Warning: Attempt to read property "child" on null in /home/d10hesot7wgn/public_html/wp-content/themes/jnews/class/ContentTag.php on line 45
Warning: Attempt to read property "child" on null in /home/d10hesot7wgn/public_html/wp-content/themes/jnews/class/ContentTag.php on line 25
Warning: Undefined array key 1 in /home/d10hesot7wgn/public_html/wp-content/themes/jnews/class/ContentTag.php on line 86
Warning: Attempt to read property "child" on null in /home/d10hesot7wgn/public_html/wp-content/themes/jnews/class/ContentTag.php on line 25
میں اپنے کمبل میں منہ ڈالے سو رہا تھا ۔ بجلی گئی ہوئی تھی اور کمرے میں اندھیرا تھا۔مجھ پر نیند کا غلبہ طاری تھا مگرمسلسل موبائل کی گھنٹی بج رہی تھی ۔فون اٹھا یا تو دوسری طرف سے احمر مدھم آواز میں حکم دے رہا تھا ۔جلدتیار ہو جاوٴ آج شاہ زیب کی بہن کی بارات ہے۔میں نے فون سنا اور پھر کمبل لپیٹ کر سو گیا ۔کچھ دیر بعد دروازے پر دستک ہوئی ۔باہر میرے نام کی صدائیں بلند ہو رہی تھیں ۔میں بھاری قدموں سے باہر گیا تو احمربزرگوں کی طر ح چلاّ یا ،کیا طریقہ ہے ایک گھنٹے پہلے تمہیں فون کیا تھا اب تک تیار نہیں ہوئے ۔طبیعت سست ہے کیا جانا ضروری ہے ؟ہاں یقینا ۔۔۔بالکل۔۔۔جا وٴ تیار ہو جا وٴ۔احمر کے کہنے پر میں نے ہاتھ منہ دھویا اوربے دلی سے کنگھی کر کے اس کے ساتھ چلا پڑا۔
میری طبیعت کچھ ناسازتھی مگر دوستوں کے ساتھ جلد دل بہل گیا ۔شادی ہال میں چاروں طرف چہل پہل تھی ،چھوٹے بچے اِدھر اُدھر دوڑ رہے تھے ،نوکر پانی کی ٹنکیوں میں پانی بھر رہے تھے ،پکوان باورچی خانے میں بر یانی اور زردے کی دیگیں ہلا رہے تھے ،معمر مرد سیاست پر گفتگو کر رہے تھے ، ادھیڑ عمر عورتیں ایک دوسرے کے لباس ،بال اور صورتیں تک رہی تھیں ،نوجوان لڑکیاں لڑکے ایک دوسرے کو کن کھیوں سے دیکھ رہے تھے ،ہمارا دوست شاہ زیب ،اُس کا بڑا بھائی زوہیب اوراُن دونوں کے والد سلیم چچا ہال کے انتظامات کا جائزہ لے رہے تھے ۔جبکہ ہم تمام دوست اپنی تصویریں اتار نے میں مگن تھے۔
دولہا اور دلہن کا نکا ح رسم حنا میں ہی پڑ ھا یا جا چکا تھا اس لئے بارات آتے ہی دیگو ں سے ڈھکن ہٹائے گئے اور کھانا کھو ل دیا گیا ،شاہ زیب ہمارا بچپن کا دوست تھا اس لئے ہم مہمانوں کی خدمت اور انہیں کھانا کھلا نے پر معمور تھے ،روایت کے مطابق لوگ کھانے پر پل پڑے اور منٹوں میں کھانا صاف ہو گیا ۔احمر ،فراز،رضا اور میں بھو کے شیر کی طرح تڑپ رہے تھے مگر حسب ِ روایت ہمیں تمام مہمانوں کے بعد کھانا تناول کر نا تھا ،کھا پی کر لوگ ہال سے رخصت ہو رہے تھے ،رات کا تقریبا ً ایک بج رہا تھا ،دولہا اور دلہن کا کھانا بھی اسٹیج کی میز پر سج چکا تھا ،وہ دونوں بہت خوبصورت لگ رہے تھے ،نوجوان جوڑی کی ہم تمام دوست تعریف کر رہے تھے،احمرکے دل میں لطف و سرور کے جذبات امنڈ رہے تھے ،اسے ہر شادی میں دس بارہ لڑکیاں پسند آیا کرتی تھیں مگر اس شادی میں وہ اپنا کوٹہ پور اکرنے سے محروم رہا تھا کیونکہ وہ ہمارے ساتھ خدمت گزاری اور مہمانوں کو کھانا کھلانے میں مصروف رہاتھا ۔فرازبھوک سے بلبلا رہا تھا ،رضاہماری تصویریں اتار رہا تھا جبکہ میں اپنے موبائل فون پر دن بھر کی خبریں پڑھنے میں منہمک تھا ،شاہ زیب اسٹیج کے نیچے رکھے ہو ئے ایک بڑے صوفے پر براجمان تھا اسی دوران فراز اس کے قریب پہنچا اور کہنے لگا “بھائی آنتیں قل پڑھتی ہیں کھانا کھلادے “شاہ زیب نے جواباً کہا “اب گھر جا کر کھائیں گے “فراز چونکا مگر وہ دم بھر کر رہ گیا ۔کئی مہمان ہال سے روانہ ہوچکے تھے اور کچھ آہستہ آہستہ رختِ سفر باندھ رہے تھے ،میں اور احمر محو گفتگو تھے اچانک ہم نے کئی افراد کو شادی ہال کے صدر دروازے کی طرف بھاگتے ہوئے دیکھا ۔جب میں نے لوگوں کو تیزقدم بھرتے ہوئے دیکھا تو یکدم مجھے بارہویں جماعت کی انگریز ی کتاب کا سبق “the day the dam broke” یاد آگیا اور میں احمر کو وہ کہانی سنانے لگا جس میں امریکی ریاست “اوہا ئیو”کے دوہزار افراد ڈیم ٹو ٹنے کی افواہ پر دوڑنے لگے تھے مگرمجھے کیا معلوم تھا کہ یہاں ڈیم بھی ٹو ٹا ہے اورپانی نے شہر کوڈبو بھی دیا ہے ۔جب رش بڑھ گیا تو احمر اورمیں نے بھی شادی ہال کے صدر دروازے کا رخ کیا جہاں ہم نے کسی خاتون کو کہتے سنا کہ لڑکی کو لڑکے نے تھپڑماردیا ہے ،ایک اور خاتون کی آواز میرے کانوں سے ٹکرائی “لڑکی نے ایسی بات کیوں کہی “ہمیں معلوم ہوا کہ دولہا گا ڑی کے اندر موجودہے ،وہ شادی ہال سے کیوں نکل آیا تھا اور اندورنِ خانہ اصل کہانی کیا تھی ہمیں کوئی خبر نہ تھی ، میں نے نظر اٹھائی تو دیکھاایک سرخ لباس میں ملبوس دوشیزہ دولہا کی کار سے روتی ہوئی بر آمد ہوئی اور اس ٹیبل کی طرف دوڑ لگانے لگی جہاں دولہا کا خاندان بیٹھا تھا ۔میں سمجھا شائد کسی لڑکے نے اِسی لڑکی کو تھپڑ مارا ہے ،میں نے اس لڑکی کا پیچھا کیا وہ سیدھی اُس کمرے میں گئی جہاں کھانا کھانے کے بعد دلہن دولہے کے ساتھ بیٹھی ہوئی تھی ،میں کمرے میں جانے سے قاصر تھا اِس لئے اُس حنا ما لیدہ ہاتھوں والی دوشیزہ کا انتظار کرنے لگا ۔سرخ لباس والی لڑکی کی آنکھوں سے آنسو گر رہے تھے اور وہ کہہ رہی تھی “اس گھر میں ایسا ہی ہو تا ہے۔”میں سوچ میں پڑ گیا کہ یہ کس گھر کی بات کر رہی ہے ؟
وہ لڑکی دولہا کی بہن تھی کیوں کہ جب شاہ زیب ،احمر،رضا، فراز اور میں کار کے سامنے رسم اداکررہے تھے تو وہ خوب چہک رہی تھی اورہم ا ُس کو کھلونا سمجھ کر اس میں وقفے وقفے سے چا بیاں بھر رہے تھے ۔مجھے گمان ہوا کہ شایددولہا کی بہن کو دولہا یا کسی اور نے کسی نازیبا حرکت پر تھپڑمارا ہوپھر میں ا س لڑکی سے اور قریب ہو گیا وہ ایک ادھیڑ عمر عورت کے پاس جاکر اسے دھیمی آواز میں کچھ کہہ رہی تھی ، میں اس لڑکی کی بات نہ سن سکا ۔ اس لڑکی کی پیٹھ میری طرف تھی البتہ ادھیڑ عمر عورت کے میں عین سامنے موجود تھا وہ عورت کہہ رہی تھی “امی بڑی ہیں پہلے اُن سے ملنا چاہئے “اب مجھے کچھ کچھ بات سمجھ آرہی تھی ،دھندلی تصویر کچھ واضح ہو رہی تھی ،مجھے لگا غالباً دولہے کی والدہ اس شادی سے رضامند نہ ہو ں اور دولہا ماں کی رضامندی حاصل کرنے کے لئے دولہن کو اپنے ساتھ ماں کے پاس لیجانے کا خواہش مند ہو ۔اُس نے سوچا ہو کہ ماں کے قدموں میں دو چار آنسوگرائے گا اور ماں کا دل موم کی طرح پگل جائے گا جس پر دولہن نے اعتراض کیا ہو اورنتیجتاً وہ دونوں اُلجھ پڑے ہوں اور اِس واقعہ کو لوگوں کی زبان نے ہوا دیکر تھپڑ تک پہنچا دیا ہو۔میری تشویش بڑھتی جارہی تھی دراصل میں ہی نہیں بلکہ بارا ت میں شریک ہر شخص اضطراب ،الجھن اور پریشانی کا شکار تھا ۔ہر کوئی جانناچاہتا تھا کہ ماجرا کیا ہے مگر کسی کو کچھ خبر نہ تھی ۔فراز شاہ زیب کے ساتھ تھا لہٰذا میں نے ہال میں فرازکی تلاش شروع کی اور اس سے استفسار کیا :”تمہیں کچھ معلوم ہوا؟ “دولہا نے دولہن کو تھپڑ مار دیا ہے ۔کیا ؟میں حیرت زدہ رہ گیا ۔”ہاں یا ریہ درد ناک واقعہ ہو چکا ہے “میں نے دولہا کو کہتے سنا کہ مجھے یہ شادی نہیں کر نی ۔” میرے پاوٴں تلے سے زمین نکل گئی اور دل بیٹھ گیا ،ابھی میں اورفرازمحو گفتگو تھے کہ ہمیں کسی بوڑھے آدمی کے چلانے کی آوازیں سنائی دیں “ہم کسی سے دبیں گے نہیں ،بیٹی بیاہی ہے بیچی نہیں ہے،بارات لے جاتے ہیں تو لے جائیں ،کوئی یہ نہ سمجھے کہ وہ ہمیں جھکا لے گا “نظریں اٹھا کر دیکھا تو سلیم چچا چلا رہے تھے ۔اچانک اُن کا بڑا بیٹا زوہیب آگیا اور اس نے اپنے عمر رسیدہ باپ کے منہ پر ہاتھ رکھ کر انہیں چپ کر ادیا ۔اُس کے بعد سلیم چچا مجھے ہال میں کہیں نظر نہ آئے ۔احمر اورفراز میرے قریب آئے اور کہنے لگے!مسئلہ سنگین ہے ۔۔۔کیا ہوا ؟میں نے اضطراب سے پوچھا ۔”دولہا کی ماں” کو ما ” میں ہی اور کافی عرصے سے علیل ہے کئی ہسپتال جواب دے چکے ہیں مگر اِس آس پر دولہا نے اپنی والدہ کو شہر کے ایک مہنگے ہسپتال میں داخل کرا دیا کہ شائد اس کی ماں جانبر ہو سکیں “احمرنے مزید کہا ،دولہا اور دلہن جب برا ئڈل روم میں فوٹو سیشن کرارہے تھے تو وہاں دولہا نے دولہن سے کہا کہ ہم پہلے ہسپتال امی کے پاس جائیں گے اورپھر اپنے گھر ،جس پر دولہن نے انکار کیا ۔اس مدعے پر دونوں میں تکرار ہوئی ، نتیجتاً دولہا ضبط نہ کر سکا اور اس نے دولہن کے منہ پر تھپڑ مار دیا ۔سورس کیا ہے ؟میں نے استفسار کیا :”اسے چھوڑوبس میں نے سنا ہے “احمر نے جواب دیا ۔اچانک میرے دماغ میں ادھیڑ عمرعورت کا وہ جملہ ٹیسیں بھر نے لگا “امّی بڑی ہیں پہلے ان سے ملنا چاہئے ۔”میرے عقب سے آواز آئی ،پہلی رات تھپڑ پڑ گیا آگے کیا ہوگا ؟
“بس رخصتی دو”ا یک آواز بلند ہوئی ۔شائد وہ لڑکے والوں کی طرف سے کسی ذمہ دار شخص کی تھی ۔اب ڈریسنگ روم سے دلہن کو باہر لایا جا رہا تھا ہم تمام دوست کمرے سے کچھ دوری پر کھڑے تھے ۔دلہن کا چہرہ دیکھ کر میں ششدر رہ گیا ،کچھ دیر پہلے موم کی گڑ یا دکھنے والی دلہن کے چہرے پر سرمہ پھیلا ہوا تھا ،نیلگوں عروسی لباس میں چند لمحات قبل وہ خوشی ،مسرت اور تسکین کا لاجواب مجسمہ دکھائی دے رہی تھی مگر اب اس کے نقوش سے اضطراب،پریشانی ،الجھن اور بے چارگی ٹپک رہی تھی ،بس وہ رو رہی تھی، مسلسل اس کے آنسو کاجل کے ساتھ مل کر اُسکا سفید چہرہ داغدار کر رہے تھے ،وہ آنسو ہر گز ماں باپ اور بہن بھائیوں کی جدائی میں نہیں گررہے تھے بلکہ اُن سے خوف ،گھبرا ہٹ اور بے چینی جھلک رہی تھی ،اُن آنسووٴں میں اس قدر بے بسی تھی کہ مجھ سے رہا نہ گیا اور میں شادی ہال کی دیوار کی طرف اپنے چہرے پر دونوں ہاتھ رکھ کر رونے لگا ۔چند لمحات بعدکچھ ہمت کی ،آستین سے آنسو صاف کئے، دوبارہ دلہن کی طرف پیش رفت کی مگر اس بار منظر اور بھی تکلیف دہ تھا ۔دولہن کا بڑا بھائی زوہیب اپنی بہن کو کوس رہا تھا ،دلہن کو اس کی غلطی کا احساس دلا رہا تھا اگرچہ اس کی ڈانٹ میں اپنائیت تھی ،اپنی بہن کا درد تھا مگر وہاں کوئی زوہیب کے جذبات کو سمجھنے والا نہیں تھا ۔جیسے جیسے زوہیب اپنی بہن پر محبت پھر ے لہجے میں چیختا ویسے ویسے دولہن کے آنسووٴں کی چھڑی اور موٹی ہوتی رہتی ،وہ اپنے بھائی کا چہرہ تکتے ہوئے ایسے رو رہی تھی جیسے کہنا چاہتی ہو “بھائی خدا کے واسطے میرا تماشہ مت بناوٴ ،بھائی چپ ہو جاوٴلوگ دیکھ رہے ہیں ،تم میرے بھائی ہو تم تو مجھے سمجھو”زوہیب کی آواز میں چھپے دکھ کو میں محسوس کر رہا تھا ۔۔۔اس کا دل کہہ رہا تھا”میری بہن میں تمہارا آشیاں تنکو ں کی طرح بکھرتا ہوا نہیں دیکھ سکتا،آج کی رات مجھ پر بھی بہت بھاری ہے ،میرے لئے بھی اس ساعت سانسیں لینابہت دشوار ہے ۔تم قصور وار ہو یا نہیں میں نہیں جانتا مگر یہ مردوں کا معاشرہ ہے ،مرد افضل ،بر تر اور بلند ہے چاہے وہ خطار ہی کیوں نہ ہو۔میری پیاری بہن مجھے معاف کر نا ” عدنا ن دل ہی دل میں اپنی چھوٹی بہن کی بلائیں لے رہا تھا مگر اس کی زبان پر الفاظ کچھ اور تھے “اب تک ہم نے تمہاری مانی ہے اب تمہیں ان کی ماننی ہو گی اور اگر تم نے ان کی نہ مانی تو سب کچھ ختم ہو جائے گا تم طوفان میں تنکے کی طرح بہہ جاوٴ گی ” مجھے یکدم احمرکی بات یاد آگئی “پسند کی شادی ہے دونوں نے ایک دوسرے سے محبت کی اور آج یہ اپنی محبت کی آخری منزل پر پہنچ کر سر خرو ہو جائیں گے”اب تک ہم نے تمہاری مانی اب تمہیں ان کی ماننی ہو گی “ان الفاظ سے مجھے لگا جیسے زوہیب کہہ رہا ہو کہ ہم نے تمہارے کہنے پر تمہاری پسند قبو ل کی اب تمہیں اپنی بات کا مان رکھنا ہو گا اور اس رشتے کو نبھا نا ہو گا”اچانک دولہن زوہیب کے گلے لگ گئی اور پھوٹ پھوٹ کر رونے لگی زوہیب نے بہن کے سر پر رکھا اور بھا ری قدموں سے پیچھے ہٹنے لگا ۔اب دولہن کی چھوٹی بہن اس بے جان جسم کو آہستہ آہستہ لے کر آگے بڑھ رہی تھی ،ایک نوعمر لڑکی قرآن پاک تھامے دلہن کے سر پر رکھنے کی کوشش کر رہی تھی مگر پست قد کے باعث قرآن ِ پاک دلہن کی پشت سے اوپر نہیں جا رہا تھا ،میں نے اس لڑکی کے ہاتھوں سے قرآن پاک لیااور دلہن کے سر پر رکھ کر خراماں خراماں چلنے لگا ،دلہن کی آہیں میرے دل میں سوئیاں چبھو رہی تھیں ،ہم اس کار کے قریب پہنچ رہے تھے جس میں دولہا موجود تھا ،مجھے کسی ان ہونی کا خطرہ کھائے جا رہا تھا مگر خبرنہیں تھی کہ وہاں قیامت کا منظر ہماری آنکھوں کے سامنے تیرنے والا ہے ۔جب ہم کار کے عین قریب پہنچے اور دلہن کو اگلی نشست پر بٹھا یا تب احسا س ہوا کہ دولہا کار میں بد حواس لیٹا ہوا ہے ،زوہیب کے ایک دوست نے دولہا کے گال سہلائے ،اس پر پانی کی چند بوندیں برسائیں تو اس نے آنکھیں کھولیں ۔دولہا کو کار سے نکالنے کے بعد اسے جوس پلا یا مگر وہ ایک بار پھر کپڑوں کی گٹھڑی کی طرح نیچے آگرا ۔دولہا کی بہن اُس کے ساتھ موجود تھی اور زارو قطار رو رہی تھی ،جب دولہا دوسری بار بے ہوش ہوا تو اس کی بہن کا چہرہ انگارے کی طرح سرخ ہو گیا ،وہ دوڑتی ہو ئی اپنی کسی عزیز ہ کے گلے لگی اور بھرا ئی ہو ئی آواز میں چیخ چیخ کرکہنے لگی “ہمارے بھائی کی پوری زندگی تبا ہ کر دی، ہمارا بھائی کے سوا اور کون ہے “ایک بار پھر میں خود پر ضبط نہ کر سکا قرآن پاک تھامے کار سے چند قدم دور اندھیرے میں نکل آیا ، میری آنکھوں سے ایک بار پھر اشکوں کی لڑی جاری ہو گئی، مجھے اُ ن الفاظ میں چھپا درد محسوس ہو رہا تھا اور دولہا کی بہن کی تکلیف کا دکھ بھی تھالیکن اس بار میرے آنسووٴں کی وجہ وہ احساس تھا کہ جب دلہن کے کانوں میں یہ الفاظ پڑے ہو نگے کہ “ہمارے بھائی کی پوری زندگی تبا ہ کردی “تو اس کے کلیجے پر کیسی چھریاں چلی ہو نگی ،اس کا دل کیسے خون کے آنسو رو یا ہو گا ،شادی کی پہلی رات اُس کے سینے میں کیسا آتش فشاں اُبل پڑا ہو گا ،
آنسوذرا خشک ہوئے تو میں کا ر کی جانب بڑھا اور قرآنِ پاک اگلی نشست پر بیٹھی ہو ئی دلہن کے سُپردکردیا۔قرآن پاک تھام کر وہ کہہ رہی تھی “میں اپنی ماں کی قسم کھا کر کہتی ہوں میں نے اِنہیں کچھ نہیں کہا دیکھو میرے ہاتھ میں قرآن ہے “گاڑی آہستہ آہستہ آگے بڑھنے لگی ۔۔۔مگر نئی نویلی دلہن کی وہ آہیں اور سسکیاں میرے کانوں میں اب بھی گھونج رہی ہیں ۔
بارات میں کئی دل دبو چ لینے والے واقعات ہوئے مگر میرے دماغ میں صرف ایک درد ٹیسیں لے رہا تھا ۔کون قصور وار تھا اور کون نہیں ۔۔۔اس بات سے قطع نظر ۔۔۔میں سوچ رہا تھا کہ یہ رات کسی عور ت کی زندگی میں مقدس ،پاک اور عظیم حیثیت رکھتی ہے ،اس رات جس عورت نے اتنے کڑوے ،تلخ اور کاٹ دار جملے سنیں ہو ں ،اتنادکھ جھیلا ہو ،یہ پوری رات اب وہ کس اذیت ،کرب اور تکلیف میں بتائے گی ،سسرال کی دہلیز پر قدم پڑنے کے بعد وہ دکھوں کی دیوی بن جائے گی اور سہاگ رات میں بارات کی پر چھائیاں اس کے دماغ پر کیسے ہتھوڑے چلائیں گی ،اب وہ دلہن عمر بھر لوگوں کے انگنت ،لچھے دار اور بھونڈے سوالوں کی بو جھاڑ میں تڑپتی رہی گی، اب وہ جب بھی ڈھول کی تھاپ پر کسی کو رقص کرتے دیکھے گی یا پھر ڈرم بجاتے ہوئے اُس کے دروازے پر کوئی فقیر بھیک کی غرض سے دستک دے گا اُس کا زخم ہرا ہو جائے گا ،جب کبھی اُس کی نگا ہوں کے سامنے سے نیلگوں رنگ کی شیروانی اور شرارہ گزرے گا اُسے وہ گلا گھونٹ دینے والی بارات یاد آجائے گی ،اپنی شادی میں چلنے والی موسیقی جب اُس کے کانوں میں پڑے گی تو وہ رس گھولنے کے بجائے زہر اُنڈیلنے کا سبب بنے گی ،اب وہ جب کسی دلہن کو بنتے ،سجتے ،سنورتے ملاحظہ کرے گی تو اسے اپنی بد قسمتی کی رات چھیڑنے ،تنگ کرنے اور منہ چڑا نے لگی گی ،کسی کی آنکھ میں پھیلا ہوا کاجل دیکھ کر اسے وہ وقت رُلانے لگے گا جب اُس رات کو گھر آنے کے بعد وہ آئینہ کے سامنے جھومر ،بُندے ،بالی دوپٹہ اُتار رہی تھی اور اُس کی آنکھوں سے سرمہ بہہ رہا تھا ،اب ہر بارات میں اُسے اپنا سیاہ چہرہ دکھائی دے گا،اب جب بھی کوئی عاشق مزاج محبت کی تعریف وتو صیف میں شاعرانہ انداز اپنائے گا تو اسے اپنی محبت پر شرمندگی ،کم مائیگی اور ندامت کا احساس ہو گا ،بر ی کا ہرجوڑا اس کی طبیعت پر جلتے تیل کی طرح چھینٹے بر سائے گا ، ماہ ِ رمضان میں قرآن ِ پاک کی تلاوت کے لئے جب وہ الماری کا پٹ کھول کر مقدس کتاب ہاتھوں میں لے گی اور اسے بوسہ دے گی تو اُسے پہلی بار اِس قرآن پاک کا تھامنا یاد آجائے گا اور وہ الفاظ بھی جب وہ رخصتی کے وقت کار میں بیٹھی ہو ئی چیخ چیخ کرروتے ہوئے اپنی بے گناہی کی گواہی دے رہی تھی “میں اپنی ماں کی قسم کھا کر کہتی ہوں میں نے اِنہیں کچھ نہیں کہا، دیکھومیرے ہاتھ میں قرآن ہے ” وہ بیس بر س کی دلہن اب کئی دھائیوں تک اِسی آگ میں جھلستی رہے گی تا وقت یہ کہ اس کی روح قفس ِعنصری سے پرواز نہ کر جائے۔
میں اپنے کمبل میں منہ ڈالے سو رہا تھا ۔ بجلی گئی ہوئی تھی اور کمرے میں اندھیرا تھا۔مجھ پر نیند کا غلبہ طاری تھا مگرمسلسل موبائل کی گھنٹی بج رہی تھی ۔فون اٹھا یا تو دوسری طرف سے احمر مدھم آواز میں حکم دے رہا تھا ۔جلدتیار ہو جاوٴ آج شاہ زیب کی بہن کی بارات ہے۔میں نے فون سنا اور پھر کمبل لپیٹ کر سو گیا ۔کچھ دیر بعد دروازے پر دستک ہوئی ۔باہر میرے نام کی صدائیں بلند ہو رہی تھیں ۔میں بھاری قدموں سے باہر گیا تو احمربزرگوں کی طر ح چلاّ یا ،کیا طریقہ ہے ایک گھنٹے پہلے تمہیں فون کیا تھا اب تک تیار نہیں ہوئے ۔طبیعت سست ہے کیا جانا ضروری ہے ؟ہاں یقینا ۔۔۔بالکل۔۔۔جا وٴ تیار ہو جا وٴ۔احمر کے کہنے پر میں نے ہاتھ منہ دھویا اوربے دلی سے کنگھی کر کے اس کے ساتھ چلا پڑا۔
میری طبیعت کچھ ناسازتھی مگر دوستوں کے ساتھ جلد دل بہل گیا ۔شادی ہال میں چاروں طرف چہل پہل تھی ،چھوٹے بچے اِدھر اُدھر دوڑ رہے تھے ،نوکر پانی کی ٹنکیوں میں پانی بھر رہے تھے ،پکوان باورچی خانے میں بر یانی اور زردے کی دیگیں ہلا رہے تھے ،معمر مرد سیاست پر گفتگو کر رہے تھے ، ادھیڑ عمر عورتیں ایک دوسرے کے لباس ،بال اور صورتیں تک رہی تھیں ،نوجوان لڑکیاں لڑکے ایک دوسرے کو کن کھیوں سے دیکھ رہے تھے ،ہمارا دوست شاہ زیب ،اُس کا بڑا بھائی زوہیب اوراُن دونوں کے والد سلیم چچا ہال کے انتظامات کا جائزہ لے رہے تھے ۔جبکہ ہم تمام دوست اپنی تصویریں اتار نے میں مگن تھے۔
دولہا اور دلہن کا نکا ح رسم حنا میں ہی پڑ ھا یا جا چکا تھا اس لئے بارات آتے ہی دیگو ں سے ڈھکن ہٹائے گئے اور کھانا کھو ل دیا گیا ،شاہ زیب ہمارا بچپن کا دوست تھا اس لئے ہم مہمانوں کی خدمت اور انہیں کھانا کھلا نے پر معمور تھے ،روایت کے مطابق لوگ کھانے پر پل پڑے اور منٹوں میں کھانا صاف ہو گیا ۔احمر ،فراز،رضا اور میں بھو کے شیر کی طرح تڑپ رہے تھے مگر حسب ِ روایت ہمیں تمام مہمانوں کے بعد کھانا تناول کر نا تھا ،کھا پی کر لوگ ہال سے رخصت ہو رہے تھے ،رات کا تقریبا ً ایک بج رہا تھا ،دولہا اور دلہن کا کھانا بھی اسٹیج کی میز پر سج چکا تھا ،وہ دونوں بہت خوبصورت لگ رہے تھے ،نوجوان جوڑی کی ہم تمام دوست تعریف کر رہے تھے،احمرکے دل میں لطف و سرور کے جذبات امنڈ رہے تھے ،اسے ہر شادی میں دس بارہ لڑکیاں پسند آیا کرتی تھیں مگر اس شادی میں وہ اپنا کوٹہ پور اکرنے سے محروم رہا تھا کیونکہ وہ ہمارے ساتھ خدمت گزاری اور مہمانوں کو کھانا کھلانے میں مصروف رہاتھا ۔فرازبھوک سے بلبلا رہا تھا ،رضاہماری تصویریں اتار رہا تھا جبکہ میں اپنے موبائل فون پر دن بھر کی خبریں پڑھنے میں منہمک تھا ،شاہ زیب اسٹیج کے نیچے رکھے ہو ئے ایک بڑے صوفے پر براجمان تھا اسی دوران فراز اس کے قریب پہنچا اور کہنے لگا “بھائی آنتیں قل پڑھتی ہیں کھانا کھلادے “شاہ زیب نے جواباً کہا “اب گھر جا کر کھائیں گے “فراز چونکا مگر وہ دم بھر کر رہ گیا ۔کئی مہمان ہال سے روانہ ہوچکے تھے اور کچھ آہستہ آہستہ رختِ سفر باندھ رہے تھے ،میں اور احمر محو گفتگو تھے اچانک ہم نے کئی افراد کو شادی ہال کے صدر دروازے کی طرف بھاگتے ہوئے دیکھا ۔جب میں نے لوگوں کو تیزقدم بھرتے ہوئے دیکھا تو یکدم مجھے بارہویں جماعت کی انگریز ی کتاب کا سبق “the day the dam broke” یاد آگیا اور میں احمر کو وہ کہانی سنانے لگا جس میں امریکی ریاست “اوہا ئیو”کے دوہزار افراد ڈیم ٹو ٹنے کی افواہ پر دوڑنے لگے تھے مگرمجھے کیا معلوم تھا کہ یہاں ڈیم بھی ٹو ٹا ہے اورپانی نے شہر کوڈبو بھی دیا ہے ۔جب رش بڑھ گیا تو احمر اورمیں نے بھی شادی ہال کے صدر دروازے کا رخ کیا جہاں ہم نے کسی خاتون کو کہتے سنا کہ لڑکی کو لڑکے نے تھپڑماردیا ہے ،ایک اور خاتون کی آواز میرے کانوں سے ٹکرائی “لڑکی نے ایسی بات کیوں کہی “ہمیں معلوم ہوا کہ دولہا گا ڑی کے اندر موجودہے ،وہ شادی ہال سے کیوں نکل آیا تھا اور اندورنِ خانہ اصل کہانی کیا تھی ہمیں کوئی خبر نہ تھی ، میں نے نظر اٹھائی تو دیکھاایک سرخ لباس میں ملبوس دوشیزہ دولہا کی کار سے روتی ہوئی بر آمد ہوئی اور اس ٹیبل کی طرف دوڑ لگانے لگی جہاں دولہا کا خاندان بیٹھا تھا ۔میں سمجھا شائد کسی لڑکے نے اِسی لڑکی کو تھپڑ مارا ہے ،میں نے اس لڑکی کا پیچھا کیا وہ سیدھی اُس کمرے میں گئی جہاں کھانا کھانے کے بعد دلہن دولہے کے ساتھ بیٹھی ہوئی تھی ،میں کمرے میں جانے سے قاصر تھا اِس لئے اُس حنا ما لیدہ ہاتھوں والی دوشیزہ کا انتظار کرنے لگا ۔سرخ لباس والی لڑکی کی آنکھوں سے آنسو گر رہے تھے اور وہ کہہ رہی تھی “اس گھر میں ایسا ہی ہو تا ہے۔”میں سوچ میں پڑ گیا کہ یہ کس گھر کی بات کر رہی ہے ؟
وہ لڑکی دولہا کی بہن تھی کیوں کہ جب شاہ زیب ،احمر،رضا، فراز اور میں کار کے سامنے رسم اداکررہے تھے تو وہ خوب چہک رہی تھی اورہم ا ُس کو کھلونا سمجھ کر اس میں وقفے وقفے سے چا بیاں بھر رہے تھے ۔مجھے گمان ہوا کہ شایددولہا کی بہن کو دولہا یا کسی اور نے کسی نازیبا حرکت پر تھپڑمارا ہوپھر میں ا س لڑکی سے اور قریب ہو گیا وہ ایک ادھیڑ عمر عورت کے پاس جاکر اسے دھیمی آواز میں کچھ کہہ رہی تھی ، میں اس لڑکی کی بات نہ سن سکا ۔ اس لڑکی کی پیٹھ میری طرف تھی البتہ ادھیڑ عمر عورت کے میں عین سامنے موجود تھا وہ عورت کہہ رہی تھی “امی بڑی ہیں پہلے اُن سے ملنا چاہئے “اب مجھے کچھ کچھ بات سمجھ آرہی تھی ،دھندلی تصویر کچھ واضح ہو رہی تھی ،مجھے لگا غالباً دولہے کی والدہ اس شادی سے رضامند نہ ہو ں اور دولہا ماں کی رضامندی حاصل کرنے کے لئے دولہن کو اپنے ساتھ ماں کے پاس لیجانے کا خواہش مند ہو ۔اُس نے سوچا ہو کہ ماں کے قدموں میں دو چار آنسوگرائے گا اور ماں کا دل موم کی طرح پگل جائے گا جس پر دولہن نے اعتراض کیا ہو اورنتیجتاً وہ دونوں اُلجھ پڑے ہوں اور اِس واقعہ کو لوگوں کی زبان نے ہوا دیکر تھپڑ تک پہنچا دیا ہو۔میری تشویش بڑھتی جارہی تھی دراصل میں ہی نہیں بلکہ بارا ت میں شریک ہر شخص اضطراب ،الجھن اور پریشانی کا شکار تھا ۔ہر کوئی جانناچاہتا تھا کہ ماجرا کیا ہے مگر کسی کو کچھ خبر نہ تھی ۔فراز شاہ زیب کے ساتھ تھا لہٰذا میں نے ہال میں فرازکی تلاش شروع کی اور اس سے استفسار کیا :”تمہیں کچھ معلوم ہوا؟ “دولہا نے دولہن کو تھپڑ مار دیا ہے ۔کیا ؟میں حیرت زدہ رہ گیا ۔”ہاں یا ریہ درد ناک واقعہ ہو چکا ہے “میں نے دولہا کو کہتے سنا کہ مجھے یہ شادی نہیں کر نی ۔” میرے پاوٴں تلے سے زمین نکل گئی اور دل بیٹھ گیا ،ابھی میں اورفرازمحو گفتگو تھے کہ ہمیں کسی بوڑھے آدمی کے چلانے کی آوازیں سنائی دیں “ہم کسی سے دبیں گے نہیں ،بیٹی بیاہی ہے بیچی نہیں ہے،بارات لے جاتے ہیں تو لے جائیں ،کوئی یہ نہ سمجھے کہ وہ ہمیں جھکا لے گا “نظریں اٹھا کر دیکھا تو سلیم چچا چلا رہے تھے ۔اچانک اُن کا بڑا بیٹا زوہیب آگیا اور اس نے اپنے عمر رسیدہ باپ کے منہ پر ہاتھ رکھ کر انہیں چپ کر ادیا ۔اُس کے بعد سلیم چچا مجھے ہال میں کہیں نظر نہ آئے ۔احمر اورفراز میرے قریب آئے اور کہنے لگے!مسئلہ سنگین ہے ۔۔۔کیا ہوا ؟میں نے اضطراب سے پوچھا ۔”دولہا کی ماں” کو ما ” میں ہی اور کافی عرصے سے علیل ہے کئی ہسپتال جواب دے چکے ہیں مگر اِس آس پر دولہا نے اپنی والدہ کو شہر کے ایک مہنگے ہسپتال میں داخل کرا دیا کہ شائد اس کی ماں جانبر ہو سکیں “احمرنے مزید کہا ،دولہا اور دلہن جب برا ئڈل روم میں فوٹو سیشن کرارہے تھے تو وہاں دولہا نے دولہن سے کہا کہ ہم پہلے ہسپتال امی کے پاس جائیں گے اورپھر اپنے گھر ،جس پر دولہن نے انکار کیا ۔اس مدعے پر دونوں میں تکرار ہوئی ، نتیجتاً دولہا ضبط نہ کر سکا اور اس نے دولہن کے منہ پر تھپڑ مار دیا ۔سورس کیا ہے ؟میں نے استفسار کیا :”اسے چھوڑوبس میں نے سنا ہے “احمر نے جواب دیا ۔اچانک میرے دماغ میں ادھیڑ عمرعورت کا وہ جملہ ٹیسیں بھر نے لگا “امّی بڑی ہیں پہلے ان سے ملنا چاہئے ۔”میرے عقب سے آواز آئی ،پہلی رات تھپڑ پڑ گیا آگے کیا ہوگا ؟
“بس رخصتی دو”ا یک آواز بلند ہوئی ۔شائد وہ لڑکے والوں کی طرف سے کسی ذمہ دار شخص کی تھی ۔اب ڈریسنگ روم سے دلہن کو باہر لایا جا رہا تھا ہم تمام دوست کمرے سے کچھ دوری پر کھڑے تھے ۔دلہن کا چہرہ دیکھ کر میں ششدر رہ گیا ،کچھ دیر پہلے موم کی گڑ یا دکھنے والی دلہن کے چہرے پر سرمہ پھیلا ہوا تھا ،نیلگوں عروسی لباس میں چند لمحات قبل وہ خوشی ،مسرت اور تسکین کا لاجواب مجسمہ دکھائی دے رہی تھی مگر اب اس کے نقوش سے اضطراب،پریشانی ،الجھن اور بے چارگی ٹپک رہی تھی ،بس وہ رو رہی تھی، مسلسل اس کے آنسو کاجل کے ساتھ مل کر اُسکا سفید چہرہ داغدار کر رہے تھے ،وہ آنسو ہر گز ماں باپ اور بہن بھائیوں کی جدائی میں نہیں گررہے تھے بلکہ اُن سے خوف ،گھبرا ہٹ اور بے چینی جھلک رہی تھی ،اُن آنسووٴں میں اس قدر بے بسی تھی کہ مجھ سے رہا نہ گیا اور میں شادی ہال کی دیوار کی طرف اپنے چہرے پر دونوں ہاتھ رکھ کر رونے لگا ۔چند لمحات بعدکچھ ہمت کی ،آستین سے آنسو صاف کئے، دوبارہ دلہن کی طرف پیش رفت کی مگر اس بار منظر اور بھی تکلیف دہ تھا ۔دولہن کا بڑا بھائی زوہیب اپنی بہن کو کوس رہا تھا ،دلہن کو اس کی غلطی کا احساس دلا رہا تھا اگرچہ اس کی ڈانٹ میں اپنائیت تھی ،اپنی بہن کا درد تھا مگر وہاں کوئی زوہیب کے جذبات کو سمجھنے والا نہیں تھا ۔جیسے جیسے زوہیب اپنی بہن پر محبت پھر ے لہجے میں چیختا ویسے ویسے دولہن کے آنسووٴں کی چھڑی اور موٹی ہوتی رہتی ،وہ اپنے بھائی کا چہرہ تکتے ہوئے ایسے رو رہی تھی جیسے کہنا چاہتی ہو “بھائی خدا کے واسطے میرا تماشہ مت بناوٴ ،بھائی چپ ہو جاوٴلوگ دیکھ رہے ہیں ،تم میرے بھائی ہو تم تو مجھے سمجھو”زوہیب کی آواز میں چھپے دکھ کو میں محسوس کر رہا تھا ۔۔۔اس کا دل کہہ رہا تھا”میری بہن میں تمہارا آشیاں تنکو ں کی طرح بکھرتا ہوا نہیں دیکھ سکتا،آج کی رات مجھ پر بھی بہت بھاری ہے ،میرے لئے بھی اس ساعت سانسیں لینابہت دشوار ہے ۔تم قصور وار ہو یا نہیں میں نہیں جانتا مگر یہ مردوں کا معاشرہ ہے ،مرد افضل ،بر تر اور بلند ہے چاہے وہ خطار ہی کیوں نہ ہو۔میری پیاری بہن مجھے معاف کر نا ” عدنا ن دل ہی دل میں اپنی چھوٹی بہن کی بلائیں لے رہا تھا مگر اس کی زبان پر الفاظ کچھ اور تھے “اب تک ہم نے تمہاری مانی ہے اب تمہیں ان کی ماننی ہو گی اور اگر تم نے ان کی نہ مانی تو سب کچھ ختم ہو جائے گا تم طوفان میں تنکے کی طرح بہہ جاوٴ گی ” مجھے یکدم احمرکی بات یاد آگئی “پسند کی شادی ہے دونوں نے ایک دوسرے سے محبت کی اور آج یہ اپنی محبت کی آخری منزل پر پہنچ کر سر خرو ہو جائیں گے”اب تک ہم نے تمہاری مانی اب تمہیں ان کی ماننی ہو گی “ان الفاظ سے مجھے لگا جیسے زوہیب کہہ رہا ہو کہ ہم نے تمہارے کہنے پر تمہاری پسند قبو ل کی اب تمہیں اپنی بات کا مان رکھنا ہو گا اور اس رشتے کو نبھا نا ہو گا”اچانک دولہن زوہیب کے گلے لگ گئی اور پھوٹ پھوٹ کر رونے لگی زوہیب نے بہن کے سر پر رکھا اور بھا ری قدموں سے پیچھے ہٹنے لگا ۔اب دولہن کی چھوٹی بہن اس بے جان جسم کو آہستہ آہستہ لے کر آگے بڑھ رہی تھی ،ایک نوعمر لڑکی قرآن پاک تھامے دلہن کے سر پر رکھنے کی کوشش کر رہی تھی مگر پست قد کے باعث قرآن ِ پاک دلہن کی پشت سے اوپر نہیں جا رہا تھا ،میں نے اس لڑکی کے ہاتھوں سے قرآن پاک لیااور دلہن کے سر پر رکھ کر خراماں خراماں چلنے لگا ،دلہن کی آہیں میرے دل میں سوئیاں چبھو رہی تھیں ،ہم اس کار کے قریب پہنچ رہے تھے جس میں دولہا موجود تھا ،مجھے کسی ان ہونی کا خطرہ کھائے جا رہا تھا مگر خبرنہیں تھی کہ وہاں قیامت کا منظر ہماری آنکھوں کے سامنے تیرنے والا ہے ۔جب ہم کار کے عین قریب پہنچے اور دلہن کو اگلی نشست پر بٹھا یا تب احسا س ہوا کہ دولہا کار میں بد حواس لیٹا ہوا ہے ،زوہیب کے ایک دوست نے دولہا کے گال سہلائے ،اس پر پانی کی چند بوندیں برسائیں تو اس نے آنکھیں کھولیں ۔دولہا کو کار سے نکالنے کے بعد اسے جوس پلا یا مگر وہ ایک بار پھر کپڑوں کی گٹھڑی کی طرح نیچے آگرا ۔دولہا کی بہن اُس کے ساتھ موجود تھی اور زارو قطار رو رہی تھی ،جب دولہا دوسری بار بے ہوش ہوا تو اس کی بہن کا چہرہ انگارے کی طرح سرخ ہو گیا ،وہ دوڑتی ہو ئی اپنی کسی عزیز ہ کے گلے لگی اور بھرا ئی ہو ئی آواز میں چیخ چیخ کرکہنے لگی “ہمارے بھائی کی پوری زندگی تبا ہ کر دی، ہمارا بھائی کے سوا اور کون ہے “ایک بار پھر میں خود پر ضبط نہ کر سکا قرآن پاک تھامے کار سے چند قدم دور اندھیرے میں نکل آیا ، میری آنکھوں سے ایک بار پھر اشکوں کی لڑی جاری ہو گئی، مجھے اُ ن الفاظ میں چھپا درد محسوس ہو رہا تھا اور دولہا کی بہن کی تکلیف کا دکھ بھی تھالیکن اس بار میرے آنسووٴں کی وجہ وہ احساس تھا کہ جب دلہن کے کانوں میں یہ الفاظ پڑے ہو نگے کہ “ہمارے بھائی کی پوری زندگی تبا ہ کردی “تو اس کے کلیجے پر کیسی چھریاں چلی ہو نگی ،اس کا دل کیسے خون کے آنسو رو یا ہو گا ،شادی کی پہلی رات اُس کے سینے میں کیسا آتش فشاں اُبل پڑا ہو گا ،
آنسوذرا خشک ہوئے تو میں کا ر کی جانب بڑھا اور قرآنِ پاک اگلی نشست پر بیٹھی ہو ئی دلہن کے سُپردکردیا۔قرآن پاک تھام کر وہ کہہ رہی تھی “میں اپنی ماں کی قسم کھا کر کہتی ہوں میں نے اِنہیں کچھ نہیں کہا دیکھو میرے ہاتھ میں قرآن ہے “گاڑی آہستہ آہستہ آگے بڑھنے لگی ۔۔۔مگر نئی نویلی دلہن کی وہ آہیں اور سسکیاں میرے کانوں میں اب بھی گھونج رہی ہیں ۔
بارات میں کئی دل دبو چ لینے والے واقعات ہوئے مگر میرے دماغ میں صرف ایک درد ٹیسیں لے رہا تھا ۔کون قصور وار تھا اور کون نہیں ۔۔۔اس بات سے قطع نظر ۔۔۔میں سوچ رہا تھا کہ یہ رات کسی عور ت کی زندگی میں مقدس ،پاک اور عظیم حیثیت رکھتی ہے ،اس رات جس عورت نے اتنے کڑوے ،تلخ اور کاٹ دار جملے سنیں ہو ں ،اتنادکھ جھیلا ہو ،یہ پوری رات اب وہ کس اذیت ،کرب اور تکلیف میں بتائے گی ،سسرال کی دہلیز پر قدم پڑنے کے بعد وہ دکھوں کی دیوی بن جائے گی اور سہاگ رات میں بارات کی پر چھائیاں اس کے دماغ پر کیسے ہتھوڑے چلائیں گی ،اب وہ دلہن عمر بھر لوگوں کے انگنت ،لچھے دار اور بھونڈے سوالوں کی بو جھاڑ میں تڑپتی رہی گی، اب وہ جب بھی ڈھول کی تھاپ پر کسی کو رقص کرتے دیکھے گی یا پھر ڈرم بجاتے ہوئے اُس کے دروازے پر کوئی فقیر بھیک کی غرض سے دستک دے گا اُس کا زخم ہرا ہو جائے گا ،جب کبھی اُس کی نگا ہوں کے سامنے سے نیلگوں رنگ کی شیروانی اور شرارہ گزرے گا اُسے وہ گلا گھونٹ دینے والی بارات یاد آجائے گی ،اپنی شادی میں چلنے والی موسیقی جب اُس کے کانوں میں پڑے گی تو وہ رس گھولنے کے بجائے زہر اُنڈیلنے کا سبب بنے گی ،اب وہ جب کسی دلہن کو بنتے ،سجتے ،سنورتے ملاحظہ کرے گی تو اسے اپنی بد قسمتی کی رات چھیڑنے ،تنگ کرنے اور منہ چڑا نے لگی گی ،کسی کی آنکھ میں پھیلا ہوا کاجل دیکھ کر اسے وہ وقت رُلانے لگے گا جب اُس رات کو گھر آنے کے بعد وہ آئینہ کے سامنے جھومر ،بُندے ،بالی دوپٹہ اُتار رہی تھی اور اُس کی آنکھوں سے سرمہ بہہ رہا تھا ،اب ہر بارات میں اُسے اپنا سیاہ چہرہ دکھائی دے گا،اب جب بھی کوئی عاشق مزاج محبت کی تعریف وتو صیف میں شاعرانہ انداز اپنائے گا تو اسے اپنی محبت پر شرمندگی ،کم مائیگی اور ندامت کا احساس ہو گا ،بر ی کا ہرجوڑا اس کی طبیعت پر جلتے تیل کی طرح چھینٹے بر سائے گا ، ماہ ِ رمضان میں قرآن ِ پاک کی تلاوت کے لئے جب وہ الماری کا پٹ کھول کر مقدس کتاب ہاتھوں میں لے گی اور اسے بوسہ دے گی تو اُسے پہلی بار اِس قرآن پاک کا تھامنا یاد آجائے گا اور وہ الفاظ بھی جب وہ رخصتی کے وقت کار میں بیٹھی ہو ئی چیخ چیخ کرروتے ہوئے اپنی بے گناہی کی گواہی دے رہی تھی “میں اپنی ماں کی قسم کھا کر کہتی ہوں میں نے اِنہیں کچھ نہیں کہا، دیکھومیرے ہاتھ میں قرآن ہے ” وہ بیس بر س کی دلہن اب کئی دھائیوں تک اِسی آگ میں جھلستی رہے گی تا وقت یہ کہ اس کی روح قفس ِعنصری سے پرواز نہ کر جائے۔
میں اپنے کمبل میں منہ ڈالے سو رہا تھا ۔ بجلی گئی ہوئی تھی اور کمرے میں اندھیرا تھا۔مجھ پر نیند کا غلبہ طاری تھا مگرمسلسل موبائل کی گھنٹی بج رہی تھی ۔فون اٹھا یا تو دوسری طرف سے احمر مدھم آواز میں حکم دے رہا تھا ۔جلدتیار ہو جاوٴ آج شاہ زیب کی بہن کی بارات ہے۔میں نے فون سنا اور پھر کمبل لپیٹ کر سو گیا ۔کچھ دیر بعد دروازے پر دستک ہوئی ۔باہر میرے نام کی صدائیں بلند ہو رہی تھیں ۔میں بھاری قدموں سے باہر گیا تو احمربزرگوں کی طر ح چلاّ یا ،کیا طریقہ ہے ایک گھنٹے پہلے تمہیں فون کیا تھا اب تک تیار نہیں ہوئے ۔طبیعت سست ہے کیا جانا ضروری ہے ؟ہاں یقینا ۔۔۔بالکل۔۔۔جا وٴ تیار ہو جا وٴ۔احمر کے کہنے پر میں نے ہاتھ منہ دھویا اوربے دلی سے کنگھی کر کے اس کے ساتھ چلا پڑا۔
میری طبیعت کچھ ناسازتھی مگر دوستوں کے ساتھ جلد دل بہل گیا ۔شادی ہال میں چاروں طرف چہل پہل تھی ،چھوٹے بچے اِدھر اُدھر دوڑ رہے تھے ،نوکر پانی کی ٹنکیوں میں پانی بھر رہے تھے ،پکوان باورچی خانے میں بر یانی اور زردے کی دیگیں ہلا رہے تھے ،معمر مرد سیاست پر گفتگو کر رہے تھے ، ادھیڑ عمر عورتیں ایک دوسرے کے لباس ،بال اور صورتیں تک رہی تھیں ،نوجوان لڑکیاں لڑکے ایک دوسرے کو کن کھیوں سے دیکھ رہے تھے ،ہمارا دوست شاہ زیب ،اُس کا بڑا بھائی زوہیب اوراُن دونوں کے والد سلیم چچا ہال کے انتظامات کا جائزہ لے رہے تھے ۔جبکہ ہم تمام دوست اپنی تصویریں اتار نے میں مگن تھے۔
دولہا اور دلہن کا نکا ح رسم حنا میں ہی پڑ ھا یا جا چکا تھا اس لئے بارات آتے ہی دیگو ں سے ڈھکن ہٹائے گئے اور کھانا کھو ل دیا گیا ،شاہ زیب ہمارا بچپن کا دوست تھا اس لئے ہم مہمانوں کی خدمت اور انہیں کھانا کھلا نے پر معمور تھے ،روایت کے مطابق لوگ کھانے پر پل پڑے اور منٹوں میں کھانا صاف ہو گیا ۔احمر ،فراز،رضا اور میں بھو کے شیر کی طرح تڑپ رہے تھے مگر حسب ِ روایت ہمیں تمام مہمانوں کے بعد کھانا تناول کر نا تھا ،کھا پی کر لوگ ہال سے رخصت ہو رہے تھے ،رات کا تقریبا ً ایک بج رہا تھا ،دولہا اور دلہن کا کھانا بھی اسٹیج کی میز پر سج چکا تھا ،وہ دونوں بہت خوبصورت لگ رہے تھے ،نوجوان جوڑی کی ہم تمام دوست تعریف کر رہے تھے،احمرکے دل میں لطف و سرور کے جذبات امنڈ رہے تھے ،اسے ہر شادی میں دس بارہ لڑکیاں پسند آیا کرتی تھیں مگر اس شادی میں وہ اپنا کوٹہ پور اکرنے سے محروم رہا تھا کیونکہ وہ ہمارے ساتھ خدمت گزاری اور مہمانوں کو کھانا کھلانے میں مصروف رہاتھا ۔فرازبھوک سے بلبلا رہا تھا ،رضاہماری تصویریں اتار رہا تھا جبکہ میں اپنے موبائل فون پر دن بھر کی خبریں پڑھنے میں منہمک تھا ،شاہ زیب اسٹیج کے نیچے رکھے ہو ئے ایک بڑے صوفے پر براجمان تھا اسی دوران فراز اس کے قریب پہنچا اور کہنے لگا “بھائی آنتیں قل پڑھتی ہیں کھانا کھلادے “شاہ زیب نے جواباً کہا “اب گھر جا کر کھائیں گے “فراز چونکا مگر وہ دم بھر کر رہ گیا ۔کئی مہمان ہال سے روانہ ہوچکے تھے اور کچھ آہستہ آہستہ رختِ سفر باندھ رہے تھے ،میں اور احمر محو گفتگو تھے اچانک ہم نے کئی افراد کو شادی ہال کے صدر دروازے کی طرف بھاگتے ہوئے دیکھا ۔جب میں نے لوگوں کو تیزقدم بھرتے ہوئے دیکھا تو یکدم مجھے بارہویں جماعت کی انگریز ی کتاب کا سبق “the day the dam broke” یاد آگیا اور میں احمر کو وہ کہانی سنانے لگا جس میں امریکی ریاست “اوہا ئیو”کے دوہزار افراد ڈیم ٹو ٹنے کی افواہ پر دوڑنے لگے تھے مگرمجھے کیا معلوم تھا کہ یہاں ڈیم بھی ٹو ٹا ہے اورپانی نے شہر کوڈبو بھی دیا ہے ۔جب رش بڑھ گیا تو احمر اورمیں نے بھی شادی ہال کے صدر دروازے کا رخ کیا جہاں ہم نے کسی خاتون کو کہتے سنا کہ لڑکی کو لڑکے نے تھپڑماردیا ہے ،ایک اور خاتون کی آواز میرے کانوں سے ٹکرائی “لڑکی نے ایسی بات کیوں کہی “ہمیں معلوم ہوا کہ دولہا گا ڑی کے اندر موجودہے ،وہ شادی ہال سے کیوں نکل آیا تھا اور اندورنِ خانہ اصل کہانی کیا تھی ہمیں کوئی خبر نہ تھی ، میں نے نظر اٹھائی تو دیکھاایک سرخ لباس میں ملبوس دوشیزہ دولہا کی کار سے روتی ہوئی بر آمد ہوئی اور اس ٹیبل کی طرف دوڑ لگانے لگی جہاں دولہا کا خاندان بیٹھا تھا ۔میں سمجھا شائد کسی لڑکے نے اِسی لڑکی کو تھپڑ مارا ہے ،میں نے اس لڑکی کا پیچھا کیا وہ سیدھی اُس کمرے میں گئی جہاں کھانا کھانے کے بعد دلہن دولہے کے ساتھ بیٹھی ہوئی تھی ،میں کمرے میں جانے سے قاصر تھا اِس لئے اُس حنا ما لیدہ ہاتھوں والی دوشیزہ کا انتظار کرنے لگا ۔سرخ لباس والی لڑکی کی آنکھوں سے آنسو گر رہے تھے اور وہ کہہ رہی تھی “اس گھر میں ایسا ہی ہو تا ہے۔”میں سوچ میں پڑ گیا کہ یہ کس گھر کی بات کر رہی ہے ؟
وہ لڑکی دولہا کی بہن تھی کیوں کہ جب شاہ زیب ،احمر،رضا، فراز اور میں کار کے سامنے رسم اداکررہے تھے تو وہ خوب چہک رہی تھی اورہم ا ُس کو کھلونا سمجھ کر اس میں وقفے وقفے سے چا بیاں بھر رہے تھے ۔مجھے گمان ہوا کہ شایددولہا کی بہن کو دولہا یا کسی اور نے کسی نازیبا حرکت پر تھپڑمارا ہوپھر میں ا س لڑکی سے اور قریب ہو گیا وہ ایک ادھیڑ عمر عورت کے پاس جاکر اسے دھیمی آواز میں کچھ کہہ رہی تھی ، میں اس لڑکی کی بات نہ سن سکا ۔ اس لڑکی کی پیٹھ میری طرف تھی البتہ ادھیڑ عمر عورت کے میں عین سامنے موجود تھا وہ عورت کہہ رہی تھی “امی بڑی ہیں پہلے اُن سے ملنا چاہئے “اب مجھے کچھ کچھ بات سمجھ آرہی تھی ،دھندلی تصویر کچھ واضح ہو رہی تھی ،مجھے لگا غالباً دولہے کی والدہ اس شادی سے رضامند نہ ہو ں اور دولہا ماں کی رضامندی حاصل کرنے کے لئے دولہن کو اپنے ساتھ ماں کے پاس لیجانے کا خواہش مند ہو ۔اُس نے سوچا ہو کہ ماں کے قدموں میں دو چار آنسوگرائے گا اور ماں کا دل موم کی طرح پگل جائے گا جس پر دولہن نے اعتراض کیا ہو اورنتیجتاً وہ دونوں اُلجھ پڑے ہوں اور اِس واقعہ کو لوگوں کی زبان نے ہوا دیکر تھپڑ تک پہنچا دیا ہو۔میری تشویش بڑھتی جارہی تھی دراصل میں ہی نہیں بلکہ بارا ت میں شریک ہر شخص اضطراب ،الجھن اور پریشانی کا شکار تھا ۔ہر کوئی جانناچاہتا تھا کہ ماجرا کیا ہے مگر کسی کو کچھ خبر نہ تھی ۔فراز شاہ زیب کے ساتھ تھا لہٰذا میں نے ہال میں فرازکی تلاش شروع کی اور اس سے استفسار کیا :”تمہیں کچھ معلوم ہوا؟ “دولہا نے دولہن کو تھپڑ مار دیا ہے ۔کیا ؟میں حیرت زدہ رہ گیا ۔”ہاں یا ریہ درد ناک واقعہ ہو چکا ہے “میں نے دولہا کو کہتے سنا کہ مجھے یہ شادی نہیں کر نی ۔” میرے پاوٴں تلے سے زمین نکل گئی اور دل بیٹھ گیا ،ابھی میں اورفرازمحو گفتگو تھے کہ ہمیں کسی بوڑھے آدمی کے چلانے کی آوازیں سنائی دیں “ہم کسی سے دبیں گے نہیں ،بیٹی بیاہی ہے بیچی نہیں ہے،بارات لے جاتے ہیں تو لے جائیں ،کوئی یہ نہ سمجھے کہ وہ ہمیں جھکا لے گا “نظریں اٹھا کر دیکھا تو سلیم چچا چلا رہے تھے ۔اچانک اُن کا بڑا بیٹا زوہیب آگیا اور اس نے اپنے عمر رسیدہ باپ کے منہ پر ہاتھ رکھ کر انہیں چپ کر ادیا ۔اُس کے بعد سلیم چچا مجھے ہال میں کہیں نظر نہ آئے ۔احمر اورفراز میرے قریب آئے اور کہنے لگے!مسئلہ سنگین ہے ۔۔۔کیا ہوا ؟میں نے اضطراب سے پوچھا ۔”دولہا کی ماں” کو ما ” میں ہی اور کافی عرصے سے علیل ہے کئی ہسپتال جواب دے چکے ہیں مگر اِس آس پر دولہا نے اپنی والدہ کو شہر کے ایک مہنگے ہسپتال میں داخل کرا دیا کہ شائد اس کی ماں جانبر ہو سکیں “احمرنے مزید کہا ،دولہا اور دلہن جب برا ئڈل روم میں فوٹو سیشن کرارہے تھے تو وہاں دولہا نے دولہن سے کہا کہ ہم پہلے ہسپتال امی کے پاس جائیں گے اورپھر اپنے گھر ،جس پر دولہن نے انکار کیا ۔اس مدعے پر دونوں میں تکرار ہوئی ، نتیجتاً دولہا ضبط نہ کر سکا اور اس نے دولہن کے منہ پر تھپڑ مار دیا ۔سورس کیا ہے ؟میں نے استفسار کیا :”اسے چھوڑوبس میں نے سنا ہے “احمر نے جواب دیا ۔اچانک میرے دماغ میں ادھیڑ عمرعورت کا وہ جملہ ٹیسیں بھر نے لگا “امّی بڑی ہیں پہلے ان سے ملنا چاہئے ۔”میرے عقب سے آواز آئی ،پہلی رات تھپڑ پڑ گیا آگے کیا ہوگا ؟
“بس رخصتی دو”ا یک آواز بلند ہوئی ۔شائد وہ لڑکے والوں کی طرف سے کسی ذمہ دار شخص کی تھی ۔اب ڈریسنگ روم سے دلہن کو باہر لایا جا رہا تھا ہم تمام دوست کمرے سے کچھ دوری پر کھڑے تھے ۔دلہن کا چہرہ دیکھ کر میں ششدر رہ گیا ،کچھ دیر پہلے موم کی گڑ یا دکھنے والی دلہن کے چہرے پر سرمہ پھیلا ہوا تھا ،نیلگوں عروسی لباس میں چند لمحات قبل وہ خوشی ،مسرت اور تسکین کا لاجواب مجسمہ دکھائی دے رہی تھی مگر اب اس کے نقوش سے اضطراب،پریشانی ،الجھن اور بے چارگی ٹپک رہی تھی ،بس وہ رو رہی تھی، مسلسل اس کے آنسو کاجل کے ساتھ مل کر اُسکا سفید چہرہ داغدار کر رہے تھے ،وہ آنسو ہر گز ماں باپ اور بہن بھائیوں کی جدائی میں نہیں گررہے تھے بلکہ اُن سے خوف ،گھبرا ہٹ اور بے چینی جھلک رہی تھی ،اُن آنسووٴں میں اس قدر بے بسی تھی کہ مجھ سے رہا نہ گیا اور میں شادی ہال کی دیوار کی طرف اپنے چہرے پر دونوں ہاتھ رکھ کر رونے لگا ۔چند لمحات بعدکچھ ہمت کی ،آستین سے آنسو صاف کئے، دوبارہ دلہن کی طرف پیش رفت کی مگر اس بار منظر اور بھی تکلیف دہ تھا ۔دولہن کا بڑا بھائی زوہیب اپنی بہن کو کوس رہا تھا ،دلہن کو اس کی غلطی کا احساس دلا رہا تھا اگرچہ اس کی ڈانٹ میں اپنائیت تھی ،اپنی بہن کا درد تھا مگر وہاں کوئی زوہیب کے جذبات کو سمجھنے والا نہیں تھا ۔جیسے جیسے زوہیب اپنی بہن پر محبت پھر ے لہجے میں چیختا ویسے ویسے دولہن کے آنسووٴں کی چھڑی اور موٹی ہوتی رہتی ،وہ اپنے بھائی کا چہرہ تکتے ہوئے ایسے رو رہی تھی جیسے کہنا چاہتی ہو “بھائی خدا کے واسطے میرا تماشہ مت بناوٴ ،بھائی چپ ہو جاوٴلوگ دیکھ رہے ہیں ،تم میرے بھائی ہو تم تو مجھے سمجھو”زوہیب کی آواز میں چھپے دکھ کو میں محسوس کر رہا تھا ۔۔۔اس کا دل کہہ رہا تھا”میری بہن میں تمہارا آشیاں تنکو ں کی طرح بکھرتا ہوا نہیں دیکھ سکتا،آج کی رات مجھ پر بھی بہت بھاری ہے ،میرے لئے بھی اس ساعت سانسیں لینابہت دشوار ہے ۔تم قصور وار ہو یا نہیں میں نہیں جانتا مگر یہ مردوں کا معاشرہ ہے ،مرد افضل ،بر تر اور بلند ہے چاہے وہ خطار ہی کیوں نہ ہو۔میری پیاری بہن مجھے معاف کر نا ” عدنا ن دل ہی دل میں اپنی چھوٹی بہن کی بلائیں لے رہا تھا مگر اس کی زبان پر الفاظ کچھ اور تھے “اب تک ہم نے تمہاری مانی ہے اب تمہیں ان کی ماننی ہو گی اور اگر تم نے ان کی نہ مانی تو سب کچھ ختم ہو جائے گا تم طوفان میں تنکے کی طرح بہہ جاوٴ گی ” مجھے یکدم احمرکی بات یاد آگئی “پسند کی شادی ہے دونوں نے ایک دوسرے سے محبت کی اور آج یہ اپنی محبت کی آخری منزل پر پہنچ کر سر خرو ہو جائیں گے”اب تک ہم نے تمہاری مانی اب تمہیں ان کی ماننی ہو گی “ان الفاظ سے مجھے لگا جیسے زوہیب کہہ رہا ہو کہ ہم نے تمہارے کہنے پر تمہاری پسند قبو ل کی اب تمہیں اپنی بات کا مان رکھنا ہو گا اور اس رشتے کو نبھا نا ہو گا”اچانک دولہن زوہیب کے گلے لگ گئی اور پھوٹ پھوٹ کر رونے لگی زوہیب نے بہن کے سر پر رکھا اور بھا ری قدموں سے پیچھے ہٹنے لگا ۔اب دولہن کی چھوٹی بہن اس بے جان جسم کو آہستہ آہستہ لے کر آگے بڑھ رہی تھی ،ایک نوعمر لڑکی قرآن پاک تھامے دلہن کے سر پر رکھنے کی کوشش کر رہی تھی مگر پست قد کے باعث قرآن ِ پاک دلہن کی پشت سے اوپر نہیں جا رہا تھا ،میں نے اس لڑکی کے ہاتھوں سے قرآن پاک لیااور دلہن کے سر پر رکھ کر خراماں خراماں چلنے لگا ،دلہن کی آہیں میرے دل میں سوئیاں چبھو رہی تھیں ،ہم اس کار کے قریب پہنچ رہے تھے جس میں دولہا موجود تھا ،مجھے کسی ان ہونی کا خطرہ کھائے جا رہا تھا مگر خبرنہیں تھی کہ وہاں قیامت کا منظر ہماری آنکھوں کے سامنے تیرنے والا ہے ۔جب ہم کار کے عین قریب پہنچے اور دلہن کو اگلی نشست پر بٹھا یا تب احسا س ہوا کہ دولہا کار میں بد حواس لیٹا ہوا ہے ،زوہیب کے ایک دوست نے دولہا کے گال سہلائے ،اس پر پانی کی چند بوندیں برسائیں تو اس نے آنکھیں کھولیں ۔دولہا کو کار سے نکالنے کے بعد اسے جوس پلا یا مگر وہ ایک بار پھر کپڑوں کی گٹھڑی کی طرح نیچے آگرا ۔دولہا کی بہن اُس کے ساتھ موجود تھی اور زارو قطار رو رہی تھی ،جب دولہا دوسری بار بے ہوش ہوا تو اس کی بہن کا چہرہ انگارے کی طرح سرخ ہو گیا ،وہ دوڑتی ہو ئی اپنی کسی عزیز ہ کے گلے لگی اور بھرا ئی ہو ئی آواز میں چیخ چیخ کرکہنے لگی “ہمارے بھائی کی پوری زندگی تبا ہ کر دی، ہمارا بھائی کے سوا اور کون ہے “ایک بار پھر میں خود پر ضبط نہ کر سکا قرآن پاک تھامے کار سے چند قدم دور اندھیرے میں نکل آیا ، میری آنکھوں سے ایک بار پھر اشکوں کی لڑی جاری ہو گئی، مجھے اُ ن الفاظ میں چھپا درد محسوس ہو رہا تھا اور دولہا کی بہن کی تکلیف کا دکھ بھی تھالیکن اس بار میرے آنسووٴں کی وجہ وہ احساس تھا کہ جب دلہن کے کانوں میں یہ الفاظ پڑے ہو نگے کہ “ہمارے بھائی کی پوری زندگی تبا ہ کردی “تو اس کے کلیجے پر کیسی چھریاں چلی ہو نگی ،اس کا دل کیسے خون کے آنسو رو یا ہو گا ،شادی کی پہلی رات اُس کے سینے میں کیسا آتش فشاں اُبل پڑا ہو گا ،
آنسوذرا خشک ہوئے تو میں کا ر کی جانب بڑھا اور قرآنِ پاک اگلی نشست پر بیٹھی ہو ئی دلہن کے سُپردکردیا۔قرآن پاک تھام کر وہ کہہ رہی تھی “میں اپنی ماں کی قسم کھا کر کہتی ہوں میں نے اِنہیں کچھ نہیں کہا دیکھو میرے ہاتھ میں قرآن ہے “گاڑی آہستہ آہستہ آگے بڑھنے لگی ۔۔۔مگر نئی نویلی دلہن کی وہ آہیں اور سسکیاں میرے کانوں میں اب بھی گھونج رہی ہیں ۔
بارات میں کئی دل دبو چ لینے والے واقعات ہوئے مگر میرے دماغ میں صرف ایک درد ٹیسیں لے رہا تھا ۔کون قصور وار تھا اور کون نہیں ۔۔۔اس بات سے قطع نظر ۔۔۔میں سوچ رہا تھا کہ یہ رات کسی عور ت کی زندگی میں مقدس ،پاک اور عظیم حیثیت رکھتی ہے ،اس رات جس عورت نے اتنے کڑوے ،تلخ اور کاٹ دار جملے سنیں ہو ں ،اتنادکھ جھیلا ہو ،یہ پوری رات اب وہ کس اذیت ،کرب اور تکلیف میں بتائے گی ،سسرال کی دہلیز پر قدم پڑنے کے بعد وہ دکھوں کی دیوی بن جائے گی اور سہاگ رات میں بارات کی پر چھائیاں اس کے دماغ پر کیسے ہتھوڑے چلائیں گی ،اب وہ دلہن عمر بھر لوگوں کے انگنت ،لچھے دار اور بھونڈے سوالوں کی بو جھاڑ میں تڑپتی رہی گی، اب وہ جب بھی ڈھول کی تھاپ پر کسی کو رقص کرتے دیکھے گی یا پھر ڈرم بجاتے ہوئے اُس کے دروازے پر کوئی فقیر بھیک کی غرض سے دستک دے گا اُس کا زخم ہرا ہو جائے گا ،جب کبھی اُس کی نگا ہوں کے سامنے سے نیلگوں رنگ کی شیروانی اور شرارہ گزرے گا اُسے وہ گلا گھونٹ دینے والی بارات یاد آجائے گی ،اپنی شادی میں چلنے والی موسیقی جب اُس کے کانوں میں پڑے گی تو وہ رس گھولنے کے بجائے زہر اُنڈیلنے کا سبب بنے گی ،اب وہ جب کسی دلہن کو بنتے ،سجتے ،سنورتے ملاحظہ کرے گی تو اسے اپنی بد قسمتی کی رات چھیڑنے ،تنگ کرنے اور منہ چڑا نے لگی گی ،کسی کی آنکھ میں پھیلا ہوا کاجل دیکھ کر اسے وہ وقت رُلانے لگے گا جب اُس رات کو گھر آنے کے بعد وہ آئینہ کے سامنے جھومر ،بُندے ،بالی دوپٹہ اُتار رہی تھی اور اُس کی آنکھوں سے سرمہ بہہ رہا تھا ،اب ہر بارات میں اُسے اپنا سیاہ چہرہ دکھائی دے گا،اب جب بھی کوئی عاشق مزاج محبت کی تعریف وتو صیف میں شاعرانہ انداز اپنائے گا تو اسے اپنی محبت پر شرمندگی ،کم مائیگی اور ندامت کا احساس ہو گا ،بر ی کا ہرجوڑا اس کی طبیعت پر جلتے تیل کی طرح چھینٹے بر سائے گا ، ماہ ِ رمضان میں قرآن ِ پاک کی تلاوت کے لئے جب وہ الماری کا پٹ کھول کر مقدس کتاب ہاتھوں میں لے گی اور اسے بوسہ دے گی تو اُسے پہلی بار اِس قرآن پاک کا تھامنا یاد آجائے گا اور وہ الفاظ بھی جب وہ رخصتی کے وقت کار میں بیٹھی ہو ئی چیخ چیخ کرروتے ہوئے اپنی بے گناہی کی گواہی دے رہی تھی “میں اپنی ماں کی قسم کھا کر کہتی ہوں میں نے اِنہیں کچھ نہیں کہا، دیکھومیرے ہاتھ میں قرآن ہے ” وہ بیس بر س کی دلہن اب کئی دھائیوں تک اِسی آگ میں جھلستی رہے گی تا وقت یہ کہ اس کی روح قفس ِعنصری سے پرواز نہ کر جائے۔
میں اپنے کمبل میں منہ ڈالے سو رہا تھا ۔ بجلی گئی ہوئی تھی اور کمرے میں اندھیرا تھا۔مجھ پر نیند کا غلبہ طاری تھا مگرمسلسل موبائل کی گھنٹی بج رہی تھی ۔فون اٹھا یا تو دوسری طرف سے احمر مدھم آواز میں حکم دے رہا تھا ۔جلدتیار ہو جاوٴ آج شاہ زیب کی بہن کی بارات ہے۔میں نے فون سنا اور پھر کمبل لپیٹ کر سو گیا ۔کچھ دیر بعد دروازے پر دستک ہوئی ۔باہر میرے نام کی صدائیں بلند ہو رہی تھیں ۔میں بھاری قدموں سے باہر گیا تو احمربزرگوں کی طر ح چلاّ یا ،کیا طریقہ ہے ایک گھنٹے پہلے تمہیں فون کیا تھا اب تک تیار نہیں ہوئے ۔طبیعت سست ہے کیا جانا ضروری ہے ؟ہاں یقینا ۔۔۔بالکل۔۔۔جا وٴ تیار ہو جا وٴ۔احمر کے کہنے پر میں نے ہاتھ منہ دھویا اوربے دلی سے کنگھی کر کے اس کے ساتھ چلا پڑا۔
میری طبیعت کچھ ناسازتھی مگر دوستوں کے ساتھ جلد دل بہل گیا ۔شادی ہال میں چاروں طرف چہل پہل تھی ،چھوٹے بچے اِدھر اُدھر دوڑ رہے تھے ،نوکر پانی کی ٹنکیوں میں پانی بھر رہے تھے ،پکوان باورچی خانے میں بر یانی اور زردے کی دیگیں ہلا رہے تھے ،معمر مرد سیاست پر گفتگو کر رہے تھے ، ادھیڑ عمر عورتیں ایک دوسرے کے لباس ،بال اور صورتیں تک رہی تھیں ،نوجوان لڑکیاں لڑکے ایک دوسرے کو کن کھیوں سے دیکھ رہے تھے ،ہمارا دوست شاہ زیب ،اُس کا بڑا بھائی زوہیب اوراُن دونوں کے والد سلیم چچا ہال کے انتظامات کا جائزہ لے رہے تھے ۔جبکہ ہم تمام دوست اپنی تصویریں اتار نے میں مگن تھے۔
دولہا اور دلہن کا نکا ح رسم حنا میں ہی پڑ ھا یا جا چکا تھا اس لئے بارات آتے ہی دیگو ں سے ڈھکن ہٹائے گئے اور کھانا کھو ل دیا گیا ،شاہ زیب ہمارا بچپن کا دوست تھا اس لئے ہم مہمانوں کی خدمت اور انہیں کھانا کھلا نے پر معمور تھے ،روایت کے مطابق لوگ کھانے پر پل پڑے اور منٹوں میں کھانا صاف ہو گیا ۔احمر ،فراز،رضا اور میں بھو کے شیر کی طرح تڑپ رہے تھے مگر حسب ِ روایت ہمیں تمام مہمانوں کے بعد کھانا تناول کر نا تھا ،کھا پی کر لوگ ہال سے رخصت ہو رہے تھے ،رات کا تقریبا ً ایک بج رہا تھا ،دولہا اور دلہن کا کھانا بھی اسٹیج کی میز پر سج چکا تھا ،وہ دونوں بہت خوبصورت لگ رہے تھے ،نوجوان جوڑی کی ہم تمام دوست تعریف کر رہے تھے،احمرکے دل میں لطف و سرور کے جذبات امنڈ رہے تھے ،اسے ہر شادی میں دس بارہ لڑکیاں پسند آیا کرتی تھیں مگر اس شادی میں وہ اپنا کوٹہ پور اکرنے سے محروم رہا تھا کیونکہ وہ ہمارے ساتھ خدمت گزاری اور مہمانوں کو کھانا کھلانے میں مصروف رہاتھا ۔فرازبھوک سے بلبلا رہا تھا ،رضاہماری تصویریں اتار رہا تھا جبکہ میں اپنے موبائل فون پر دن بھر کی خبریں پڑھنے میں منہمک تھا ،شاہ زیب اسٹیج کے نیچے رکھے ہو ئے ایک بڑے صوفے پر براجمان تھا اسی دوران فراز اس کے قریب پہنچا اور کہنے لگا “بھائی آنتیں قل پڑھتی ہیں کھانا کھلادے “شاہ زیب نے جواباً کہا “اب گھر جا کر کھائیں گے “فراز چونکا مگر وہ دم بھر کر رہ گیا ۔کئی مہمان ہال سے روانہ ہوچکے تھے اور کچھ آہستہ آہستہ رختِ سفر باندھ رہے تھے ،میں اور احمر محو گفتگو تھے اچانک ہم نے کئی افراد کو شادی ہال کے صدر دروازے کی طرف بھاگتے ہوئے دیکھا ۔جب میں نے لوگوں کو تیزقدم بھرتے ہوئے دیکھا تو یکدم مجھے بارہویں جماعت کی انگریز ی کتاب کا سبق “the day the dam broke” یاد آگیا اور میں احمر کو وہ کہانی سنانے لگا جس میں امریکی ریاست “اوہا ئیو”کے دوہزار افراد ڈیم ٹو ٹنے کی افواہ پر دوڑنے لگے تھے مگرمجھے کیا معلوم تھا کہ یہاں ڈیم بھی ٹو ٹا ہے اورپانی نے شہر کوڈبو بھی دیا ہے ۔جب رش بڑھ گیا تو احمر اورمیں نے بھی شادی ہال کے صدر دروازے کا رخ کیا جہاں ہم نے کسی خاتون کو کہتے سنا کہ لڑکی کو لڑکے نے تھپڑماردیا ہے ،ایک اور خاتون کی آواز میرے کانوں سے ٹکرائی “لڑکی نے ایسی بات کیوں کہی “ہمیں معلوم ہوا کہ دولہا گا ڑی کے اندر موجودہے ،وہ شادی ہال سے کیوں نکل آیا تھا اور اندورنِ خانہ اصل کہانی کیا تھی ہمیں کوئی خبر نہ تھی ، میں نے نظر اٹھائی تو دیکھاایک سرخ لباس میں ملبوس دوشیزہ دولہا کی کار سے روتی ہوئی بر آمد ہوئی اور اس ٹیبل کی طرف دوڑ لگانے لگی جہاں دولہا کا خاندان بیٹھا تھا ۔میں سمجھا شائد کسی لڑکے نے اِسی لڑکی کو تھپڑ مارا ہے ،میں نے اس لڑکی کا پیچھا کیا وہ سیدھی اُس کمرے میں گئی جہاں کھانا کھانے کے بعد دلہن دولہے کے ساتھ بیٹھی ہوئی تھی ،میں کمرے میں جانے سے قاصر تھا اِس لئے اُس حنا ما لیدہ ہاتھوں والی دوشیزہ کا انتظار کرنے لگا ۔سرخ لباس والی لڑکی کی آنکھوں سے آنسو گر رہے تھے اور وہ کہہ رہی تھی “اس گھر میں ایسا ہی ہو تا ہے۔”میں سوچ میں پڑ گیا کہ یہ کس گھر کی بات کر رہی ہے ؟
وہ لڑکی دولہا کی بہن تھی کیوں کہ جب شاہ زیب ،احمر،رضا، فراز اور میں کار کے سامنے رسم اداکررہے تھے تو وہ خوب چہک رہی تھی اورہم ا ُس کو کھلونا سمجھ کر اس میں وقفے وقفے سے چا بیاں بھر رہے تھے ۔مجھے گمان ہوا کہ شایددولہا کی بہن کو دولہا یا کسی اور نے کسی نازیبا حرکت پر تھپڑمارا ہوپھر میں ا س لڑکی سے اور قریب ہو گیا وہ ایک ادھیڑ عمر عورت کے پاس جاکر اسے دھیمی آواز میں کچھ کہہ رہی تھی ، میں اس لڑکی کی بات نہ سن سکا ۔ اس لڑکی کی پیٹھ میری طرف تھی البتہ ادھیڑ عمر عورت کے میں عین سامنے موجود تھا وہ عورت کہہ رہی تھی “امی بڑی ہیں پہلے اُن سے ملنا چاہئے “اب مجھے کچھ کچھ بات سمجھ آرہی تھی ،دھندلی تصویر کچھ واضح ہو رہی تھی ،مجھے لگا غالباً دولہے کی والدہ اس شادی سے رضامند نہ ہو ں اور دولہا ماں کی رضامندی حاصل کرنے کے لئے دولہن کو اپنے ساتھ ماں کے پاس لیجانے کا خواہش مند ہو ۔اُس نے سوچا ہو کہ ماں کے قدموں میں دو چار آنسوگرائے گا اور ماں کا دل موم کی طرح پگل جائے گا جس پر دولہن نے اعتراض کیا ہو اورنتیجتاً وہ دونوں اُلجھ پڑے ہوں اور اِس واقعہ کو لوگوں کی زبان نے ہوا دیکر تھپڑ تک پہنچا دیا ہو۔میری تشویش بڑھتی جارہی تھی دراصل میں ہی نہیں بلکہ بارا ت میں شریک ہر شخص اضطراب ،الجھن اور پریشانی کا شکار تھا ۔ہر کوئی جانناچاہتا تھا کہ ماجرا کیا ہے مگر کسی کو کچھ خبر نہ تھی ۔فراز شاہ زیب کے ساتھ تھا لہٰذا میں نے ہال میں فرازکی تلاش شروع کی اور اس سے استفسار کیا :”تمہیں کچھ معلوم ہوا؟ “دولہا نے دولہن کو تھپڑ مار دیا ہے ۔کیا ؟میں حیرت زدہ رہ گیا ۔”ہاں یا ریہ درد ناک واقعہ ہو چکا ہے “میں نے دولہا کو کہتے سنا کہ مجھے یہ شادی نہیں کر نی ۔” میرے پاوٴں تلے سے زمین نکل گئی اور دل بیٹھ گیا ،ابھی میں اورفرازمحو گفتگو تھے کہ ہمیں کسی بوڑھے آدمی کے چلانے کی آوازیں سنائی دیں “ہم کسی سے دبیں گے نہیں ،بیٹی بیاہی ہے بیچی نہیں ہے،بارات لے جاتے ہیں تو لے جائیں ،کوئی یہ نہ سمجھے کہ وہ ہمیں جھکا لے گا “نظریں اٹھا کر دیکھا تو سلیم چچا چلا رہے تھے ۔اچانک اُن کا بڑا بیٹا زوہیب آگیا اور اس نے اپنے عمر رسیدہ باپ کے منہ پر ہاتھ رکھ کر انہیں چپ کر ادیا ۔اُس کے بعد سلیم چچا مجھے ہال میں کہیں نظر نہ آئے ۔احمر اورفراز میرے قریب آئے اور کہنے لگے!مسئلہ سنگین ہے ۔۔۔کیا ہوا ؟میں نے اضطراب سے پوچھا ۔”دولہا کی ماں” کو ما ” میں ہی اور کافی عرصے سے علیل ہے کئی ہسپتال جواب دے چکے ہیں مگر اِس آس پر دولہا نے اپنی والدہ کو شہر کے ایک مہنگے ہسپتال میں داخل کرا دیا کہ شائد اس کی ماں جانبر ہو سکیں “احمرنے مزید کہا ،دولہا اور دلہن جب برا ئڈل روم میں فوٹو سیشن کرارہے تھے تو وہاں دولہا نے دولہن سے کہا کہ ہم پہلے ہسپتال امی کے پاس جائیں گے اورپھر اپنے گھر ،جس پر دولہن نے انکار کیا ۔اس مدعے پر دونوں میں تکرار ہوئی ، نتیجتاً دولہا ضبط نہ کر سکا اور اس نے دولہن کے منہ پر تھپڑ مار دیا ۔سورس کیا ہے ؟میں نے استفسار کیا :”اسے چھوڑوبس میں نے سنا ہے “احمر نے جواب دیا ۔اچانک میرے دماغ میں ادھیڑ عمرعورت کا وہ جملہ ٹیسیں بھر نے لگا “امّی بڑی ہیں پہلے ان سے ملنا چاہئے ۔”میرے عقب سے آواز آئی ،پہلی رات تھپڑ پڑ گیا آگے کیا ہوگا ؟
“بس رخصتی دو”ا یک آواز بلند ہوئی ۔شائد وہ لڑکے والوں کی طرف سے کسی ذمہ دار شخص کی تھی ۔اب ڈریسنگ روم سے دلہن کو باہر لایا جا رہا تھا ہم تمام دوست کمرے سے کچھ دوری پر کھڑے تھے ۔دلہن کا چہرہ دیکھ کر میں ششدر رہ گیا ،کچھ دیر پہلے موم کی گڑ یا دکھنے والی دلہن کے چہرے پر سرمہ پھیلا ہوا تھا ،نیلگوں عروسی لباس میں چند لمحات قبل وہ خوشی ،مسرت اور تسکین کا لاجواب مجسمہ دکھائی دے رہی تھی مگر اب اس کے نقوش سے اضطراب،پریشانی ،الجھن اور بے چارگی ٹپک رہی تھی ،بس وہ رو رہی تھی، مسلسل اس کے آنسو کاجل کے ساتھ مل کر اُسکا سفید چہرہ داغدار کر رہے تھے ،وہ آنسو ہر گز ماں باپ اور بہن بھائیوں کی جدائی میں نہیں گررہے تھے بلکہ اُن سے خوف ،گھبرا ہٹ اور بے چینی جھلک رہی تھی ،اُن آنسووٴں میں اس قدر بے بسی تھی کہ مجھ سے رہا نہ گیا اور میں شادی ہال کی دیوار کی طرف اپنے چہرے پر دونوں ہاتھ رکھ کر رونے لگا ۔چند لمحات بعدکچھ ہمت کی ،آستین سے آنسو صاف کئے، دوبارہ دلہن کی طرف پیش رفت کی مگر اس بار منظر اور بھی تکلیف دہ تھا ۔دولہن کا بڑا بھائی زوہیب اپنی بہن کو کوس رہا تھا ،دلہن کو اس کی غلطی کا احساس دلا رہا تھا اگرچہ اس کی ڈانٹ میں اپنائیت تھی ،اپنی بہن کا درد تھا مگر وہاں کوئی زوہیب کے جذبات کو سمجھنے والا نہیں تھا ۔جیسے جیسے زوہیب اپنی بہن پر محبت پھر ے لہجے میں چیختا ویسے ویسے دولہن کے آنسووٴں کی چھڑی اور موٹی ہوتی رہتی ،وہ اپنے بھائی کا چہرہ تکتے ہوئے ایسے رو رہی تھی جیسے کہنا چاہتی ہو “بھائی خدا کے واسطے میرا تماشہ مت بناوٴ ،بھائی چپ ہو جاوٴلوگ دیکھ رہے ہیں ،تم میرے بھائی ہو تم تو مجھے سمجھو”زوہیب کی آواز میں چھپے دکھ کو میں محسوس کر رہا تھا ۔۔۔اس کا دل کہہ رہا تھا”میری بہن میں تمہارا آشیاں تنکو ں کی طرح بکھرتا ہوا نہیں دیکھ سکتا،آج کی رات مجھ پر بھی بہت بھاری ہے ،میرے لئے بھی اس ساعت سانسیں لینابہت دشوار ہے ۔تم قصور وار ہو یا نہیں میں نہیں جانتا مگر یہ مردوں کا معاشرہ ہے ،مرد افضل ،بر تر اور بلند ہے چاہے وہ خطار ہی کیوں نہ ہو۔میری پیاری بہن مجھے معاف کر نا ” عدنا ن دل ہی دل میں اپنی چھوٹی بہن کی بلائیں لے رہا تھا مگر اس کی زبان پر الفاظ کچھ اور تھے “اب تک ہم نے تمہاری مانی ہے اب تمہیں ان کی ماننی ہو گی اور اگر تم نے ان کی نہ مانی تو سب کچھ ختم ہو جائے گا تم طوفان میں تنکے کی طرح بہہ جاوٴ گی ” مجھے یکدم احمرکی بات یاد آگئی “پسند کی شادی ہے دونوں نے ایک دوسرے سے محبت کی اور آج یہ اپنی محبت کی آخری منزل پر پہنچ کر سر خرو ہو جائیں گے”اب تک ہم نے تمہاری مانی اب تمہیں ان کی ماننی ہو گی “ان الفاظ سے مجھے لگا جیسے زوہیب کہہ رہا ہو کہ ہم نے تمہارے کہنے پر تمہاری پسند قبو ل کی اب تمہیں اپنی بات کا مان رکھنا ہو گا اور اس رشتے کو نبھا نا ہو گا”اچانک دولہن زوہیب کے گلے لگ گئی اور پھوٹ پھوٹ کر رونے لگی زوہیب نے بہن کے سر پر رکھا اور بھا ری قدموں سے پیچھے ہٹنے لگا ۔اب دولہن کی چھوٹی بہن اس بے جان جسم کو آہستہ آہستہ لے کر آگے بڑھ رہی تھی ،ایک نوعمر لڑکی قرآن پاک تھامے دلہن کے سر پر رکھنے کی کوشش کر رہی تھی مگر پست قد کے باعث قرآن ِ پاک دلہن کی پشت سے اوپر نہیں جا رہا تھا ،میں نے اس لڑکی کے ہاتھوں سے قرآن پاک لیااور دلہن کے سر پر رکھ کر خراماں خراماں چلنے لگا ،دلہن کی آہیں میرے دل میں سوئیاں چبھو رہی تھیں ،ہم اس کار کے قریب پہنچ رہے تھے جس میں دولہا موجود تھا ،مجھے کسی ان ہونی کا خطرہ کھائے جا رہا تھا مگر خبرنہیں تھی کہ وہاں قیامت کا منظر ہماری آنکھوں کے سامنے تیرنے والا ہے ۔جب ہم کار کے عین قریب پہنچے اور دلہن کو اگلی نشست پر بٹھا یا تب احسا س ہوا کہ دولہا کار میں بد حواس لیٹا ہوا ہے ،زوہیب کے ایک دوست نے دولہا کے گال سہلائے ،اس پر پانی کی چند بوندیں برسائیں تو اس نے آنکھیں کھولیں ۔دولہا کو کار سے نکالنے کے بعد اسے جوس پلا یا مگر وہ ایک بار پھر کپڑوں کی گٹھڑی کی طرح نیچے آگرا ۔دولہا کی بہن اُس کے ساتھ موجود تھی اور زارو قطار رو رہی تھی ،جب دولہا دوسری بار بے ہوش ہوا تو اس کی بہن کا چہرہ انگارے کی طرح سرخ ہو گیا ،وہ دوڑتی ہو ئی اپنی کسی عزیز ہ کے گلے لگی اور بھرا ئی ہو ئی آواز میں چیخ چیخ کرکہنے لگی “ہمارے بھائی کی پوری زندگی تبا ہ کر دی، ہمارا بھائی کے سوا اور کون ہے “ایک بار پھر میں خود پر ضبط نہ کر سکا قرآن پاک تھامے کار سے چند قدم دور اندھیرے میں نکل آیا ، میری آنکھوں سے ایک بار پھر اشکوں کی لڑی جاری ہو گئی، مجھے اُ ن الفاظ میں چھپا درد محسوس ہو رہا تھا اور دولہا کی بہن کی تکلیف کا دکھ بھی تھالیکن اس بار میرے آنسووٴں کی وجہ وہ احساس تھا کہ جب دلہن کے کانوں میں یہ الفاظ پڑے ہو نگے کہ “ہمارے بھائی کی پوری زندگی تبا ہ کردی “تو اس کے کلیجے پر کیسی چھریاں چلی ہو نگی ،اس کا دل کیسے خون کے آنسو رو یا ہو گا ،شادی کی پہلی رات اُس کے سینے میں کیسا آتش فشاں اُبل پڑا ہو گا ،
آنسوذرا خشک ہوئے تو میں کا ر کی جانب بڑھا اور قرآنِ پاک اگلی نشست پر بیٹھی ہو ئی دلہن کے سُپردکردیا۔قرآن پاک تھام کر وہ کہہ رہی تھی “میں اپنی ماں کی قسم کھا کر کہتی ہوں میں نے اِنہیں کچھ نہیں کہا دیکھو میرے ہاتھ میں قرآن ہے “گاڑی آہستہ آہستہ آگے بڑھنے لگی ۔۔۔مگر نئی نویلی دلہن کی وہ آہیں اور سسکیاں میرے کانوں میں اب بھی گھونج رہی ہیں ۔
بارات میں کئی دل دبو چ لینے والے واقعات ہوئے مگر میرے دماغ میں صرف ایک درد ٹیسیں لے رہا تھا ۔کون قصور وار تھا اور کون نہیں ۔۔۔اس بات سے قطع نظر ۔۔۔میں سوچ رہا تھا کہ یہ رات کسی عور ت کی زندگی میں مقدس ،پاک اور عظیم حیثیت رکھتی ہے ،اس رات جس عورت نے اتنے کڑوے ،تلخ اور کاٹ دار جملے سنیں ہو ں ،اتنادکھ جھیلا ہو ،یہ پوری رات اب وہ کس اذیت ،کرب اور تکلیف میں بتائے گی ،سسرال کی دہلیز پر قدم پڑنے کے بعد وہ دکھوں کی دیوی بن جائے گی اور سہاگ رات میں بارات کی پر چھائیاں اس کے دماغ پر کیسے ہتھوڑے چلائیں گی ،اب وہ دلہن عمر بھر لوگوں کے انگنت ،لچھے دار اور بھونڈے سوالوں کی بو جھاڑ میں تڑپتی رہی گی، اب وہ جب بھی ڈھول کی تھاپ پر کسی کو رقص کرتے دیکھے گی یا پھر ڈرم بجاتے ہوئے اُس کے دروازے پر کوئی فقیر بھیک کی غرض سے دستک دے گا اُس کا زخم ہرا ہو جائے گا ،جب کبھی اُس کی نگا ہوں کے سامنے سے نیلگوں رنگ کی شیروانی اور شرارہ گزرے گا اُسے وہ گلا گھونٹ دینے والی بارات یاد آجائے گی ،اپنی شادی میں چلنے والی موسیقی جب اُس کے کانوں میں پڑے گی تو وہ رس گھولنے کے بجائے زہر اُنڈیلنے کا سبب بنے گی ،اب وہ جب کسی دلہن کو بنتے ،سجتے ،سنورتے ملاحظہ کرے گی تو اسے اپنی بد قسمتی کی رات چھیڑنے ،تنگ کرنے اور منہ چڑا نے لگی گی ،کسی کی آنکھ میں پھیلا ہوا کاجل دیکھ کر اسے وہ وقت رُلانے لگے گا جب اُس رات کو گھر آنے کے بعد وہ آئینہ کے سامنے جھومر ،بُندے ،بالی دوپٹہ اُتار رہی تھی اور اُس کی آنکھوں سے سرمہ بہہ رہا تھا ،اب ہر بارات میں اُسے اپنا سیاہ چہرہ دکھائی دے گا،اب جب بھی کوئی عاشق مزاج محبت کی تعریف وتو صیف میں شاعرانہ انداز اپنائے گا تو اسے اپنی محبت پر شرمندگی ،کم مائیگی اور ندامت کا احساس ہو گا ،بر ی کا ہرجوڑا اس کی طبیعت پر جلتے تیل کی طرح چھینٹے بر سائے گا ، ماہ ِ رمضان میں قرآن ِ پاک کی تلاوت کے لئے جب وہ الماری کا پٹ کھول کر مقدس کتاب ہاتھوں میں لے گی اور اسے بوسہ دے گی تو اُسے پہلی بار اِس قرآن پاک کا تھامنا یاد آجائے گا اور وہ الفاظ بھی جب وہ رخصتی کے وقت کار میں بیٹھی ہو ئی چیخ چیخ کرروتے ہوئے اپنی بے گناہی کی گواہی دے رہی تھی “میں اپنی ماں کی قسم کھا کر کہتی ہوں میں نے اِنہیں کچھ نہیں کہا، دیکھومیرے ہاتھ میں قرآن ہے ” وہ بیس بر س کی دلہن اب کئی دھائیوں تک اِسی آگ میں جھلستی رہے گی تا وقت یہ کہ اس کی روح قفس ِعنصری سے پرواز نہ کر جائے۔