ترجمے کا صحیح چسکہ تب لیا جاسکتاہے جب آپ کو جس زبان میں ترجمہ کیا جارہاہے اور جس زبان کا ترجمہ کیا جارہاہے، دونوں زبانوں کا کم ازکم اتنا پتہ ہو کہ اگرچہ درست ترجمہ آپ خود بھی نہ کرسکے مگر ترجمے میں ماری جانے والی ڈنڈی کو سمجھ سکے – اس معاملے کا دلچسپ پہلو یہ ہوتاہے کہ مترجم ایک طرف اپنے باس کو بیوقوف بنارہا ہوتاہے اور دوسری طرف شرکاء مجلس کو –
کچھ عرصہ پہلے کویٹہ کی ایک پرائیوٹ یونیورسٹی میں تقریب تھی، تقریب میں ایرانی قونصلیٹ کا ایک عہدیدار معقول قسم کی تقریر کررہے تھے لیکن ان کے ساتھ موجود مقامی مترجم ہر مرتبہ ترجمے کے دوران اپنا کوئی مستقل خطبہ ارشاد فرما جاتے تھے، پروگرام کے بعد جب میزبان نے ارادہ ظاہر کیا کہ وہ اس تقریب میں ہونے والی تقریروں کو شائع کروانا چاہتاہے تو ہم نے ان سے گزارش کی کہ آپ کو اس غیرملکی مہمان کی تقریر اور اس کا مقامی زبان میں ترجمہ دونوں ہی شائع کروانے چاہیے انہوں نے وجہ پوچھی تو گزارش کی کہ : اس لئے کہ دونوں تقریریں اپنی اپنی جگہ ” مستقل” افادیت رکھتی ہیں اور ان میں سے کوئی ایک تقریر دوسری سے بے نیاز نہیں کرسکتی – لیکن ترجمے کی یہ خاص مہارت ہمیشہ ہی بے ضرر نہیں ہوتی بلکہ گاہے صورتحال کو گھمبیر بھی بنا سکتی ہے –
کہتے ہیں کہ گورباچوف اور جارج بش سینئرکے درمیان وائٹ ہاوس میں ملاقات ہورہی تھی، کہ روسی مترجم کے گورباچوف کے کسی لفظ کے غلط ترجمہ سے فضا مکدر ہوگئی ۔ میٹنگ سبوتاژہونے کے قریب ہی تھی کہ گورباچوف نے معاملہ سنبھال لیا۔ ملاقات کے اختتام پر جب مترجم نے امریکی صدر کے پاس آکر معذرت کی، تو بش نے اسکے کندھے پر ہاتھ رکھ کر کہا کہ “نوجوان ، شکر کرو کہ تمہاری وجہ سے تیسری عالمی جنگ نہیں چھڑ گئی” –