اگر 2010 کی دہائی جنگوں،بد نظمی اور انتشارکی دہائی تھی تو اندازہ ہے اگلی دہائی کی شناخت حکومت مخالف مظاہرے ہو گی جس کا مرکز مشرق وسطی بنتا دکھائی دیتا ہے ۔
خیال یہی ہے کہ مشرق وسطیٰ کے تیل سے مالا مال ممالک میں معاشی اور معاشرتی اصلاحات کے نفاذ میں کئی پہلووں سے مزاحمت کا سامنا کرنا پڑے گا۔ عالمی اقتصادی بحران کےپیش نظر توانائی کے وسائل کی برآمدات پر انحصار کم کرنے جیسے چیلنجوں سے نمٹنے کے علاوہ عمرانی معاہدوں میں یک طرفہ تبدیلیوں کے باعث نوجوانوں کا حکومتی اداروں سے اعتماد اٹھ گیا جس سے مطلق العنان حکومتیں دباؤ میں ہیں۔
اب جب نئی دہائی کا آغاز سابق امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ جیسے استبدادیت پسند حکمران کی جگہ جوبائیڈن جیسے جمہوریت پسند حکمران کی آمدسے ہو رہا ہے تو اس کے نتیجے میں اضطراب کی نئی لہریں ضرور جنم لیں گی کیونکہ ٹرمپ کے برعکس جو بائیڈن جمہوری اقدار اور بنیادی آزادی پر زور دیں گے۔جوبائیڈن کے اسی طرز عمل کے باعث مشرق وسطی،شمالی افریقہ اور پاکستان کا ماحول عوامی مظاہروں کا مرکز بنتا دکھائی دیتا ہے۔
اس دہائی کا آغاز پوری دنیا میں احتجاج کے ذریعہ ہوا۔ چلّی میں طلباءکی ریلیوں سے لےکر وال اسٹریٹ پر قبضہ کے علاوہ جکارتہ میں ایندھن کی قیمتوں میں اضافہ کے خلاف مظاہروں میں نئے سیاسی تمدن کے امکانات نمایاں ہوئے۔2011 میں عوامی شورشوں نے الجزائر، سوڈان،لیبیا اور عراق میں حکومتوں کا تختہ پلٹا۔ 2012 میں چلّی میں احتجاج کی لہر نئے آئینی نظام کےلئے ووٹ ڈالنے پہ منتج ہوئی۔دوہزار اٹھارہ میں حزب اختلاف کی جماعتوں نے پاکستانی حکومت کے جواز کو چیلنج کیا اورنسل پرست پولیس والوں کے ذریعہ سیاہ فام شہری کا قتل امریکہ میں پُرتشدد مظاہروں کا سبب بنا۔
ایسا لگتا ہے کہ پچھلی دہائی کی مانند رواں دہائی میں بھی سیاسی فضا مضطرب رہے گی۔تیل اور گیس کی مارکیٹوں کی فوری بحالی کے امکانات نظر نہیں آتے اس لئےکمزور معیشتوں کی حامل وہ عرب مملکتیں جنہوں نے بڑی تعداد میں پناہ گزینوں کی میزبانی کی یا پھر وہ خلیجی ریاستیں جنہیں توانائی کی قیمتوں کے خسارے کا سامنا ہے ڈگمگاتی رہےں گی۔سعودی عرب سمیت نوجوانوں کی اکثریت والے ممالک آزادی کے نعروں سے لرز اٹھیں گے،جہاںکورونا وباءسے قبل سہولیات کی حالت پریشان کن تھی وہاں اب ملازمتوں اور دیگر سہولیات کی فراہمی کے مطالبات زور پکڑیں گے۔عالمی بینک کے مطابق دنیا کے وہ ممالک جہاںنوجوانوں کی تعداد زیادہ تھی وہاں بے روزگاری مزید بڑھی،سنہ2011 میں 1.90ڈالر فی کس آمدن والے ممالک میں غربت کی لکیر سے نیچے زندگی گزارنے والے کی تعداد 8 ملین تھی جو بڑھ کر 28 ملین ہوگئی۔سنہ 2015 میں یہ تعداد 3.8 فیصد بڑھی اور2018 میں غربت کی شرح دوگنی ہو گئی۔خلیج کی مطلق العنان ریاستیں تیزی سے بدلتی رائے عامہ سے خائف ہیں انہیں معلوم ہے کہ گلیوں میں چلنے والی نئی ہواوں کا رخ کس طرف ہو گا،ماہرین کہتے ہیں کہ اگرچہ انسانی معاشرے انفرادی اخلاقیات اور اقدار کی پاسداری کو اہمیت دیتے ہیں لیکن رائے عامہ اور خاص طور پر نوجوانوں کے سوچ کو بدلنے کی خاطر عرب حکمراں انہیں غیر معمولی سہولیات دینے کی کوشش میں سرگرداں ہیں۔امارات اور سعودیہ کے حکمرانوں نے معاشرتی پابندیوں نرم کر کے خواتین کی گاڑی چلانے پر پابندی ختم ،صنفی تفریق کم اور مغربی طرز کی تفریحات کو فروغ دینے کے علاوہ زیادہ پیشہ ورانہ طرز عمل اپنانے کے مواقع پیدا کر رہے ہیں۔مذہبی قیادت بارے مشرق وسطی کے نوجوانوں کے رویے خدشات کے آئینہ دار ہیں حالانکہ ان کی سوچ اب بھی اجتماعی کے بجائے ذات پر مرکوز ہے،میرے لئے اس میں کیا ہے؟ ہمارے علاوہ اس میں کون ہے؟ یہ ایک ایسی جبلی کیفیت ہے جس کی توضیح نظریہ سیاست سے ممکن نہیں اس لئے وہ اشرافیہ اور حکومتوں کے ذریعہ وضع کردہ اقدار اور مقاصد میں اپنے آپ کو منعکس نہیں کر سکتے۔ایک سروے کے مطابق عرب یوتھ کے رائے دہندگان میں سے دوتہائی کا خیال تھا،مذہبی اداروں کی ضرورت باقی نہیں رہی،اگرچہ وہ بنیادی مذہبی تصورات پر سوالات اٹھا رہے ہیں لیکن اس سب کے باوجود وہ مذہب کو اپنی شناخت کا سب سے طاقتور عنصر سمجھتے ہیں۔بغاوت کے بعد سوڈان کے نوجوانوں نے مذہب پر مبنی حکمرانی سے اس لئے رجوع کر لیا کہ صدر عمر البشیر جس نے مذہبی اصولوں کی پاسداری کے وعدہ پر عنان اقتدار سمبھالی، وہ وسیع پیمانے پر بدعنوانی کا مرتکب ٹھہرا تاہم نئی حکومت اگر نوجوانوں کی امیدوں پر پورا نہ اتری تو مذہب آج بھی کسی نئی سیاسی تحریک کا محرکہ بن سکتا ہے،اگر عبوری حکومت شہریوں کو بنیادی سہولیات کی فراہمی اور بدعنوانی سے نمٹنے میں کامیاب رہی تو عوام مذہب میں اصلاحات کے تصورکو قبول کر لیں گے بصورت دیگر عوامی پریشانیاں اگر یونہی باقی رہیں تو مذہبی رہنماوں کا ایک نیا گروہ ان مقاصد کے حصول کے لئے شریعت کی بحالی کی تحریک اٹھانے میں کامیاب ہو جائے گا۔ادھر توانائی سے مالا مال خلیجی ممالک کی حکومتوں نے انفراسٹرکچر اورعوامی فلاح و بہبود کے منصوبوں میں سرمایہ کاری کم کر دی۔مئی 2020 میں دبئی چیمبر آف کامرس نے مستقبل کے مسائل کی پیش گوئی کرتے ہوئے کہا،امارات کے 70 فیصد کاروباری ادارے اگلے چھ ماہ میں اپنے دروازے بند کردیں گے کیونکہ متحدہ عرب امارات میں تیل کی کم شرح نمو معیشت کو نڈھال کر دے گی۔خلیج اور مشرق وسطی کی دیگر ریاستوں میں وبائی مرض کے بعد معاشی بحالی تکلیف دہ اور زیادہ پیچیدہ ہونے کے علاوہ علاقائی تنازعات میں الجھی رہے گی۔ الجیریا ، سوڈانیز،لبنانی اور عراقی شہرویوں کی مانند خلیجی عوام کی سوچ جمہوری آزادیوں کی طرف مائل ہو گی۔مصر، لیبیا اور یمن کے مظاہرین نے 2011 کی ناکام بغاوتوں سے یہی سبق سیکھا کہ وہ حکومتوں کے خاتمہ کے بعد بھی احتجاج جاری رکھیں گے،وہ اب سیاسی نظام کی مکمل نگرانی پہ مصر ہیں،اسی لئے لیبیا اور سوڈان میں گورننگ کونسل تشکیل دینا پڑی،الجزائر کے عوام نئے آئین پر ریفرنڈم کرانے میں کامیاب پائی۔ لبنان اور عراق میں مظاہرین نے فرقہ وارانہ بنیادوں پر قائم اس سیاسی ڈھانچے کو ختم کرنے کا مطالبہ کیا جس نے دونوں ممالک کے سیاسی نظام کو مفلوج کر رکھا ہے ۔ماہرین کہتے ہیں،سیاسی تبدیلی کے لئے جوان نسل کی ضرورت پڑتی ہے اس تناظر میں کسی بھی معاشرے میں سب سے خطرناک گروہ نوجوان مرد ہیں جن کی فطری جارحیت کو پیداواری و تعمیری عمل میں بروکار لانے کے مواقع اگر پیدا نہ کئے جائیں تو وہ تباہ کن راستوں کی طرف راغب ہو جاتے ہیں۔عرب حکومتوں نے طویل عرصہ تک جمہوری اور موثر اداروں کا ارتقاءروکے رکھا،اختلاف رائے کی حوصلہ شکنی کر کے سیاسی و سماجی عمل کا توازن بگاڑ دیا،اسی خلا کو وہاں آج شدت سے محسوس کیا جارہا ہے، ان مملکتوں میں کوئی قابل اعتماد ادارہ باقی نہیں بچا جو موثر انداز میںلوگوں کے مطالبات سن سکے،اسی لئے ان کا انجام واضح نہیں چنانچہ بحر اوقیانوس کے ساحل سے لیکر وسطی ایشیاءتک پھیلا خطہ بین الاقوامی امن کے لئے خطرہ رہے گا۔علی ہذالقیاس جیسے 1970 کے دہائی میں امریکی صدر جمی کارٹر کی انسانی حقوق کے لئے حمایت نے شاہ ایران کے خلاف مزاحمت کو فروغ دیکر اسلامی انقلاب کی راہ ہموار بنائی اسی طرح صدر جوبائیڈن کی جمہوری آزادیوں کی بحالی کی پالیسی مشرق وسطی اور شمالی افریقہ میں بڑے پیمانے پر عدم اطمینان کی لہر اٹھا دے گیوبائیڈن کی جمہوری آزادیوں کی بحالی کی پالیسی مشرق وسطی اور شمالی افریقہ میں بڑے پیمانے پر عدم اطمینان کی لہر اٹھا دے گی۔ امریکی صدر براک اوباما اور ان کے نائب صدر بائیڈن نے تقریبا ایک دہائی قبل 2011 میں ہونے والے عوامی بغاوتوں کو سنبھالنے کی کوشش کی لیکن ان کے ناقدین الزامات عائد کرتے ہیں کہ اوباما کی پالیسیوں کی بدولت اخوان المسلمین اقتدار حاصل کرنے کے قابل ہوئی،اخوان المسلمون کے عروج نے ایسی انقلابی سوچ کو جنم دیا جس کے نتیجے میں مصر میں فوجی بغاوت، لیبیا ، شام اور یمن میں خانہ جنگی کا آغاز ہوا چنانچہ اہل دانش اسی سے استدلال کرتے ہوئے کہتے ہیںکہ انسانی حقوق کی حمایت امریکی مفادات کی قیمت پر نہیں ہونی چاہئے۔بائیڈن انتظامیہ مشرق وسطی اور شمالی افریقہ میں ممکنہ طور پر جاری احتجاج کو کس طرح سنبھالے گی؟ حقیقت یہ ہے کہ ، رائے عامہ کے حالیہ سروے نے یہاں ایسے نوجوان کی تصویر کھینچی جو سنہ 2011 والی امید ہار چکا ہے،اگر وہ مستقبل کے امکانات سے مایوسی نہیں بھی تو حکمراں اشرافیہ کی معاشرتی اور معاشی مسائل حل کرنے کی صلاحیت کو مشتبہ سمجھتا ہے۔ اس سے بدامنی کی پیشگوئیاں زیادہ حقیقی نظر آتی ہیں۔لہذا آنے والے عشرے کا سبق یہی ہے کہ احتجاج کی لہروں سے جنم لینے والے سیاسی تغیرات ، دن ، مہینوں یا سال تک نہیں یہ ایک طویل الاثر عمل ہے جو اگلی کئی دہائیوں پرمحیط ہو جائے گا۔ 2011 میں بغاوت اور اختلاف رائے کے عالمی دور کی شروعات کا سنٹر آف گرویٹی عرب بغاوتوں کو قرار دیا گیا،ممکن ہے کہ 2020 کی دہائی کے یہی مظاہرین زیادہ نازک نتائج برآمد کر لیں،قطع نظر اس بات کہ عوام یا بالادست طبقات میں سے کون غلبہ حاصل کرتا ہے لیکن دونوں صورتوں میں بدترین عدم استحکام معمول بننے کا امکان ہے۔ اس صورت حال کے تدراک کے لئے عوام اور حکومتوں کو نئے معاشی ، سیاسی اور معاشرتی نظام پر متفق ہونا پڑے گا۔