مسرور انور کا اصل نام انور علی تھااور وہ 6 جنوری 1944 کو شملہ میں پیدا ہوئے تھے۔ قیام پاکستان کے بعد انہوں نے کراچی میں سکونت اختیار کی۔ میٹرک کے بعد انہوں نے پی آئی اے میں ملازمت اختیار کر لی مگر پھر شاعری کا شوق انہیں ریڈیو پاکستان لے آیا جہاں انہوں نے بطور سٹاف آرٹسٹ خدمات انجام دینا شروع کیں۔
ریڈیو پاکستان پر اداکار ابراہیم نفیس کے توسط سے ان کی ملاقات فلم ساز اور ہدایت کار اقبال شہزاد سے ہوئی جنہوں نے انہیں فلم ’’بنجارن‘‘ کے نغمے لکھنے کی پیشکش کی۔ اس فلم کی کامیابی کے بعد مسرور انور نے فلم شرارت اور بدنام کے گیت لکھے اور پھر وحید مراد، پرویز ملک اور سہیل رعنا کی ٹیم کا حصہ بن گئے جن کے ساتھ انہیں ہیرا اور پتھر، ارمان، احسان اور دوراہا کے نغمات لکھنے کا موقع ملا۔ بعد وہ لاہور منتقل ہو گئے جہاں انہوں نے نثار بزمی کی موسیقی میں بے شمار فلموں کے لیے لازوال گیت تخلیق کئے۔
سن 1965 کی جنگ کے موقع پر مسرور انور کے ولولہ انگیز گیتوں نے پوری قوم کا خون گرما دیا، مہدی حسن کی آواز میں اپنی جاں نذر کروں جیسا گیت تخلیق ہوا تو سوہنی دھرتی جیسے ملی نغمے کو کون بھول سکتا ہے۔
مسرور انور کی زندگی میں 1966 میں ریلیز ہونے والی فلم ‘ارمان’ کو بہت اہمیت حاصل ہے جس کا ہر گیت سپر ہٹ ثابت ہوا، جن میں اکیلے نہ جانا ہمیں چھوڑ کر تم یا کوکو کورینہ جیسے گیتوں کو کون بھول سکتا ہے۔
مسرور انور کے کچھ بے مثال فلمی نغمات کا تذکرہ کر رہے ہیں: -1 مجھے تم نظر سے گرا تو رہے ہو (دوراہا) -2 بیتے دنوں کی یادوں کو (آگ) -3 اکیلے نہ جانا ہمیں چھوڑ کر تم (ارمان) -4 کو کو کورینا، کو کو کورینا (ارمان) -5 اک ستم اورمیری جاں (صاعقہ) -6 یوںزندگی کی راہ میں ٹکرا گیا کوئی (صاعقہ) -7 اک نئے موڑ پہ لے آئے ہیں حالات مجھے (احسان) -8 مجھے تم سے محبت ہے (ہیرا اور پتھر) -9دنیا والو تمہاری دنیا میں (سوغات) -10 دل دھڑکے میں تم سے یہ کیسے کہوں (انجمن)
1992ء میں جب پاکستان کرکٹ ٹیم ورلڈ کپ جیت کر وطن واپس لوٹی تو مسرور انور نے فوری طور پر ایک ترانہ تحریر کیا۔ جس کے بول تھے:
اپنے کھلاڑیوں کو ہم کرتے ہیں سلام : دل کی سبھی دعائیں عمران خاں کے نام
اس ترانے کو معروف گلوکار اے نیئرنے لاہور ایئرپورٹ سے قذافی سٹیڈیم تک گایا جس سے عوام بے حد مسرور ہوئے
یکم اپریل 1996 کو یہ البیلا شاعر اس دنیائے فانی سے منہ موڑ کر چلا گیا، تاہم ان کے لازوال گیت آج تک لوگوں کی زبانوں پر رواں ہیں