- راجہ رحمت خان صاحب سے ہمارا تعارف کس طرح ہوا۔ یہ بھی ایک دلچسپ کہانی ہے۔ جب اللہ کو کسی سے ملوانا مقصود ہوتا ہے تو معاملات بھی اسی طرح بنتے چلے جاتے ہیں۔ یہ لگ بھگ سن 74ء کی بات ہے کہ کچھ معاملات کے سلسلے میں ہمیں کسی ایسی شخصیت کی تلاش ہوئی کہ جو تھانہ کچہری اور اس طرح کے متعلقہ معاملات میں ہمارے لئے مددگار ہو سکے۔
ہماری بہن کی ایک سہیلی کے شوہر جناب فتح محمد صاحب جو کہ لانڈھی 36b میں رہائش پذیر تھے اور جماعت اسلامی کے رکن بھی تھے۔ وہ راجہ صاحب کے دوست تھے۔ یوں بہن کی سہیلی کے توسط سے ہمیں فتح محمد صاحب سےملاقات کا شرف حاصل ہوا۔ انہوں نے ہمیں راجہ صاحب سے متعارف کرایا۔ راجہ صاحب ان دنوں یوسف پلازہ کے سامنے فیڈرل بی ایریا میں رہائش پزیر تھے۔ راجہ صاحب نے ہماری ہر ممکن مدد کی۔ ایسے جیسے کوئ اپنے سگے بھائی کی مدد کرتا ہے۔
راجہ صاحب کے والد صاحب قیام پاکستان سے قبل ہی کراچی کینٹ منتقل ہوچکے تھے۔ ویسے ان کا تعلق جہلم سے تھا انہوں نے اپنی روٹی روزی کے لئے ایک سائیکل کی دکان کھولی جہاں سائیکلوں کی فروخت ہوتی تھی اور کرائے پر بھی دی جاتی تھیں۔ ساتھ ہی ان کا کوئلے کا گودام بھی تھا جہان کوئلہ فروخت ہوتا تھا۔بعد ازاں وہ 36b لانڈھی منتقل ہوگئے۔
مگر راجہ صاحب نے خود کراچی کے سینما گھروں میں کینٹن چلانے کا کاروبار کیا۔ ساتھ ہی یوسف پلازہ کے پاس سپر یائی وے پر پیٹرول پمپ بھی قائم کرلیا جو پاکستان میں سب سے زیادہ پیٹرول فروخت کرنے والا پمپ تھا۔ آہستہ آہستہ اپنی محنت اور ایمانداری سے انہوں نے اپنے کاروبار کو بڑھایا اس سلسلے میں انہوں نے صلہ رحمی سے کام لیتے ہوئے اپنے قریبی رشتہ داروں کو جہلم سے بلا کر اپنے کاروبار میں شریک کرنا شروع کر دیا اور ان کے کاروبار میں وسعت ہوتی چلی گئی۔
چونکہ فتح محمد صاحب کا تعلق جماعت اسلامی سے تھا اس لیے آپ جماعت اسلامی سے قریب ہوتے چلے گئے اس میں جماعت کے دیگر احباب کا بھی عمل دخل تھا۔ جب ایوب خان اور فاطمہ جناح کے انتخابات ہونے والے تھے اس سے پہلے حکومت نے بنیادی جمہوریتوں کا نظام متعارف کرایا اس نظام کے تحت راجہ صاحب کو بھی انتخابات میں کھڑا کیا گیا۔ راجہ صاحب نے دیکھا کہ مخالف امیدوار ووٹوں کی خرید و فروخت کے لئے نوٹوں کا بھرپور استعمال کر رہا ہے۔ راجہ صاحب بھی ماشاء اللہ کافی پیسے والے تھے اس لیے انہوں نے بھی جماعت کے حلقوں سے اس کا ذکر کیا اور کہا کہ وہ بھی اسی نہج پر کام کریں تو الیکشن جیت سکتے ہیں مگر جماعت نے ان کو ٹکا سا جواب دے دیا کہ بھلے آپ الیکشن ہار جائیں مگر یہ کام نہیں کرنا ہے۔ اس بات نے راجہ صاحب کو بہت متاثر کیا اور وہ جماعت اسلامی کے اور قریب ہو گئے اور آہستہ آہستہ ایک نظریاتی اور باکردار کارکن کی شکل اختیار کر لی
ہماری جب ان سے پہلی ملاقات ہوئی تو ان دنوں ہم بھی اسلامی جمعیت طلبہ کے رکن تھے۔ خیر آمدم بر سرِ مطلب، راجہ صاحب نے ہمارے معاملات میں بہت مدد کی یوں ہمارے تعلقات ان کے ساتھ بڑھتے چلے گئے ہمارے یہ تعلقات تقریباً نصف صدی پر محیط تھے راجہ صاحب کی چند خصوصیات ایسی تھیں کہ جس نے انہیں لوگوں کے دلوں کا راجہ بھی بنادیا تھا۔ ایک تو وہ بہت سخی تھے اور ہر ضرورت مند اور مظلوم کی مدد کے لیے ہر وقت تیار رہتے تھے اور دامے درہمے سخنے اس کی مدد پر کمربستہ رہتے تھے سخاوت اور خدمت خلق کے حوالے سے ان میں کوئی تعصب نہ تھا جانے انجانے سب کی مدد کرتے تھے۔ یہاں تک کہ جماعت اسلامی کے نظریاتی مخالفین بھی ان سے مدد کے طالب رہتے تھے اللہ نے ان کی سخاوت اور خدمت خلق اور صلہ رحمی کی وجہ سے ان کے کاروبار میں بھی بہت برکت اور وسعت دی۔
کراچی جیسے بڑے شہر کے بہت سے سینما گھروں میں ان کی کینٹین کا بزنس بھی تھا ان کا ایک ریسٹورینٹ بھی تھا جو یوسف پلازہ میں قائم تھا اس ہوٹل کاقیام 1974ء کی بات ہے اسکا نام الطاہر ریسٹورینٹ تھا اسکا افتتاح پروفیسر غفور صاحب نے کیا تھا۔ الطاہر خوب چلا اچھی شہرت پائی شہر کے دور دور سے لوگ یہاں کڑھائی گوشت کھانے اور چائے پینے اتے تھے بڑے بڑے نامور لوگ تھے مثلاً مشہور شاعر سلیم احمد انکے بھائی شمیم احمد۔ عبیداللہ علیم کراچی یونیورسٹی کے پروفیسر جمیل خان۔ ہاکی کی دنیا کا بہت بڑا نام اصلاح الدین۔ حنیف خان۔ شاہد علی خان اولمپین وغیرہ۔
بقول قیصر خان جو کہ جامعہ کراچی میں رکن جمیعت تھے اور ہمارے اور راجہ صاحب کے دیرینہ اور مشترکہ دوست بھی تھے۔ اور آج کل جمیعت الفلاح کے صدر بھی ہیں۔ راجہ صاحب قیصر بھائی پر بہت اعتماد کرتے تھے۔
قیصر بھائ کا کہنا ہے کہ ” وقت گزرتا گیا راجہ صاحب کی مصروفیت اور ہوٹل چلانے والوں کی نااہلی نے اس نام ور ہوٹل کو بند کروا دیا۔ کچھ عرصہ یہ بند رہا۔ پھر کجھ دوستوں نے راجہ صاحب کو اس ہوٹل کو دوبارہ کھولنے پر راضی کر لیا یوں اسکا افتتاح ہوا اور نام کارگل ان رکھا گیا۔جو انتہائی نا معقول نام تھا۔ بھلا کارگل کی جنگ سے ہوٹل کا کیا لینا دینا۔ اس ہوٹل کا افتتاح جناب قاضی حسین احمد صاحب نے کیا۔ راجہ صاحب کے وہ دوست جماعت اسلامی کے مخلص کارکن تھے لیکن ہوٹل چلا نے کا کوئی تجربہ نہیں تھا۔ اس کا بھی وہی حشر ہوا جو ہونا چاہئے تھا تھوڑا عرصہ یہ ہوٹل چلا اور اپنے منطقی انجام کو پہنچا جسکا مجھے افسوس ہے۔”
راجہ صاحب کراچی کے ہردل عزیز مئیر جناب عبدالستار افغانی صاحب کے دور میں جماعت اسلامی کی طرف سے کونسلر بھی منتخب ہو ئے۔ اور انہوں نے پورے فیڈرل بی ایریا میں ریکارڈ ترقیاتی کام کروائے۔ جس میں گرلز اسکول۔ پارک۔ کھیلوں کے میدان۔سڑکوں کی تعمیر وغیرہ شامل ہیں۔اس کے علاوہ علاقے کے عوام کے ہر نوعیت کےمسائل بھی حل کروائے۔ بلدیاتی کاموں میں ان کا جواب نہ تھا۔ ان کی سادگی اور انکساری اور عوامی مزاج کا یہ عالم تھا کہ اگر کوئ گٹر خراب ہوجاتا تو خود جمعدار کو اپنی گاڑی میں لیکر جاتے۔اس سے کام کراتے۔اس کو کھانا کھلاتے اور گاڑی میں چھوڑ کر آتے۔ ان کے اس وی آئ پی سلوک کے بعد کون ایسا ہوگا جو ان کے کسی کام کا انکار کرے گا۔
ایک دفعہ ہم جمیعت کے سلسلے میں زر تعاون لینے ان کے پاس کیپری سینما کے آفس گئے ہم جب بھی ان کے پاس جمیعت کے لئے زر تعاون لینے جاتے تھے انہوں نے کبھی مایوس نہیں کیا۔ اتفاق سے عین اس وقت مغرب کی اذان ہوگئی ہم اٹھ کر مسجد جانے کے لئے نکلنے لگے۔ راجہ صاحب نے کہا۔ طلعت بھائی کہاں جا رہے ہیں۔ وہ ہمیشہ مجھے طلعت بھائی کہا کرتے تھے۔ میں نے کہا نماز کے لئے جا رہا ہوں۔ کہنے لگے ہم آپ کو یہی پڑھوا دیتے ہیں۔ ہم حیرت زدہ ہوئے کہ یہاں سینما گھر میں۔ کہنے لگے ہاں اور ہمیں لے کر سینما کے پروجیکٹر روم میں چلے گئے۔
ہم نے وہاں ایک عجیب و غریب منظر دیکھا شاید اس کی مثال ملنا مشکل ہو۔ ایک طرف مشینوں پر فلموں کی بڑی بڑی ریلیں چل رہی تھیں اور اس کے پشت پر چٹائی اور دری کی صورت میں صف بندی تھی۔ ہم نے وہاں پہلی مرتبہ باجماعت نماز ادا کی۔ راجہ صاحب سے پوچھا کہ بھائی یہ کیا ماجرا ہے۔ پتہ چلا کہ راجہ صاحب نے دعوت دین کا کام یہاں پر بھی جاری رکھا ہے۔ جس کے نتیجے میں اب سینما کے اکثر ملازمین باجماعت نماز ادا کرتے ہیں
. پاسباں مل گئے کعبے کو صنم خانوں سے
ایک مرتبہ ہم بہت سخت بیمار پڑے اور بقائی ہوسپٹل میں داخل ہوئے راجہ صاحب ہماری عیادت کے لیے وہاں تشریف لائے۔ ہم بخار اور نیم بے ہوشی کے عالم میں تھے ہماری والدہ ہمارے سرہانے بیٹھی تھیں۔ بعد میں والدہ نے بتایا کے راجہ صاحب نے جاتے جاتے چپکے سے ہمارے تکیے کے نیچے کچھ معقول رقم رکھ دی تھی جو اس زمانے کے ہسپتال کے اخراجات کے لیے تھی۔
اکثر ہم ان سے ملنے ان کے یوسف پلازہ کے دفتر بھی جاتے تھے ہم نے ہمیشہ یہ دیکھا کہ راجہ صاحب نے ہمیشہ دوست دشمن اپنے پرائے کی تمیز کے بغیر ہر طرح کے ضرورت مندوں کی مدد کی یہی وجہ تھی کہ وہ ہر طبقے میں ہر دل عزیز تھے کبھی ماتھے پر شکن نہی آئ چاہے کوئ آدھی رات کو بھی دستک دے۔بہت ہی خندہ پیشانی سے پیش آتے تھے چہرے پر ہمیشہ ایک دل موہ لینے والی مسکراہٹ رہتی تھی۔ غرض یہ کہ راجہ صاحب اپنی زات میں ایک انجمن تھے۔ وہ ایک چلتی پھرتی این جی او تھے۔اور ایک متحرک اور مکمل الخدمت تھے۔ واقعی اسم بامسمٰی تھے یعنی دل کے راجہ بھی تھے اور لوگوں کیلیے باعث رحمت بھی۔یعنی راجہ رحمت۔
اکثر راجہ صاحب ہمارے گھر عزیزآباد بھی تشریف لاتے تھے اور ہماری والدہ سے بہت محبت اور احترام سے پیش آتے تھے اور ان سے دعائیں لیتے تھے اور انھیں ماں جی کہتے تھے۔ ہمیں یہ اعزاز بھی حاصل ہے کہ راجہ صاحب ہماری شادی میں شریک ہوئے اور ہمارے نکاح نامے پر دستخط بھی کیے، بحیثیت شادی کے گواہ کے۔ جو کہ ہمارے لئے باعث عز و شرف ہے۔
راجہ صاحب نے اپنی تمام دیگر ذمہ داریوں اور کاروبار کے علاوہ دعوت کے کام کو ہمیشہ جاری و ساری رکھا۔ ان کا ایک بہت ہی عوامی انداز تھا ان کے حسن اخلاق اور اسی عوامی انداز کی وجہ سے دشمن بھی دوست بن جاتے تھے۔ راجہ صاحب کے لیے 24 گھنٹے بھی کم تھے اسی محنت و مشقت اور بے آرامی اور بھاگ دوڑ کی انتہائی مصروف زندگی کی وجہ سے وہ بہت ساری بیماریوں میں بھی مبتلا ہوگئے تھے سب سے ظالم بیماری شوگر کی بیماری تھی جو کہ انہیں اندر ہی اندر دیمک کی طرح چاٹ گئی بالآخر وہ سخت بیمار پڑے اور بستر سے لگ گئے۔ صاحب فراش ہوگئے۔ ملاقاتوں سے بھی گریز پر مجبور ہوگئے۔
ہمیں خبر ملی تو ہم ان کی عیادت کے لیے گئے چوکیدار نے گیٹ پر ہی ہمیں روک دیا۔ ہم نے کہا کہ آپ راجہ صاحب کو بتائیں کہ طلعت بھائ ملنے آئے ہیں۔ ہمارا نام سنتے ہی راجہ صاحب نے ہمیں اندر بلا لیا ہم ان کے ساتھ چارپائی کے برابر میں کرسی رکھ کر بیٹھ گئے۔ راجہ صاحب بہت محبت سے کہنے لگے طلعت بھائ آپ ہمیں نہیں بھولے۔ ہم نے کہا ہم آپ کو کیسے بھول سکتے ہیں۔ آپ کے حسن سلوک اور محبت میں تو ایک زمانہ گرفتار ہے۔ راجہ صاحب انتہائی کمزور تھے اور بستر مرگ پر تھے ان سے بات کرنا بھی مشکل ہو رہا تھا۔ ہم نے بھی ان کی تکلیف کو محسوس کر لیا ہم دونوں ایک دوسرے کو محبت بھری نظروں سے کافی دیر خاموشی سے دیکھتے رہے اور دل ہی دل مین دعا کرتے رہے۔ بلآ خر ہم نے ان سے رخصت لی یہ ہماری ان سے آخری ملاقات تھی۔ چند دنوں بعد ہی ان کے انتقال کی خبر مل گئی ہم ان کے گھر پر ہونے والی تعزیتی مجلس میں بھی شریک ہوئے جس میں جماعت کے اکابرین بھی شریک تھے بہت سے لوگوں نے ان کے ساتھ اپنی یادیں بیان کی اور بالآخر یہ مجلس رقت آمیز دعاوں پر ختم ہوئی۔
ان کی تدفین آبائی قبرستان جہلم میں ہوئی جس میں ہم شرکت سے محروم رہے۔ راجہ صاحب حسن سلوک خدمت خلق اور سخاوت میں بہت اونچا مقام رکھتے تھے۔ جس کی ہم صرف تمنا ہی کرسکتے ہیں۔ اللہ تعالٰی سے دعا ہے کہ انہیں جنت الفردوس میں اعلٰی مقام عطا فرمائے۔آمین ثمہ آمین۔