مکتی باہنی سے دشمنی مزید بڑھ گئی تھی۔ اور مکتی باہنی نے انہیں اور ان کے گھر والوں کو بھی ہدف بنالیا تھا۔ ایک دن آذان دینے گئے تو مکتی باہنی کے ظالموں نے انہیں اغوا کرکے شہید کرڈالا اور لاش دریا میں بہادی۔ اور لاش دریا سے بہتی ہوئی سمندر میں غائب ہوگئی۔
آج سے پچاس سال پہلے سابقہ مشرقی پاکستان میں ہمارے قریبی رشتہ دار رہتے تھے۔ جو بابری مسجد ایودھیا فیض آباد لکھنوُ سے پاکستان بننے کے بعد پہلی ہجرت کرکے آئے تھے۔ اور نارائن گنج میں آباد ہوئے۔ ان میں ہماری ماموں زاد بہن بھی اپنے شوہر اور بچوں کے ساتھ رہائش پزیر تھیں۔ الحمد اللہ زندگی آسودگی کے ساتھ جاری تھے کہ سنہ 1970 میں الیکشن ہوئے۔ نتائج حکمراں اشرافیہ کی توقع کے برعکس آئے۔ لہٰزا جو ہوتا آیا تھا وہی ہوا۔ اقتدار حق داروں کو نہ دیا گیا۔ اور پڑوسی دشمن بھارت نے حسب معمول اس کا فائدہ اٹھایا۔ اور اپنی فوجیں اتار دیں۔ نتیجتاً ملک ٹوٹ گیا۔
مگر اس کے بعد جو قتل و غارت گری کا بازار گرم ہوا تو محب وطن پاکستانیوں جنھیں عام طور پر بہاری کہا جاتا ہے۔ ان بے چاروں پر قیامت گزر گئی۔ فوج تو ہتھیار ڈال کر جینوا کنونشن کے تحت جنگی قیدی بن کر کسی حد تک محفوظ ہوگئی۔ مگر بہاری مکتی باہنی کے رحم وکرم پر آگئے۔ ایسی ہزاروں قیامت خیز داستانیں آپ نے سنی ہونگی۔ آج ہم بھی اپنی بہن اور ان کے خاندان پر گزر نے والی داستان غم سناتے ہیں۔ تاکہ یوم آزادی منانے والی نئی نسل کو پتہ چلے کہ آزادی کو حاصل کرنے اور اس کی حفاظت کرنے کی کتنی بھاری قیمت دینی پڑتی ہے۔
ہوا یوں کہ ہمارے بہنوئی اپنے کام کے علاوہ اپنے محلے کی مسجد میں ازان دینے کا فریضہ بھی ادا کرتے تھے۔ ان کی مسجد دریا کے کنارے واقع تھی۔ اور اس کا ایک دروازہ دریا کی طرف بھی کھلتا تھا۔ جاننے والے جانتے ہیں کہ مشرقی پاکستان دریاؤں کی سر زمین تھی۔ اتنے خراب حالات کے باوجود جب ہر طرف جان کا خطرہ موجود تھا۔ ہمارے بہنوئی صاحب نے مسجد میں آذان کا سلسلہ جاری رکھا۔ یہاں تک کہ حا لات انتہائی خراب ہوگئے۔ ایسے موقع پر دوسرے لوگوں نے سمجھایا کہ مسجد کو اس کے حال پر چھوڑ دیں۔ اور آذان دینے نہ جائیں۔ اور اپنی اور اپنے گھر والوں کی جان بچائیں۔ مگر وہ نہ مانے۔ کہنے لگے۔
” اگر میں بھی نہ گیا اور آذان بھی نہ دی تو اللہ کا گھر ویران ہوجائے گا”۔
وہ چونکہ پاکستان کی بقاء کے لیے فوج کا ساتھ بھی دیتے تھے اس لیے مکتی باہنی سے دشمنی مزید بڑھ گئی تھی۔ اور مکتی باہنی نے انہیں اور ان کے گھر والوں کو بھی ہدف بنالیا تھا۔ ایک دن آذان دینے گئے تو مکتی باہنی کے ظالموں نے انہیں اغوا کرکے شہید کرڈالا اور لاش دریا میں بہادی۔ اور لاش دریا سے بہتی ہوئی سمندر میں غائب ہوگئی۔ ادھر بہن بیوہ اور چار بچے یتیم ہوگئے جن میں ایک بیٹی اور تین بیٹے شامل تھے۔ مکتی باہنی نے ان کو لاوارث دیکھ کر ان کا سارا سامان لوٹ لیا اور ان لوگوں کو تشدد کا نشانہ بھی بنایا۔ بڑے بیٹے کو پولیس نے مکتی باہنی کے کہنے پر حوالات میں بند کردیا جبکہ وہ دس سال کا بچہ تھا۔
اس کے بعد اس کے شہید والد کے دوست جو کہ وکیل تھے انہوں نے دو دن کے بعد اس بچے کو رہا کروایا۔ کچھ عرصہ یہ لوگ بے یار ومددگار رہے پھر حکومت پاکستان نے بین الاقوامی معاہدے کی رو سے کچھ خاندانوں کو بنگلہ دیش سے موجودہ پاکستان میں لاکر آباد کیا۔ خوش قسمتی سے یہ لوگ بھی اس قافلے میں شامل کر لیے گئے۔ اور رحیم یار خان میں کیمپوں میں رکھے گئے۔ یہ سنہ 1974 کی بات ہے۔ یہ ان کی دوسری ہجرت تھی۔
اب ہم سابقہ مشرقی پاکستان کے شہر کھلنا چلتے ہیں جہاں ایک اور درد بھری داستان جنم لے رہی تھی۔ ہوا یوں کہ ایک حکیم صاحب جو کہ قیام پاکستان کے بعد حیدرآباد دکن سے پہلی ہجرت کرکے آئے تھے اور کھلنا مشرقی پاکستان میں رہائش اختیار کی تھی۔ سنہ 1971 میں ان پر اور ان کے اہل خانہ پر مکتی باہنی نے حملہ کردیا۔ جس کے نتیجے میں حکیم صاحب کی بیگم اور تین بچے۔ دو بیٹے اور ایک بیٹی شہید کردئیے گئے۔ حکیم صاحب بھی تشدد کا نشانہ بنے اور انہیں نیم مردہ حالت میں مردہ سمجھتے ہوئے مکتی باہنی والے چھوڑ گئے۔
بہرحال جسے اللہ رکھے اسے کون چکھے۔
حکیم صاحب کا علاج ہوا اور وہ ٹھیک ہوگئے۔ انہیں بھی حکومت پاکستان رحیم یار خان کے کیمپ میں لے آئی۔ یہ حکیم صاحب کی دوسری ہجرت تھی۔ کچھ عرصے بعد کیمپ انتظامیہ اور کچھ بزرگوں نے فیصلہ کیا کہ جو خواتین بیوہ ہیں ان کا عقد ثانی ان لوگوں سے کردیا جائے جن کی بیگمات شہید ہوچکی ہیں۔ لہٰزا حکیم صاحب کی شادی ہماری بیوہ بہن سے کردی گئی۔ مقصد یہ تھا کہ اس طرح دو غمزدہ خاندان جڑ جائیں گے اور ایک دوسرے کے دکھ درد کا زیادہ احساس کریں گے۔ اور دونوں خاندان ایک دوسرے کا سہارا بن کر زندگی کی نئی شروعات کریں گے۔ یوں حکیم صاحب اور ہماری بہن نے نئی زندگی شروع کی۔ یہ سنہ 1974 کی بات ہے۔
اسی دوران حکومت نے کچھ مکانات بناکر ان مہاجرین میں تقسیم کردئیے۔ حکیم صاحب کو بھی ایک مکان مل گیا۔ یوں کیمپ کی زندگی سے نکل کر اپنی چھت تلے آگئے۔ اس محلہ کا نام عزیزآباد تھا مگر ان مہاجرین کے آباد ہونے کے بعد یہ عزیزآباد بہاری کالونی کے نام سے مشہور ہوگیا۔ آج بھی کوئ رحیم یار خان جاکر پوچھے تو اسے سیدھے عزیزآباد بہاری کالونی پہنچادیا جاتا ہے۔ الحمد اللہ حکیم صاحب سے بعد ازاں دو بیٹے پیدا ہوئے۔ سب بھائ بہن اس طرح شیروشکر ہیں کہ پہنچاننا اور فرق کرنا مشکل ہے۔
حکیم صاحب بھی بہت ہی نفیس انسان تھے۔ انہوں نے کبھی بھی بہن کو شکایت کا موقع نہی دیا۔ اللہ ان کی مغفرت فرماِئے۔ تقریباً بیس سال پہلے ان کا انتقال ہوگیا۔ مگر سب بچے ساتھ پلے بڑھے۔ اب الحمد اللہ سب کی شادیاں ہوچکی ہیں۔ اور سب اپنے گھروں میں خوش ہیں۔ ایک بچے نے حکیم صاحب سے حکمت سیکھی وہ اب حکیم صاحب کا مطب چلارہا ہے۔ ایک بیٹا خدمت خلق میں مصروف ہے اور اپنے علاقے اور کمیونٹی کی خدمت کے ساتھ ساتھ پنچایت کے فیصلے بھی کرتا ہے۔ ایک بیٹا ملتان دوسرا حیدرآباد اور تیسرا کراچی میں رہائش پزیر ہے۔ ہماری بہن بھی عمر رسیدہ ہوچکی ہیں اور صاحب فراش ہیں۔ اللہ ان کو صحت اور ایمان کے ساتھ لمبی عمر عطا کرے۔ آمین۔ اور ان لوگوں کی دونوں ہجرتوں اور شہادتوں اور آزما ئشوں کو قبول فرمائے۔ آمین۔ اور آخرت کا اجر تو بے شک عظیم اور لازوال ہے۔