حکومت گلگت بلتستان نے ضلع استور کے مختلف علاقوں (نوٹیفیکیشن دیکھیں)کو “ہمالین نیشنل پارک” کے نام پر اپنے قبضے میں لے لیا ہے۔21 جنوری2021ء کو نوٹیفیکیشن جاری ہو چکا ہے۔
نوٹیفیکیشن کے مطابق ضلع استور کے وادی گریز (منی مرگ ،قمری، کلشئی)، چھوٹا دیوسائی، کالا پانی اور میر ملک کے مخصوص علاقوں پر مشتمل 1989 مربع کلو میٹر علاقے کو نینشل پارک کا درجہ دیدیا ہے۔
نوٹیفیکیشن میں ہمالین نیشنل پارک کی جو حدود متعین کی گئی ہے، اس کے حساب سے ضلع استور کا تقریبا 40 فیصد رقبہ اس میں شامل ہوگا۔ مبینہ پارک سے چھوٹے بڑے 70 سے زائد گائوں کے 70 ہزار سے زائد افراد کی آبادی متاثر ہوگی۔
یہاں پر یہ بات انتہائی غور طلب ہے کہ حکومت نے یہ عمل لوگوں سے مشاورت کے بغیر انکی کی مرضی کے خلاف یک طرفہ طور پر کیا ہے۔
ماہرین کا کہنا ہے کہ یہ علاقے “نیشنل پارک” قرار پانے کے بعد مقامی لوگوں کے کئی حقوق ختم ہو جائیں گے ۔
مثلا جنگلات، جنگلی حیات، جنگلی نباتات اور ملکیتی زمینیں بھی حق سرکار ہونگی، جبکہ ان علاقوں میں کلی طور پر زندگی کا انحصار انہی چیزوں پر ہے۔
بنیادی سوال یہ ہے کہ اس عمل سے قبل کیا حکومت نے مقامی لوگوں سے مشاورت کے بعد کوئی معاہدہ کیا ہے؟
معاہدہ کن کن شرائط پر ہوا ہے؟
لوگوں کو ان کے حقوق کے سلب ہونے کے بدلے میں کیا سہولت ملے گی؟
کیا نیشنل پارک قرار دینے سے قبل کے مقامی لوگوں کے ساتھ فوائد و نقائص پر بات ہوئی؟
یقینا یک طرفہ طور پر حکومت کا کوئی بھی فیصلہ قابل قبول اور عمل نہیں ہوگا۔
حکومت گلگت بلتستان نے ضلع استور کے جن علاقوں(ضلع استور کا تقریبا نصف رقبہ ) کو “ہمالین نیشنل پارک” قرار دیا ہے وہ وزیراعلی گلگت بلتستان خالد خورشید خان کے انتخابی حلقے میں آتے ہیں۔
مقامی لوگوں نے انہیں ووٹ دیا اور وزیر اعلی بنوایا کیا اس کا صلہ یہ ہے؟
وزیر اعلی گلگت بلتستان خالد خورشید خان فوری طورپر21 جنوری2021ء کا نوٹیفیکیشن کالعدم قرار دیکر اپنے حلقے کے عوام کو قائل کریں اور ان سے مشاورت کے بعد معاہدہ کریں۔
حکومت کا یک طرفہ کوئی بھی عمل قابل قبول اور نہ قابل عمل ہوگا۔
یاد رہے کہ حکومت کی جانب سے عوامی بنیادی حقوق کے حوالے مطمئن اور معاہدہ نہ کرنے کی بنا پر مقامی عوام نے حالیہ دنوں حکومتی عمل کی شدید مخالفت کی تھی اورحکومت نے عوامی رائے کو مسترد کرتے ہوئے نیشنل پارک کے قیام کا یک طرفہ طور پر نوٹیفکیشن جاری کیا ہے۔
حکومتی عمل کے حوالے سے مقامی عوام، سیاسی و سماجی قائدین، صحافی اور دیگر شعبہائے زندگی سے تعلق رکھنے والے افراد کو نقائص و فوائد کو مد نظر رکھتے ہوئے مشترکہ حکمت عملی طے کرنا ہوگی۔