈرز گنتی کے چند ہی تو ہیں، جو اپنی عملی زندگی میں کام یاب بھی ہیں اور سر اٹھا کر اپنی بھی شناخت بتاتے ہیں، کیوں کہ ان کو یہ فخر دینے والے ان کے والدین ہیں جنہوں نے بہترین تعلیم اور ہنر سے آراستہ کرکے اپنے بچوں کو معاشرے میں تماشا بننے سے بچالیا۔
فرخ مرزا جیسے لوگ، چاہے ان کے شناختی کارڈ میں جنس کا خانہ کچھ بھی کہتا ہو، ہمارے معاشرے کا بلاشبہہ فخر ہیں۔ فرخ مرزا ایک آرٹسٹ ہی نہیں بلکہ روایت شکن بھی ہیں جو ٹرانس جینڈرز سے وابستہ اس ٹیبو کو توڑنے میں اپنا کردار ادا کر رہی ہیں جو بدقسمتی سے ہمارے سماج کی جڑوں کو غیرانسانی حد تک کھوکھلا کر رہا ہے۔ کیوں نہ ہم اس ٹیبو کو توڑنے میں فرخ مرزا اور ان جیسے دوسرے ٹرانس جینڈرز کا ساتھ دیں۔ ان کے کام کی جگہوں پر جا کر ان کی آمدنی میں اضافہ کریں، تاکہ سماج کی شریعت ان کی کمائی کو حرام قرار دے کر ان کے کھاتے کھولنے سے انکار تو نہ کرسکے۔