آج لوگ نہیں جانتے کہ کیسی کیسی ریاستیں تھی، جنھیں وبائیں چاٹ گئیں۔ ان میں سے ایک زمانہ قبل مسیح کی ہے جو کم زور سی ریاست تھی، اس کی داستان سناتا ہوں۔ دُنیا پر حکمرانی کرنے والا یونان، جمہوریت پر یقین رکھتا تھا۔ سو اپنی باج گزار ریاستوں میں جمہوری نظام کے قیام پر اصرار کرتا تھا۔ یونان کی امداد پر پلنے والا یہ ملک ایک کم زور سا مبینہ نظریاتی ملک تھا۔ اس ملک کے پاس صرف نعروں کا پرچا تھا، عمل کی چابی نہ تھی۔ جس دور کی یہ تاریخ ہے، اس دور میں اس ملک پر اس کے سپہ سالاروں نے مارشل لا نافذ کیا ہوا تھا۔ یونان کی مشترک جمہوری کونسل کا حکم ہوا کہ اپنے ملک میں جمہوری نظام نافذ کرو، ورنہ حقہ پانی بند کردیا جائے گا۔
اس نظریاتی ملک میں بہت سی سیاسی جماعتیں بین تھیں، اور ایسے میں نظریے کا باجا بجایا جاتا تھا۔ اس باجے کے تحفظ کی قسم سپہ سالار نے کھائی ہوئی تھی، جو تخت نشین بھی تھا۔ دُنیا کے دباو میں آ کے سپہ سالار نے عام انتخابات کروانے کی ٹھانی، لیکن اس سے پہلے احتیاطی تدابیر اختیار کرتے، سرکاری جماعت بنائی، جس میں چن چن کے اپنے حواریوں کو اکٹھا کیا گیا۔ علاقائی و لسانی جماعتوں میں اپنا اثر و رسوخ بڑھایا، نفرت کی بنیاد پر کچھ لسانی جماعتیں بنائیں تا کہ جب چاہا جائے، انتشار کی سی کیفیت پیدا کی جا سکے۔
ہر ہر جماعت میں سپہ سالار نے اپنے چمچے کڑچھے بھرتی کیے، یا ان جماعتوں کے بد عنوان کارکنوں کے سر پہ دست شفقت رکھا۔ احتیاطا ان سیاست دانوں کی شخصی کم زوریوں کی فائلیں بھی تیار کیں، تا کہ جب ان سیاست دانوں کو غلط فہمی ہو، کہ عوام ان کے ساتھ ہیں، انھیں وہ فائلیں دکھا کر ان کی اوقات یاد دلائی جا سکے۔ یوں سپہ سالار اور اس کے جاں نثاروں، جان نشینوں نے اپنے کن ٹٹوں، چاپلوس حواریوں کو ملک کی جمہوری و انتظامی کمیٹی کے ارکان میں شامل کروایا۔ ہر ریاستی محکمے کے سر پہ حاضر سروس یا رٹائرڈ فوجی افسر بٹھا دیا جاتا۔
ڈھول پیٹنے والی میڈیا کمیٹیوں میں اپنے سپاہی بھرتی کیے، تا کہ سپہ سالار اور اس کے جان نشینوں کے نام کا ڈھول پیٹا جائے۔ قصہ گووں کو حکم ہوا کہ سپہ سالار کے فرضی کارناموں کی بڑھا چڑھا کر تشہیر کی جائے۔ ریاست کا کون سا محکمہ تھا، جس میں اپنے سپاہی نہ بھرتی کیے گئے ہوں۔ فوج نے ہر قسم کی تجارت میں اپنے قدم رکھ دئیے۔ جہاں جہاں سے مال بٹورا جا سکتا تھا، وہاں دُکان سجا دی۔
جب جب الیکشن ہوتے، سپہ سالار جوڑ توڑ کر کے بد قماش حواریوں کو دھونس دھاندلی الغرض ہر طور منتخب کرواتا، یوں اس ملک میں فوج کے زیر سایہ جمہوریت پھلنے پھولنے لگی. جمہوریت کی بقا کی قسم فوج کھاتی، جمہور کے معنی فوج کے مفادات سمجھے جانے لگے۔
ریاست کے کن ٹٹے، ذخیرہ اندوز، نا جائز منافع خور، منشیات فروش، بد قماش، الغرض ہر طرح کے خون چوسنے والی جونکوں کو آگے بڑھنے کا موقع دیا گیا اور ایسے نمایندے جو رعایا کی بھلائی کے لیے تڑپتے تھے، عوام کے دل میں بستے تھے، انھیں چور، قاتل، غدار بتا کر دیوار سے لگا دیا گیا۔ کچھ کو پھانسی ہوئی، کوڑے لگائے گئے، بہت سے زندان میں ڈالے گئے۔ رعایا کے سامنے من چاہے سیاست دان پیش کیے گئے، اور ساتھ ہی ساتھ ان سیاست دانوں کی کردار کشی بھی جاری رکھی، تا کہ رعایا کا سیاست اور سیاست دانوں، سیاسی اداروں سے اعتبار اٹھتا چلا جائے۔ ایسا ہی ہوا۔ ایک طرف عوام سیاست دانوں کو ووٹ دینے جاتے اور دوسری طرف انھی کو برا بھلا کہ کر اپنی محرومیوں کا غبار نکالتے۔
اس دوران میں سپہ سالار اور اس کے جان نشین یہ اہتمام کرتے کہ کوئی ایک بھی سیاسی حکمران اپنا دور اقتدار مکمل نہ کر سکے، تا کہ سیاست دانوں کی کارکردگی سوالیہ نشان بنی رہے۔ فوجی اسٹیبلش منٹ اپوزیشن کو حکمرانوں کے خلاف ہلہ شیری دیتی، رشوت دے کر جوڑ توڑ کرتی۔ جب اپوزیشن اقتدار میں آ جاتی تو تخت نشیں سیاست دان کو معزول کرنے کی تراکیب لڑاتی۔ ملک میں انارکی کی سی صورت بنائے رکھنا فوجی اسٹیبلش منٹ کا مشن رہا۔
ایسے میں کوئی فریق اپنا تنازع عدالت میں لے جاتا، تو قاضی فوجی اسٹیبلش منٹ سے پوچھ کر اپنا فیصلہ سنایا کرتا۔ ذہن نشین رہے کہ یہ زمانہ قبل از مسیح کی کہانی ہے۔ آج اس قسم کی سازش نہ کہیں ہوتی ہے، نا اس گھناونے عمل کا امکان ہے۔
ظاہر ہے یہ کن ٹٹے، قاتل، چور، بد قماش، چاپلوس حواری اس فوج اس سپہ سالار کے مفادات کا تحفظ کرتے تھے، جو انھیں منتخب کراتے تھے. رعایا کو ایسے ”جمہوری“ نظام کے ثمرات نہ ملے تو فوج کے ہرکاروں نے اپنی نوبت پیٹنے والوں سے یہ مشہور کروایا، کہ رعایا کے منتخب نمایندے بد عنوان ہیں، زانی ہیں، چور ہیں، قاتل ہیں۔ ملکی راز دشمن کو بیچتے ہیں سو سیکیوٹی رسک ہیں۔ ساتھ ہی ساتھ یہ تاثر بھی عام کیا، کہ اگر سپہ سالار اور اس کی فوج نہ ہوتی، تو یہ سیاست دان کب کے اس دھرتی کو بیچ کر کھا گئے ہوتے۔ گویا ملک نہ ہوا ہاوسنگ سوسائٹی ہو گئی۔ رعایا کو دھرتی سے بہت پیار تھا، اس دھرتی جہاں ان کے باپ دادا کی ہڈیاں دفن تھیں، اس دھرتی کے بکنے کا سن کر لرز جاتے، اور کوئی دوسرا سوال کرنا ہی بھول جاتے۔ مشہور کر دیا گیا کہ رعایا جاہل ہے، یہ صادق و آمین حکمران منتخب کرنے کا شعور نہیں رکھتی۔ رعایا نے اس بات کو بھی ایمان کا حصہ بنا لیا اور یہ بھول گئی کہ ان کا ملک ووٹ کی طاقت سے معرض وجود میں آیا تھا۔
قصہ تمام، سپہ سالار نے کئی بار جمہوری انتظامی کمیٹی کی بر طرف کیا، اور خود تخت نشین ہو گیا۔ رعایا بھی خوش ہوئی کہ روز روز کا تماشا ختم ہوا، اب ان کے مسائل کا شاید کوئی حل نکل آئے۔ شہریوں کے لیے اُن کے مسائل کا حل ایک خواب ہی رہا۔
اس سلطنت کے عدالتی نظام کا یہ احوال تھا، کہ جب کوئی سپہ سالار اقتدار پہ قبضہ کرتا، قاضی بڑھ کے اس کا استقبال کرتا۔ بیوروکریسی یعنی انتظامیہ قابض حکمران کے احکام کی تعمیل کو بہ خوشی تیار ہوتی۔ قاضی جس نے انصاف کے بول بالا کرنے کی قسم اٹھا رکھی تھی، وہ بھی قابضین کا مصاحب بنا اتراتا پھرتا۔ جب جب قابض آئے، قاضی نے ان کے اقدام کو قانونی تحفظ فراہم کرنے میں تامل نہ کیا، گر چہ ریاست کا آئین اس کی نفی کرتا تھا۔ چوں کہ یہ ریاست نظریاتی ریاست کہلاتی تھی، اس لیے نظریہ ضرورت ریاست کے آئین کا بنیادی نظریہ ثابت ہوا۔
یہ کہانی بار بار دُہرائی گئی۔ تلوے چاٹنے والوں کو ضمیر فروشوں کو ایک چھتری تلے جمع کر کے نئی انتظامی کمیٹی بنائی جاتی۔ سپہ سالار کی نام نہاد جمہوری انتظامیہ اور قاضی ہر بار سپہ سالار کے فرمان ماننے پہ مجبور ہوتے۔ رعایا کے اذہان میں یہ راسخ ہو چکا تھا، کہ ایک سپہ سالار ہی ہے جو ہر بار انھیں بچانے آتا ہے، ورنہ ملک کب کا تباہ ہو گیا ہوتا۔ سلطنت کی رعایا پہلے بهی مسائل کا شکار تھی، آگے بھی مسائل کا شکار رہی۔ عوام نے ایک بار بھی یہ سوچنے کی زحمت کی ہوتی کہ جن جن سیاست دانوں پر بد عنوانی کے الزامات لگائے جاتے رہے ہیں، وہ اسی فوجی اسٹیبلش منٹ کے چہیتے سیاست رہے ہیں۔ رعایا اپنے لیے کوئی لائق حکمران چن لیتی، تو اس کے حالات یوں ابتر نہ ہوتے چلے جاتے۔
زمانہ قبل از مسیح کی اس قوم کے آثار دیکھنا ہوں، تو آج بھی کتابوں کے اوراق میں جھانک کر دیکھے جا سکتے ہیں۔ تاریخ کے صفحے پلٹیں، تو دکھائی دے گا، سپہ سالار اور اس کے جان نشینوں کے ہاتھ ایک ہی طرح بار بار ڈسے جانے والے، یہ سابق حواری اپنے خالق سے نالاں ہو جاتے۔ رعایا کو نسلوں تک ملکی فوج کی عظمت کے گیت گا گا کر اس سے محبت کا درس دیا گیا تھا، سیاست دانوں کی ہمت ہی نہیں ہو پاتی تھی، کہ وہ رعایا کو سچ بتا دیں۔ تاریخ نویس لکھتے ہیں، اس ملک کا احوال یہ تھا، کہ وہاں سچ کہنے والا مجرم بن جاتا اور جھوٹے کو سلام کیا جاتا تھا۔ پھر کیا ہوا کہ وہاں وبا پھوٹی۔ معیشت برباد ہوئی۔ بیروزگاری، منہگائی، لوٹ مار بڑھی۔ تعلیم و صحت کے بجٹ سکڑتے چلے گئے، دفاعی بجٹ بڑھتے گئے۔ رعایا کے اذہان تو برسوں سے جکڑے ہوئے تھے، اب سانس کی آمد و رفت بھی متاثر ہوئی۔ یہ وبا کھانسی زکام کی تھی، جہالت کی وبا سے تو پہلے ہی وہ قوم مردہ تھی، اب نام کی زندگی بھی خطرے میں ہوئی۔
ہزاروں سے سال پہلے گزری اس قوم کی تاریخ کے چند اوراق ابھی دریافت نہیں ہوئے۔ دریافت ہو تو دیکھیں، اس قوم نے اپنی فوج کی غلامی سے نجات کی کوشش کرتے حیات پائی، یا غلام مر گئی۔ تاریخ انھی قوموں کی ہوتی ہے، جو اپنی منزل خود متعین کریں، ورنہ تاریخ بادشاہوں کے قصے کہانیوں کے سوا کچھ نہیں۔