یہ ان د نوں کا ذکر ہے جب افغان مہاجرین بہت بڑی تعداد میں افغانستان سے ہجرت کرکے پاکستان آرہے تھے ان کی ایک بہت بڑی تعداد کراچی بھی آئی کیوں کہ کراچی ایک غریب پرور اور روزگار اور پناہ دینے والا شہر ہے یہ افغانی کراچی آکر بہت سارے مختلف ذرائع آمدن سے جڑ گئے ان میں سب سے کم ترین ذریعہ کوڑے کرکٹ کو چننا تھا ہم دیکھتے تھے کہ بہت سارے افغانی بچے دن بھر گلی کوچوں اور محلوں میں کوڑا کرکٹ چنتے رہتے تھے اور بعد ازاں ان کی درجہ بندی کرکے کباڑیوں کو بیچ کر اپنی روزی کماتے تھے۔ بعض اوقات یہ بچے گھروں سے کھانے پینے کی اشیاء بھی مانگ لیتے تھے
انہی بچوں میں ایک بچہ جمعہ خان بھی تھا جس کی عمر پانچ چھ سال کے لگ بھگ رہی ہوگی جمعہ خان اکثر ہماری گلی سے کوڑا چننے آتا تھا بہت گورا چٹا خوبصورت اور معصوم سا بچہ تھا۔ ہم اکثر اسے کچھ کھلا پلا دیتے تھے اور کبھی کبھی پیسے بھی دے دیتے تھے اکثر عید وغیرہ پر عیدی بھی دیتے تھے۔ ہمارے ایک قریبی رشتہ دار کبھی کبھی ہماری چھوٹی بیٹی سمیہ مریم (جس کی عمر بھی جمعہ خان کی عمر جتنی ہی تھی۔) کو مذاق میں چھیڑتے ہوئے کہتے تھے کہ تمہاری شادی جمعہ خان سے کردین کیونکہ وہ بھی اکثر جمعہ خان کو پیسے دیتی تھی اور اس سے ہمدردی رکھتی تھی۔ خیر یہ تو ایک مزاق کی بات تھی۔
اصل ٹریجڈی تو اب شروع ہوتی ہے۔ ایک دن جمعہ خان کوڑے کے ڈھیر سے کچھ چیزیں نکال رہا تھا کہ اچانک ایک زور دار دھماکا ہوا اور جمعہ خان زخمی ہو گیا، نہ صرف زخمی ہوا بلکہ اس کے دونوں ہاتھ کلائی تک اڑ گئے کافی عرصے تک وہ بچارا علاج کرا تا رہا اور منظر سے غائب رہا لیکن مرتا کیا نہ کرتا پیٹ کی آگ بجھانے کے لیے دوبارہ اسی کام میں لگ گیا حالانکہ اب یہ کام ہاتھوں سے معذوری کی وجہ سے اور بھی مشکل ہو چکا تھا مگر اس کی معذوری کو دیکھ کر ہم سب کی ہمدردی اور بھی بڑھ گئی اور تعاون بھی بڑھ گیا۔
وقت بڑا مرہم ہے۔ وقت گزرتا گیا اور جمعہ خان بھی ایک کڑ یل جوان بن گیا اور اس نے اپنا گھر بھی بسا لیا۔ آہستہ آہستہ اس کے بچے بھی ہوتے چلے گئے اور اس نے سہراب گوٹھ کراچی میں کچھ اور کام دھندا بھی شروع کردیا۔ اب بھی وہ کبھی کبھی ہمارے پاس چکر لگاتا ہے اور ہم کچھ نہ کچھ اس کو دے دیتے ہیں اور اس سے دعائیں لیتے ہیں۔
لیکن میں سوچتا ہوں کہ بڑے ملکوں کی پراکسی وار میں نہ جانے کتنے جمعہ خان شہید اور معذور ہو چکے ہیں آج کے یہ فرعون جو سپر پاور بن کر دنیا پر مسلط ہیں۔ انہوں نے سوائے تباہی اور بربادی کے دنیا کو کچھ نہیں دیا ورنہ چاہتے تو یہ دنیا گل و گلزار بھی ہو سکتی تھی مگر یہ لوگ چونکہ لادین تھے۔ نام نہاد سیکولر تھے۔ کمیونزم اور سرمایہ دارنہ نظام کے پرچارک تھے۔ اسلحے کے بیوپاری تھے۔ سودی نظام کے حامی تھے اور انسانیت پر ظلم کرکے اپنی تجوریان بھرتے رہتے رہتے تھے۔ لہٰزا ان سے کسی خیر کی توقع بےکار ہے۔
اب بھی وقت ہے کہ دنیا رحمت اللعالمین صلی اللہ علیہ وسلم کے راستے پر آجائے اور سارے نا خداوں کو چھوڑ کر ایک اکیلے خدا ئے رحمٰن و رحیم کے سائے میں آجائے تاکہ پھر سے دنیا جنت کا نمونہ بن سکے اور اللہ کی زمین عدل و انصاف سے بھر جائے اور انسانیت سکھ اور چین کے ساتھ جی سکے۔