خبروں کی دنیا سے جی اکتا سا گیا تھا۔مسافر نے عمرِ رفتہ کو آواز دی دی تو یادوں کے دھندلے نقوش واضح ہوتے چلے گئے۔ مسافر نے رخت سفر باندھا اور راولپنڈی جا پہنچا ۔جہاں عمر کی نقدی ماہ و سال کی نذر کی۔ شہریاراں میں پہنچے تو پہاڑوں کو سر کرنے کی امنگ دل میں پھر سے جاگی ۔
مسافر یار غار ارشد اقبال وانی حافظ اظہر اور سلمان سہیل کے ہمراہ ضلع جہلم کے تاریخی ٹلا جوگیاں جا پہنچا۔ٹلہ جوگیاں سطح سمندر سے ایک کلو میٹر اور لگ بھگ 330 فٹ بلند ہے یہاں تک پہنچنے کے کئی رستے ہیں ایک تو یہ کہ آپ کسی اچھی سی جیپ پر پر قلعہ رہتاس کی طرف سے یہاں آ جائیں دیگر رستے اسی پہاڑ کے دامن سے چوٹی کی طرف جاتے ہیں ۔گزرے وقتوں میں جوگی اور یاتری انہی راستوں سے اوپر جایا کرتے تھے گویا انہیں پتھروں پہ چل کہ گر آسکو تو آؤ ۔یار لوگوں نے ان ہی رستوں میں سے ایک ٹیڑھا میڑھا رستہ چنا۔مسافر لکیر کےفقیر بن کر چل پڑے۔رستے میں ارشد نے بتایا کہ ایک بار انہیں ٹلہ چڑھتے ہوئے بیچ پہاڑ کے رات ہو گئی اندھیرے میں اردگرد کی جھاڑیوں سے ہنسنے رونے کی آوازیں آتی تھیں شاید کوئی نام لے کر بھی پکارتا تھا۔مقابلہ جِنوں اورجُنُون کے درمیان تھا جس میں جیت جُنُون کی ہوئی۔
لگ بھگ دو تین گھنٹے چڑھائی چڑھ کر ٹلے پر پہنچے۔فضا لطیف تھی اور ہوا تیز۔من شانتی اور سکون سے بھر گیا ۔یہاں سینڈ اسٹون سے بنی سمادھیاں دیکھ کر سنگ مرمر سے بنا اجلا مزار قائد یاد آیا۔کیا خبر معمار کے ذہن میں ایسی ہی کسی قدیم سمادھی کی جھلک موجود ہو۔شاید اسی لیے مزار قائد ہو بہو ایسا ہے۔
مسافر کوخیال آیا کہ اقبالؒ کی” ایک آرزو” ان جوگیوں کے من میں ضرور مچلی ہوگی جب ہی وہ سب کچھ تیاگ کر پروانہ وار اسی ٹلے پر آتے۔گویا ٹلا جوگیوں کا کوہ طور تھا۔
پہلی صدی قبل مسیح میں اجین کے راجہ بھرتری ہری نے بھی راج پاٹ اپنے بھائی وکرم جیت کو سونپ کر اسی ٹلے پرجوگ لیا تھا، تپسیا کی تھی۔بھرتری ہری قدیم ہند کا وہی عظیم فلسفی ،نجومی ،شاعر اور ماہر لسانیات ہے جس کے ایک شعر کے ترجمے سے علامہ اقبال نے بال جبریل کا آغاز کیا ؎
“پھول کی پتی سے کٹ سکتا ہے ہیرے کا جگر
مرد ناداں پر کلام نرم و نازک بے اثر”
اسی ٹلے پہ بھرتری ہری کی سمادھی چند برس پہلے تک موجود تھی اب بہت سی دیگر سمادھیوں کی طرح یہ بھی پیوندخاک کر دی گئی۔اب بھرتری ہری کا ذکر محض کلام اقبال اور دیگر کتب میں ہی ملتا ہے۔
ٹلہ جوگیاں کو ٹلا گورکھ ناتھ اور ٹلہ بالناتھ بھی کہا جاتا ہے یہاں پجاری نہ صرف طلوع بلکہ غروب کےوقت بھی آفتاب پوجا کرتے تھے ۔یقینا ان پجاریوں نے چڑھتے سورج کی پوجا والا محاورہ نہ سنا ہوگا۔ کہتے ہیں لگ بھگ چار ہزار سال قبل آریا ترکمانستان سے کوہ ہمالیہ کے دروں سے گزرتے ہوئے پنجاب آئے تو جہلم میں پڑاؤ ٹلہ جوگیاں پر ہی ڈالا اس کی دو وجوہات تھیں ۔
پہلی یہ کہ ٹلہ پوٹھوہار میں کوہستان نمک کی سب سے اونچی چوٹی ہے یہاں سے دور دراز،دشمن پہ نظر رکھنا اور مقابلہ کرنا بہت آسان ہے۔ دوسری یہ کہ آریا مظاہر پرست تھے سورج اور چاند ستاروں کی پوجا کیا کرتے تھے اس بلند و بالا جگہ سے سورج کا نظارہ مبہوت کر دینے والا ہوا کرتا تھا اور یہ پوجا کے لیے موزوں ترین جگہ تھی۔
یہاں سے قریب ہی قصبہ مونگ ہے جہاں سکندر یونانی کیخلاف پنجاب سے پہلی مزاحمت ہوئی۔ٹلہ جوگیاں راجہ پورس کا بیس کیمپ تھا! 326قبل مسیح میں ہونے والی اس جنگ میں سکندر یونانی کیخلاف سات فٹ کا راجہ پورس ڈٹ کر لڑا۔ قسمت اس روز سکندر کے ساتھ تھی۔آتشی حملوں سے پورس کے ہاتھی گھبرا گئے، اپنوں پر ہی قیامت ڈھادی۔ یہ بھی کہا جاتا ہے کہ پورس کا ایک ہاتھی اس ٹیلے یعنی ٹلہ جوگیاں پر جا چڑھا تھا۔فتح کے بعد سکندر بھی ٹلے پر آیا اور جوگیوں سے ملاقات کی۔یونانی مورخ پلوٹارک اس ٹلے کو ہاتھی والا ٹلا کے نام سے یاد کرتا ہے۔
لگ بھگ ایک ہزار برس قبل محمود غزنوی کیساتھ آنےوالے عظیم مسلم فلسفی ابوالریحان البیرونی نے بھی اسی علاقے میں ڈیرہ ڈالا۔ٹلہ جوگیاں کے قریب ہی واقع چوٹی پہ قائم قلعہ نندنہ میں اس نابغہ روزگار شخص نے زمین کا قطر معلوم کیا تھا۔
چند صدیاں قبل سکھ مت کے بانی بابا گرونانک بھی اسی ٹیلے پر آئے اور لگ بھگ چالیس روز تک مقیم رہے۔مسافر بابا گرونانک کی اجڑی سمادھی میں داخل ہوا تو بابا کی صدیوں پرانی باتیں قلب و ذہن پر چھا گئیں:
“تمام مخلوقات کے ساتھ مہربانی کرنا مقدس مقامات پر اشنان سے بہتر ہے”
“مایا سے جذباتی لگاؤ مکمل دکھ اور گھاٹے کا سودا ہے”
مغل شہنشاہ اکبر اعظم1581 عیسوی میں ننگے پاؤں ٹلہ جوگیاں آیا جوگیوں سے راز و نیاز ہوئےمن کہی اور ان کہی باتیں ہوئیں۔اکبر نے یہاں جوگیوں کے لئے تالاب بنوائے تاکہ اس بلندی پر قلت آب کا مسئلہ حل ہو سکے. یہ سیڑھیوں والے تالاب جنہیں باؤلیاں بھی کہا جاتا ہے آج بھی اس عظیم شہنشاہ کی یاد دلاتے ہیں۔مسافر بادشاہ کے تخت پر بیٹھا اور چشم تصور سے وہ منظر دیکھا جب سیکڑوں جوگی وقت کے شہنشاہ کو اپنے درمیان پاکر حیرت سے تکتے تھے جیسے وہ کسی اور سیارے کی مخلوق ہو۔اس لیے کہ یہ طرز زندگی وہ برسوں پہلے ترک کرچکے تھے ۔انہیں مایا نہیں مکتی کی تلاش تھی۔
سن 1607عیسوی میں شہنشاہ جہانگیر نے بھی یہاں دربار لگایا اور شکار کھیلا۔زمانے نے کروٹ لی اورسن 1747میں احمد شاہ ابدالی نے ٹلہ جوگیاں کی اینٹ سے اینٹ بجادی قتل عام کرایا۔ہنگامہ اور قتل و غارت تھمی تو جوگی لوٹ آئے اور ٹلہ پھر آباد ہوگیا۔وقت بدلا اور 1947 آگیا۔گیان اور دھیان کے من مندر میں معرفت کی گھنٹیاں بجاتے اداسی فرقے کے جوگیوں نےرخت سفر باندھ لیا۔بےچین روحیں یہاں آج بھی بھٹکتی ہیں مگرشانتی اور نروان کی سکھشا دینے والے کب کے انڈیا میں کانگڑا کی چوٹی پہ جابسے۔کبھی ٹلے کی گپھاؤں مندروں ،گنبدوں میں زندگی گیت گاتی تھی۔مقدس اشلوک پڑھے جاتے تھے آج یہ شکستہ ،سنسان اور ویران ہیں تالاب سوکھے پڑے ہیں ۔ان پہ کی گئی صناعی اور کام تباہ کردیا گیا مگر استھانوں میں رکھے گلاب کے سوکھے پھول آج بھی وہی خوشبو بکھیرتے ہیں جس سے دنیا تیاگ کر یہاں مقیم جوگیوں کے من کو شانتی ملا کرتی تھی۔
خزانے کی تلاش میں برسوں سے آنے والے حریص اور بدذوق لٹیروں نےیہاں تاریخی آثار کو بے تحاشا نقصان پہنچایا ہے۔لالچ کی پٹی آنکھوں پر بندھی ہو تو اتنا بھی نظر نہیں آتا کہ جوگیوں کے پاس دھن نہیں من کی دولت ہوتی ہے پھر خزانہ کیسے اور کیونکر ملے!
اگر اس تاریخی ورثے کے تحفظ کےلیے فوری اور بروقت اقدامات نہ کیے گئے تو آئندہ اس عظیم مقام کا تذکرہ صرف کتابوں میں ہی ملے گا۔ روز بروز مٹتا اور برباد ہوتا یہ تاریخی مقام سیاحت کو فروغ دینے کی دعویدار حکومت کے لیے شرم کا مقام بن چکا۔ہے کوئی جو شرم کرے اور اس عظیم تاریخی ورثے کا تحفظ کرے۔