کراچی کے نوجوان کیا سوچ رہے ہیں؟
انتخابات دوہزارتیرااوراٹھارہ میں شہرقائد کےباسیوں نے واقعی پی ٹی آئَی کو ووٹ دیئے تھے، سوال ہے کیوں؟دو بڑی وجوہات ہیں سب سے بڑی وجہ ہے “کرکٹ”۔کراچی کے نوجوانوں کا کرکٹ صرف پسندیدہ کھیل نہیں بلکہ جنون ہے، یہ اہم میچز میں دفتروں سے چھٹی کرلیتے ہیں، دفترجاتے بھی ہیں تو ٹی وی یا انٹرنیٹ پر میچ لگالیتے ہیں،بڑی شرطیں لگاتے ہیں، پاکستان کی فتح ہوتو چھتوں پر جشن مناتے ہیں۔ عمران خان ایک کرکٹ اسٹارتھے، ہماری نسل نے اپنے والدین سے اس ماہر آل راونڈرکی بہت تعریفیں سن رکھی تھیں، جب ہم وسیم اکرم اوریونس خان جیسے کپنانوں کی تعریف کرتے تو ہمارے والدین کہتے، تمہیں نہیں معلوم کپتان تو صرف ایک تھا”عمران خان”، اس سے اچھاکپتان کوئی آیا نہ آئے گا۔ ہم سوچتے یہ کون سی توپ تھا جو وسیم اکرم اوریونس خان سے بھی اچھا کپتان رہا ہوگا پھر دوہزارپانچ کے بعد انٹرنیٹ عام ہونے لگا، یوٹیوب پرعمران خان کی ویڈیوز وائرل ہونے لگیں، ہم جیسے نوجوان تو پہلے ہی اپنے والدین، رشتے دار ،محلے دار اوربزرگوں سے عمران خان کی تعریفیں سن چکے تھے، وہ سب عمران خان کو ہیروسمجھتے تھے ،پھر جب ہم یوٹیوب پرانہیں وکٹ اڑاتے دیکھتے تو تسلیم کرتے کہ کپتان اسی طرح ملک کے مسائل کو بھی کلین بولڈ کردے گا۔
جب ہم جیسے نوجوانوں کو آج سے آٹھ سال قبل دوہزارتیرا میں ووٹ ڈالنے کاموقع ملا تو کراچی کی گلیوں میں بلے کی دھوم مچ گئی، کچھ مناظر تو مجھے آج بھی یاد ہیں، گیارہ مئی دوہزار تیرا کی صبح تھی، میں نوبجے ووٹ ڈالنے گیاتو قطار اندرقطارمیرے دوست اورہم عمرنوجوان بلے پرٹھپہ لگانے کیلئے بے تاب تھے، ایسا جوش جو لفظوں میں بیان نہیں ہوسکتا، دوہزار تیراکے انتخابات تک ایم کیوایم بہت مضبوط تھی، لیکن نوجوان متحدہ کارکنان کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کرکہہ رہے تھے کہ ہماراووٹ بلے کا ہے، نوجوان بلے کو ووٹ ڈال کر آگئے، دوپہرکا ایک بجا تو یونٹ اورسیکٹرانچارج متحرک ہوئے، ہر حلقے سے بلے کے ووٹ پھاڑ دئیے گئے، کئی ووٹ ضائَع کردیئے گئے، پانچ بجے، نتیجہ آیا تو سب حیران تھے ، اس لئے ہر گز نہیں کہ تحریک انصاف جیتی نہیں تھی بلکہ اس لئے کہ پی ٹی آئی کو اتنی دھاندلی کے بعد بھی کراچی شہر سے تقریباً ساڑھے چھ لاکھ ووٹ ملے تھے، یہ حیران کن تھا، بہت ہی حیران کن، تحریک انصاف کے نوجوانوں نے دھاندلی کیخلاف آسمان سرپراٹھالیا۔ باقی تاریخ ہے۔
عمران خان کی شہرت کی دوسری وجہ “سوشل میڈیا” ہے، کراچی بڑا شہر ہے،دوہزار تیرا تک انٹرنیٹ آسانی سے میسرتھا،پچیس دسمبر دوہزارگیارہ کو عمران خان مزارقائد پرتقریربھی داغ چکے تھے، نوجوان سوشل میڈیا پر کپتان کی تقریرسنتے، انیس سوبانوے کا ورلڈ کپ دیکھتے اور دوہزار اٹھارہ کا بے تابی سے انتظار کرتے، کپتان نے دوہزار چودا سے ماحول بناناشروع کیااورچاربرس جم کر محنت کی۔ پچیس جولائی دوہزاراٹھارہ کاسورج پی ٹی آئی کی کامیابی لے کرطلوع ہوا،متحدہ کے سیاسی جسم سے بھی روح پروازکرچکی تھی، یوں پی ٹی آئی نے شہر سے اٹھارہ میں سے چودا نشستیں جیت لیں، یعنی اسی فیصد کراچی کپتان کا ہوگیا۔ دس لاکھ ووٹ کے ساتھ تحریک انصاف کراچی کی سب سے بڑی جماعت بن کر ابھری، شہر کے نوجوانوں نے نوافل اداکئے اورمتحدہ سے نجات پر سکھ کا سانس لیا۔ پی ٹی آئی نے حکومت بنائی، معیشت کو پٹڑی پرلانے کیلئے کوششیں کیں، آئی ایم ایف کا پروگرام لیا، قرضہ لیا، امداد لی،ملک کچھ بہتر ہوا، لیکن کراچی کیلئے کچھ نہیں ہوسکا۔ کراچی کے نوجوان سوچ رہے ہیں کہ کیا انہوں نے پی ٹی آئی کو ووٹ دے کر صحیح کیایانہیں؟
ڈھائی کروڑ کی آبادی کا شہر بے بسی کی تصویر بنا ہے، کراچی کے نوجوان سمجھتے ہیں کہ جیسے عمران خان نے ٹیم چلائی ویسے ملک نہیں چلا رہے، جیسے شوکت خانم چلایا ویسے کراچی نہیں چلایا، جیسی پلاننگ آپ نے انیس سوبانوے کے ورلڈ کپ میں کی تھی وہ انہیں دوہزاراٹھارہ کے بعد نظرنہیں آئی، البتہ آپ نے ایک امید کی کرن روشن کی ہے۔ پانچ ستمبر دوہزار بیس کو آپ کراچی آئےاورشہر کیلئے گیارہ سوتیراارب کے تاریخی پیکیج کا اعلان کردیا،آپ نے پانی کے منصوبوں کیلئے بانوے ارب ،صفائی اورمتاثرین کی آبادکاری کیلئے دوسوسرسٹھ ارب،ٹرانسپورٹ کیلئے پانچ سوبہترارب،سڑکیں ٹھیک کرنے کیلئے ایک سواکتالیس ارب، فلائی اوورزاورانڈرپاسزکیلئے اکتالیس ارب مختص کئے۔ مرادعلی شاہ کی سربراہی میں کمیٹی تشکیل دی ، اورکہا تمام رقم شہر پر تین برس میں خرچ کریں گے، آپ کے پاس ڈھائی سال رہ گئے ہیں،خداراکچھ کیجئے۔آپ کے ٹَائیگرزدوسراآپشن تلاش کررہے ہیں۔ آپ پیپلزپارٹی اوراتحادیوں کے ساتھ مل کر بیرون ملک پاکستانیوں کو ووٹ کا حق دے دیں گے، پنجاب سے نوازشریف کی سیاست کا خاتمہ کردیں گے، الیکٹرانک مشینوں کاجادوبھی چل جائے گا،اگلی بارآپ پھرحکومت میں آجائیں گے لیکن اس بارکراچی کچھ اورسوچ رہا ہے۔
اگرآپ نے کراچی کو وفا کا صلہ نہ دیا تو ہرگزہرگز شہر کے نوجوان آپ کو قطاروں میں لگ کر ووٹ نہیں دیں گے، ان کے سامنے ٹی ایل پی اورپی ایس پی کی شکل میں دوآپشن موجود ہیں، اورمتحدہ کے سیاسی جسم میں پھر روح آسکتی ہے،شہرکی جماعتیں آپ کے ووٹ بینک کو متاثر کررہی ہیں۔ این اے دوسوانچاس کی مثال سامنے ہے، جہاں سے آپ کوفتح ہوئی تھی وہاں آپ پانچویں نمبر پر ہیں، ٹی ایل پی اور پی ایس پی نے آپ سے زیادہ ووٹ لئے ہیں۔ آئندہ انتخابات میں اگر آپ کو کراچی کے نوجوانوں سے ووٹ چاہئیں تو شہر کیلئے کچھ کیجئے۔ اورہاں یادرکھئے جادوبھی ایک حد تک کام کرتا ہے، اگرسب کچھ جادوسے ممکن ہوتا توآج آپ نہیں بلکہ پرویزمشرف اقتدار میں ہوتے۔ زمینی حقائق بھی کسی چڑیاکانام ہے،بات سمجھیں وزیراعظم صاحب۔