نواسہ رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے اسلام کو وہ صبح نو دی ہے کہ جس نے ایام حرمت کو اور زیادہ معتبر کر دیا ہے
محرم اسلامی سال یعنی ہجرت مدینہ منورہ سے شروع ہونے والے سال کا پہلا مہینہ ہے ۔اس ماہ کو محرم اس لیے کہا جاتا ہے کیونکہ اسلامی رو سے اس ماہ کو حرمت والے ان مہینوں میں شامل کیا گیا ہے جن میں جنگ و قتال کو حرام قرار دیا گیا ہے۔ قبل از اسلام عرب و عجم کے تمدن و معاشرت کو دیکھا جائے تو محدود معاشرتی ترقی و خوشحالی اور فرائض و اختیارات میں عدم توازن کے باعث جنگی ماحول و حکمت عملی زندگی پر چھائی ہوئی تھی اور سال بھر کے جنگوں میں وقفے کے لئے چار حرام مہینوں کا تصور در آیا جس میں محرم الحرام بھی شامل ہیں حالانکہ بے مقصد و مرام جنگ ہر لمحے حرام قرار دیا گیا ہے اب آج سے پندرہ سو سال پہلے حالات کا ایک ہلکا سا جائزہ لیتے ہیں کہ سرزمین عرب میں طلوع ہونے والے اسلامی سورج کی روشنی پوری دنیا کی سرحدوں کو منور کر رہی ہے۔نبی آخر الزمان حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم اپنی بھرپور و شاندار کردار ادا کرنے کے بعد دنیائے فانی سے پردہ فرما چکے ہیں۔حالات ایک نیا رخ اختیار کر رہے ہیں۔پہلے حج کے موقع پر دین اسلام کی تکمیل کا اعلان قرآن پاک کے ذریعے نازل ہو چکا ہے۔اسلام دور صدیق اکبر رض میں اپنا پہلا ٹاکرا مرتدین اور نبوت کے جھوٹے دعویداروں سے کر چکا ہے۔پھر دور عمر فاروق رضی اللہ تعالیٰ عنہ میں اپنی سرحدوں کو 22 لاکھ مربع میل تک پھیلانے کے دوران عمر فاروق کی معاشی ذہانت سے بھرپور فائدہ اُٹھا چکا ہے جس میں معاشی،سماجی اور فوجی اصلاحات،نئے مفتوحہ علاقوں کے انتظام کے بعد اسلامی ریاست شہادت عمر رض، شہادت سیدنا عثمان رض شہادت علی رض کے گہرے زخم کھا چکی ہیں۔ان زخموں سے خون رسنا ابھی بند نہیں ہوتا کہ شہادت سیدنا حضرت امام حسین رض کی دردناک خبر آ جاتی ہے۔ دور علی کے بعد سے ہی مسلمانوں میں پیدا ہونے والی تفریق سے بہت سے مسائل جنم لے چکے تھے،حضرت عثمان غنی کی شہادت نے اس انارکی اور افراتفری کو مزید ہوا دی۔
دور نبوت میں ہمیں یہ بات واضح دکھائی دیتی ہے کہ ایک طرف مسلمان تھے تو دوسری طرف کفار تھے۔دونوں راستوں کو واضح کر دیا گیا تھا مسلمان ہونے کے لیے کیا ضروری ہے اور کیا چیز انسان کواسلام کے دائرے سے خارج قرار دے دیتی ہے۔یا پھر منافقین مدینہ کا ذکر قرآن پاک کے ذریعے سے ملتا ہے جن کی سازشوں سے نبی پاک کو باخبر کیا گیا تھا۔اب ایک مکمل نئی صورتحال ہے کہ خلفاء سے اختلاف کرنے والے بھی خود کو مسلمان کہتے ہیں،مسلمان کفار کے خلاف ہتھیار اُٹھاتے رہے تھے اور جراَت و بہادری کی ایسی مثالیں پیش کرتے رہے تھے جو آج بھی زندہ ہیں۔لیکن اب سمت مخالف بھی مسلمان ہیں تو کریں تو کیا کریں، یہ مشکل گھڑی بار بار مسلم معاشروں میں پیش آتی رہی جس طرح آج ہمیں نیٹو، ایساف اور امریکی افواج نکلنے کے بعد افغانستان میں درپیش ہیں جس طرح شام و مصر اور سوڈان و الجزائر میں درپیش ہیں شش و پنج کے اس دور میں حضرت حسن و حضرت حسین کے کرداروعمل کی مثالیں آج کے مشکل ترین دور فتن میں ہمارے لیے انتہائی قابل عمل ہیں۔حضرت حسین کے کرداروعمل نے حق اور باطل کی اس آمیزش کے دور میں چٹان کی طرح ثابت قدم رہ کر صاف شفاف طور پر اپنے رد عمل سے حق پر ڈٹ کر پوری دنیا پر رہتی دنیا تک واضح کر دیا کہ حکومتوں کی اصلاح و بہتری ہی اصل سیاسی و سماجی شعور کی زندگی ہیں ورنہ تبدیلی اور ممکنات کے مواقع ضائع ہو جاتے ہیں اور قوم و ملت اسلامیہ خرابیوں کے نئے پیراڈایم میں عمرانی و سماجی مسائل کا سامنا کرتے ہیں جن کی اصلاح و بہتری پھر ناممکن ہو جاتی ہیں اس لئے سیدنا حضرت امام حسین رض نے اپنے اجتہادی بصیرت و دانش مندی سے اسلامی جمہوریت و خلافت میں ایک قابل قدر بنیادی و جوہری اصول کا اضافہ فرمایا کہ اگر حاکم وقت کی اصلاح نہ کر سکو تو سر دھڑ کی بازی لگا دو۔ اختلافات ہونا غیر معمولی بات نہیں لیکن ان اختلافات کو حل کرنے کے لیے جو طریقہ کار اختیار کیا جائےاسے موَثر ہونا چاہیَے۔ مشکل ترین مسئلہ یہی زندگی میں درپیش ہیں کہ ہم بحیثیت ملت اسلامیہ و امت واحدہ اختلاف و افتراق کا عملی حل نہیں نکال پاتے ہیں۔
آج پوری دنیا جن جمہوریتوں سے استفادہ کرتے نظر آتی ہیں اس کی جڑیں اسلامی شورائی نظام میں ہی ملتی ہیں۔ لیکن بدقسمتی سے مسلمان علماء کرام اور اسکالرز وقت کی دوپہر میں بیٹھ کر لائحہ عمل تشکیل دینے اور مادی ترقی و خوشحالی کے لئے امن و آشتی کے قیام کے لئے بنیادی ضروریات کے مطابق تشکیل و تعبیر نو زندگی پیش نہیں کر پاتے ہیں اور یہ بنیادی تصوراتی چیلنج آج اکسیویں صدی میں بھی ہمیں درپیش ہیں۔ دنیا تعصب و تنگ نظری کی عینک ہٹا کر جب بھی دیکھتے ہیں تو یہ واضح جانا کہ حضرت امام حسین علیہ السلام نے محدود اور وقتی حکومت کی چاہت میں سر نہیں کٹایا بلکہ مقاصد کی خاطر ڈٹ کر بادشاہت کو آئینہ دکھایا۔ایسا آئینہ کہ جس میں آج تک ملوکیت و آمریت اور جبر و زبردستی اپنا مکروہ چہرہ دیکھنے سے قاصر ہیں۔
اسلام کے سورج کی وہ صبحیں جو رسالت مآب صلی اللہ علیہ وسلم اور خلفائے راشدین کے بعد دھندلی پڑنے لگیں تھیں سیدنا حضرت امام حسین رض نے اپنے خون سے اس صبح کو وہ چمک عطا کی جس نے اسلام کو نئی طاقت اور سمت عطا کرنے کے ساتھ دنیا بھر کے مظلوم عوام کو ظلم و غنڈہ گردی اور جبر و زبردستی کے خلاف اٹھ کھڑے ہونے کی راہنمائی و روشنی دی ۔اسلام کے درخت کو وہ مضبوطی عطا ہو گئی جس کی بدولت دین اسلام آج بھی پوری آب و تاب سے دمک رہا ہے نواسہ رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے اسلام کو وہ صبح نو دی ہے کہ جس نے ایام حرمت کو اور زیادہ معتبر کر دیا ہے۔ آج 21 ویں صدی میں دینا پھر ملوکیت و جبر تلے پھس چکی ہیں بطور انسان بنیادی انسانی حقوق اور سماجی و معاشرتی ترقی و شعور کی بیداری و آبیاری زنگ آلود ہو چکی ہیں اس لئے محرم الحرام کی آمد اور نئے ہجری سال کا آغاز ہمیں جھنجوڑ کر شعور نبوت صلی اللہ علیہ وسلم اور حکمت قرآنی کے نئی جہتیں تلاش کرنے پر ابھارتی ہیں اور اپنے فرض منصبی کے سلسلے میں مفید اور تعمیری مباحث و دانش مندی سے استفادہ حاصل کرنے کے ساتھ بدلتے ہوئے رحجانات و ترجیحات میں نئے زمانے کے لئے سیاسی و سماجی شعور کی احیاء و تجدید کی ضرورت ہے خدا ہمیں آل رسول صلی اللہ علیہ وسلم اور صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کے نقش قدم پر چلنے کی توفیق عطا کرے اور لمحہ موجود کی انسانی دانش و حکمت عملی کے تحت آج کی دوپہر میں بیٹھ کر فیضان محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے تناظر میں جدید ٹیکنالوجی اور ذہانت و دانش مندی کی آرزو مندی کے لئے نئے پیراڈایم میں علمی و فکری مکالمے و ڈائلاگ کا انعقاد اور نتائج کشید کرتے ہوئے انسانوں کے لئے راحت و آرام اور سکون و اطمینان کی لہر دوڑانے کی ہمت و حوصلے سے انسانیت کو نوازے قرآن کریم کے الفاظ میں ولاخوف علیھم و لا ھم یحزنون یعنی ایسی دینا کی تشکیل و تعمیر نو جس میں خوف و غم اور دہشت گردی و فکری استحصال سے نجات حاصل ہو جائے