1999ءکے اوائل میں ایک دن اچانک مجھے آفس میں یہ اطلاع دی گئی کہ میری نوکری ختم ہو چکی ہے کیونکہ جنگ گروپ ہمارے ڈپارٹمنٹ ”دی نیوز اِنفولائن“ کو ختم کر رہا تھا۔ البتہ اس اطلاع کے ساتھ ہی ہمیں مینجمنٹ کی طرف سے یہ تسلی بھی دی گئی کہ پریشان نہ ہوں، کچھ دن صبر کریں، جلد ہی ہمیں کسی دوسرے ڈپارٹمنٹ میں دوبارہ رکھ لیاجائے گا۔
میں سڑک پر آ گیا۔ کچھ پتہ نہیں تھا کہ کب دوبارہ ملازمت ملے گی۔ لیکن میں نے اس موقعے کو پریشانی میں ضائع کرنا مناسب نہ سمجھا اور اس وقفے کو تعطیل سمجھ کر بیوی بچوں کو گاڑی میں ساتھ لے کر کراچی سے باہر نکل آیا۔ منزل کیا ہوگی، یہ ذہن میں نہ تھا…. بس چل سو چل…. شہروں شہروں دوست احباب سے ملاقاتیں کرتے ہم ڈیرہ غازی خان تک پہنچ گئے اور یہاں ایک دو دن قیام کر کے کراچی واپس روانہ ہوئے۔
گھر واپس پہنچے تو اطلاع ملی کہ اخلاق صاحب کے کئی فون آ چکے ہیں۔ سابق ممبرسندھ اسمبلی اخلاق احمد مرحوم میرے بڑے کرم فرما تھے۔ وہ ایک فلاحی ادارے ”کارساز ٹرسٹ“ کے روحِ رواں تھے اور میں ان کی ڈاکومنٹری فلمیں بناتا تھا۔
میں نے فوراً اخلاق صاحب کو فون کیا۔
” کیوں میاں، نوکری کا کوئی انتظام ہوا؟“ وہ پوچھ رہے تھے۔
”ابھی تو کوئی پتہ نہیں اخلاق صاحب۔“ میں بولا۔
”تو پھر میں تمہیں ایک جگہ بھیج رہا ہوں۔ وہاں تمہارا انٹرویو ہوگا۔ “
میں اخلاق صاحب کے حکم کی تعمیل میں انٹرویو دینے پہنچ گیا۔ یہ ایک این جی او ” تعمیر ملت فاؤنڈیشن“ کا انٹرویو تھا۔ انہیں فاؤنڈیشن کیلئے ریجنل سیکریٹری چاہیے تھا۔ میں نے انٹرویو پینل کے سوالات کے مناسب جواب دیئے اور مجھے منتخب کر لیا گیا۔ تعمیر ملت فاؤنڈیشن کا ہیڈ آفس اسلام آباد میں تھا اور اس کے روحِ رواں شفاءہسپتال اسلام آباد کے سربراہ ڈاکٹر ظہیر مرحوم ہوا کرتے تھے۔
مجھےTMF جوائن کئے ابھی کچھ ہی دن ہوئے تھے کہ ڈاکٹر ظہیر ایک میٹنگ میں کراچی آئے اور مجھ سے بھی ملاقات ہوئی ۔ جب انہیں میری ڈاکومنٹری فلم میکنگ کے بارے میں پتہ چلا تو ان کی آنکھوں میں ایک چمک سی آئی اور پھر انہوں نے مجھے اسلام آباد میںاپنے ادارے میں ملازمت کی پیشکش کر دی۔ انہیں شفاءہسپتال اور اس کے میڈیکل کالج کیلئے ایک آڈیو ویژول انجینئر چاہئے تھا جس کیلئے ان کی نظر انتخاب مجھ پر پڑی تھی۔
انہوں نے میری موجودہ تنخواہ سے تین گنا زیادہ مشاہرے کی پیشکش کر دی۔ ڈاکٹر ظہیر کی پیشکش مجھے حیران و شاداں کر گئی۔میں تو ویسے ہی کراچی کے ہنگامی حالات سے تنگ تھا اور برسوں سے اسلام آباد منتقل ہونے کے خواب دیکھ رہا تھا۔ چنانچہ فوراً حامی بھر لی اور یکم جنوری 2001ءکے دن، جب بیسویں صدی کا اختتام اور اکیسویں صدی کا آغاز ہورہا تھا، میں کراچی سے اسلام آباد منتقل ہو گیا۔
پہلے پہل تو میں خود اکیلا ہی پہنچا تاکہ یہاں کوئی مناسب گھر کرائے پر تلاش کروں اور پھر کراچی سے فیملی کو یہاں بلاؤں۔ میں چاہتا تھا کہ شفاءہسپتال سے قریب ہی کوئی گھر مل جائے تاکہ آنے جانے میں آسانی رہے ، لیکن شفاءکے اطراف والے سیکٹرز میں گھر خاصے مہنگے تھے۔ ان دنوں اسلام آباد کا سب سے آخری سیکٹر جی الیونG-11 ہوا کرتا تھا۔
یہ سیکٹر ابھی پوری طرح آباد نہیں تھا۔ کئی پلاٹ ابھی خالی تھے اورسیکٹر کی مرکزی مارکیٹ بھی ابھی موجود نہیں تھی، اس لئے یہاں موجود گھروں کے کرائے کچھ مناسب تھے۔ چنانچہ ایک دن تلاش کرتے کرتے جی الیون ٹو میں مجھے ایک گلی کے کارنر پر ایک خوبصورت سے گھر کا نچلا پورشن صرف ساڑھے چار ہزار روپے ماہانہ کرائے پر مل گیا۔ یہ جگہ شفاءہسپتال سے دور تو تھی، لیکن اسلام آباد کا یہ دور دراز فاصلہ بھی دس کلومیٹر ہی بنتا تھا۔ درختوں اور سبزے سے گھری کھلی کھلی صاف ستھری سڑکوں اور بہت کم ٹریفک کی و جہ سے یہ فاصلہ مجھ جیسے کراچی والے کیلئے تو بس روزانہ کی سیر و تفریح ہی تھا۔
گھر لینے کے چند ہی دن بعد میری والدہ، اہلیہ اور دونوں بچے بھی اسلام آباد پہنچ گئے اور زندگی ایک نئی ڈگر پہ چل پڑی۔نوکری کے علاوہ جو بھی فرصت ملتی وہ اسلام آباد کے مرغزاروں کی سیر و تفریح اور فطرت کی قربت میں گزرنے لگی۔ ہر لانگ ویک اینڈ کا شدت سے انتظار ہوتا اور ان دنوں ہم ذرا لمبے سفر پر نکل جاتے۔ مری، نتھیا گلی، ایوبیہ، کاغان ناران، سوات…. یہاںیہ سب کچھ ہماری پہنچ میں تھا اوراسلام آباد سے بس چند گھنٹوں ہی کی دوری پر تھا۔اس لئے زندگی بڑی سرخوشی میں گزرنے لگی۔
فلم اینڈ فوٹوگرافی کا جو شوق تھا، وہی اب میرا باقاعدہ پروفیشن بن گیا ۔ شفاءہسپتال اور اس کے میڈیکل کالج میں میرا زیادہ تر کام آپریشن تھیٹرز میں فوٹوگرافی اوروڈیو میکنگ، پروفیسرز اور ڈاکٹرز کے آڈیوویژول لیکچرز کی تیاری اور خصوصی کیسز کی آڈیوویژول ہسٹری بنانا تھا تاکہ یہ میٹیریل میڈیکل اسٹوڈنٹس کے کام آئے۔ اب تک ہم جو فوٹو گرافی کرتے آئے تھے وہ نیگیٹیو اور کروم رول پر ایس ایل کیمروں کی روایتی فوٹوگرافی ہوتی تھی۔لیکن اب ہم ہر طرف ڈیجیٹل کیمروں کی آمد آمد کا شور سننے لگے تھے اور بالآخر 2001ءمیں آفس کی طرف سے مجھے بھی ایک ڈیجیٹل کیمرا مل گیا۔ Sony Mavica نامی یہ کیمرا ایک3.5 انچ فلاپی ڈسک پر صرف40 x 480 سائز کی معمولی تصاویر بنا سکتا تھا اور وہ بھی ایک فلاپی پر صرف تین چار ۔پھر ستم ظریفی یہ بھی کہ اکثر یہ فلاپی ہینگ یا کرپٹ ہو جاتی یا پھر کچھ تصویریں خراب بھی ہو جاتیں۔ بہرحال ان سب قباحتوں کے باوجود یہ کیمرا ایک نعمت ہی تھا کیونکہ فوٹوگرافی کے بعد فلاپی سے تصاویر منتقل کرنے کے بعد ان کو فارمیٹ کر کے دوبارہ استعمال کیا جا سکتا تھا۔
کہاں وہ دور کہ جب صرف چھتیس تصویروں والا نیگیٹیو رول کہ جس پر فوٹو کھینچنے کے بعد بھی پتہ نہیں چلتا تھا کہ تصویریں آئی بھی یا نہیں، اور رول بچانے کیلئے ایک ایک تصویر پھونک پھونک کر کنجوسی سے کھینچی جاتی، اور کہاں یہ کہ رول ضائع ہونے کا کوئی خوف ہی نہیں۔ میں فلاپی ڈسک کا ایک پیکٹ ساتھ رکھ کر خوب فوٹوگرافی کرتا اور اگلی بار ان کو فارمیٹ کر کے دوبارہ استعمال کر لیتا۔ یوں میری فوٹوگرافی میں بھی تیزی آ گئی۔ اسلام آباد تو ویسے بھی پاکستان کا ٹورسٹ بیس کیمپ ہے اس لئے یہاں فوٹوگرافی کے مواقع بھی بے شمار میسر تھے۔ بلکہ یہاں کراچی کی طرح کیمرا چھن جانے کا بھی خوف نہیں تھا۔ کراچی میں تو میں اپنے قیمتی کیمرے چھن جانے کے ڈر سے کیمرا بیگ کی بجائے شاپنگ بیگ میں رکھ کر گھومتا تھا۔
کچھ دن میں ڈیجیٹل فوٹو گرافی کرتے کرتے ڈیجیٹل ویڈیو ایڈیٹنگ تک بھی پہنچ گئے۔ اب تک ہم ویڈیو ایڈیٹنگ وی سی آر ٹو وی سی آر ہی کرتے آئے تھے جسے لینیئر ایڈیٹنگ Linear Editing کہا جاتا تھا۔ اب ہمیں وڈیو کو کیسٹ سے کمپیوٹر میں منتقل کر کے MPEG یا AVI فائلز کی نان لینیئر ایڈیٹنگ Non-Linear Editingکا بھی مزا آنا شروع ہوا اور یوں ہم فلم اینڈ فوٹوگرافی کی Analog ایڈیٹنگ کی دنیا سے سے نکل کر ڈیجیٹل ایڈیٹنگ کے دور میں داخل ہو گئے۔
جیسا کہ میں نے پہلے ذکر کیا کہ 2000ءمیں میرا پاکستان کے شمالی علاقوں کا سفرنامہ ”دریا دریا دریا وادی وادی“ روزنامہ جنگ میں قسط وار شائع ہوا تھا۔اس سفرنامے کا مسودہ بھی میرے پاس مکمل پڑا تھا اور روزنامہ امت میں شائع ہونے والے سفرنامے ”کیسپیئن کی چاہ میں“ کا مسودہ بھی تیار رکھا تھا۔ چنانچہ میرے دل میں ان سفرناموں کو کتابی صورت میں شائع کروانے کی خواہش انگڑائی لینے لگی۔
میں نے اسلام آباد کے ایک معروف پبلشر سے بات کی۔ پہلے تو وہ راضی ہو گیا اور ایک مسودہ مجھ سے لے بھی لیا۔ لیکن کافی عرصہ گزر جانے کے باوجود شائع کچھ نہ کیا۔میرے بار بار استفسار پر ایک دن اس نے مجھے درشت لہجے میں جواب دیا کہ جاؤ جاؤ ہم نہیں چھاپتے۔
اب تو میں بڑا پریشان ہوا اور سوچنے لگا کہ میری کتاب کبھی شائع بھی ہو پائے گی یا نہیں؟ …. اور میں اس بات پر بھی حیران ہی رہا کہ جب اسے میری کتاب شائع ہی نہیں کرنی تھی تو پہلی بار ہی کیوں نہ منع کر دیا؟ شفاءہسپتال میں میرا کام فلم، فوٹوگرافی اور پریزنٹیشن سے متعلق تھا۔تقریباً ہر لیکچر اور سیمینار کیلئے پاور پوائنٹ پریزنٹیشن بنائی جاتی تھیں، البتہ یہ ساری انگلش میں ہوتی تھیں۔ لیکن ایک مرتبہ مجھے ایک پریزنٹیشن اردو میں بھی بنانی پڑ گئی۔
یہ چند اردو جملوں اوران سے متعلق تصاویر پر مشتمل دس پندرہ سلائڈز کی پریزنٹیشن تھی۔ اس طرح کا کام میں نے پہلی مرتبہ کیا تھا۔ پریزنٹیشن بہت اچھی بنی اور اسے خاصا پسند بھی کیا گیا تو میں نے سوچا کہ جب اردو کے ان جملوں کا سلائڈ شو بن سکتا ہے تو پوری کتاب کا کیوں نہیں بن سکتا۔یہ خیال ذہن میں آتے ہی میں اچھل پڑا۔ میں نے خاموشی سے، کسی کو بتائے بغیر اپنی کتاب ”دریا دریا وادی وادی“ کو سلائڈز میں تبدیل کرنا شروع کر دیا۔
بارہ ابواب اور ایک سو بیس صفحات کی پریزنٹیشن پر مشتمل اس کتاب کے ساتھ میں نے اپنی تصاویر اور وڈیوز کو بھی منسلک کیا اور ان سب چیزوں کو آپس میں اس طرح لنک کر دیا کہ سنگل ماؤس کلِک سے ہی مطلوبہ صفحے، وڈیو یا تصویر تک پہنچا جاسکے۔ اس سارے سیٹ اپ کی میں نے ایک آٹو رَن سی ڈی بنا دی۔ یہ سی ڈی کمپیوٹر میں ڈالتے ہی کتاب کا ٹائٹل خود بخود اسکرین پر نمودار ہو جاتا تھا اور پھر ماؤس کلک سے کتاب کے کسی بھی صفحے پر پہنچا جا سکتا تھا۔
یہ کام مکمل ہوا تو اسے دیکھ کر پہلے تو میں خود ہی حیران ہوگیا کہ کیا میں نے واقعی یہ ایک اردو ڈیجیٹل کتاب بنالی ہے؟….
اگلے دن میں وہ سی ڈی اکادمی ادبیات پاکستان لے گیا جس کے چیئرمین اس وقت افتخار عارف صاحب تھے۔ میں نے انہیں یہ سی ڈی پیش کی تو انہوں نے اسی وقت یہ اپنے لیپ ٹاپ میں لگالی۔
کتاب خود ہی اسکرین پر کھل گئی۔ وہ کچھ دیر تک ماؤس کلک کرکے کتاب کے مختلف صفحات پر جاتے رہے، پھر اپنی کرسی سے اٹھ کھڑے ہوئے اور مجھے اپنی ٹیبل کے گرد گھوم کر اپنے پاس آنے کا کہا۔ میں جب ان کے قریب پہنچا تو انہوں نے مجھے گلے سے لگا لیا اور بولے :
”بیٹے…. تم نے تواردو کی پہلی ڈیجیٹل کتاب بنا ڈالی۔“
پھر اس کے بعد انہوں نے اسی وقت میرے سامنے ہی مختلف جگہوں پر فون کرنا شروع کر دیئے۔ پی ٹی وی ، ریڈیو پاکستان، اخبارات، ادبی تنظیموں کے افراد، مقتدرہ قومی زبان، نیشنل بک فاؤنڈیشن، پاکستان ٹورزم ڈویلپمنٹ کارپوریشن اور نہ جانے کہاں کہاں بات کی اور انہیں یہ خبر دی کہ عبیداللہ کیہر نے اردو کی پہلی ڈیجیٹل کتاب تیار کر دی ہے۔
پھر چند دن بعد 12 ستمبر 2002ءکے دن اکادمی ادبیات پاکستان میں اردو کی پہلی ڈیجیٹل کتاب ”دریا دریا وادی وادی“کی تقریب رونمائی ہوئی جس سے افتخار عارف، فتح محمد ملک، کالم نگار جاوید چوہدری، عقیل عباس جعفری، ثاقبہ رحیم الدین اور دیگر کئی مقررین نے خطاب کیا۔ اگلے دن پاکستان کے تقریباً تمام اردو انگریزی اخبارات میں اس کی خبر شائع ہوئی۔ کئی اخباروں میں میرے انٹرویو بھی آئے اور ریڈیو پاکستان نے اس پر ایک پروگرام بھی نشر کیا۔ ڈاکٹر عطش درانی نے اسی مہینے مقتدرہ قومی زبان کے میگزین ” اخبارِ اردو“ میں میری کتاب پر ٹائٹل اسٹوری شائع کی جسے عقیل عباس جعفری نے بڑی عمدگی سے تحریر کیا تھا۔ یہ سب دیکھ کر میں تو بس یہی سوچتا رہا کہ اگر یہ کتاب اُس پبلشر نے ہی چھاپ دی ہوتی تو کتنی غیر اہم ہوتی۔
(مزے کی بات یہ ہے کہ کتاب کی تقریب رونمائی میں وہ پبلشر بھی آیا تھا۔)
اخبارِ اردو میں عقیل عباس جعفری نے لکھا تھا: ”ڈیجیٹل کتاب کی سب سے بڑی خوبی یہ بتائی جاتی ہے کہ اس میں ہزارہا صفحات کا لوازمہ ایک مختصر سی سی ڈیCD میں محفوظ کیا جاسکتا ہے۔ گزشتہ دنوں اسلام آباد میں بھی اردو کی ایسی ہی ایک کتاب کی تقریب پذیرائی عمل میں آئی۔ اس کتاب کو اردو کی کتابی دنیا میں ایک نئے عہد کا آغاز کہا جا سکتا ہے۔ اردو کی اس پہلی ڈیجیٹل کتاب کا نام ہے ”دریا دریا وادی وادی“ اور اس کے مصنف اور پیش کار ہیں جناب عبیداللہ کیہر۔ عبیداللہ کیہر اپنی تعلیم اور پیشے کے اعتبار سے انجینئر اور مزاج کے اعتبار سے سیاح اور ادیب ہیں۔ قدرت نے انہیں گہرے مشاہدے کی صلاحیت کے ساتھ ساتھ اس صلاحیت کے اظہار کا سلیقہ بھی عطا کیا ہے۔وہ پچھلے پندرہ سولہ برس سے مسلسل سفر کر رہے ہیں اور ہر سفر کا ماحصل ایک سفرنامے کی صورت میں تحریر کر رہے ہیں جو پاکستان کے مختلف اخبارات اور جرائد میں اشاعت پذیر ہوتے رہتے ہیں۔
عبیداللہ کیہر کے قارئین کی شدید خواہش تھی کہ ان کے یہ سفرنامے کتابی شکل میں بھی سامنے آئیں۔ ان کی اس خواہش پر کیہر صاحب نے کوشش کی کہ ان کے یہ سفرنامے عام کتابوں ہی کی طرح شائع ہوں مگر جب انہیں اس میں تاخیر ہوتی نظر آئی تو ان کی جدت پسند طبیعت نے ان سفر ناموں کو ایک منفرد قسم کی کتاب کی شکل میں ڈھالنے کا فیصلہ کیا۔ انہوں نے اپنا ایک سفرنامہ ”دریا دریا وادی وادی“ جو روزنامہ جنگ کراچی کے مڈویک میگزین میں قسط وار شائع ہو چکا تھا، خود ہی از سر نو کمپوز کیا۔ ان علاقوں کی خود بنائی ہوئی تصاویر اور وڈیوز ان کے پاس موجود ہی تھیں، چنانچہ انہوں نے ان چیزوں کو یکجا کر کے اردو میں ایک بالکل منفرد طرز کی کتاب تشکیل دے ڈالی اور یوں اردو کی پہلی ڈیجیٹل بک یا برقی کتاب وجود میں آ گئی۔ اس کتاب کا نام بھی کیہر صاحب نے دریا دریا وادی وادی ہی رکھا۔
اپنے اس سفرنامے میں عبیداللہ کیہر نے پاکستان کے شمالی علاقوں، شاہراہ قراقرم، بشام، شتیال، داریل، استور اور دیگر علاقوں کی سیر کروائی ہے جو بے حد دلچسپ ہے۔ عبیداللہ کیہر کی یہ کتاب ایک خود رَفت سی ڈی AutoRun CD پر مشتمل ہے۔ اس کا مطالعہ بڑا با سہولت ہے اور یہ کمپیوٹر پر پڑھی جا سکتی ہے۔ کمپیوٹر کی سی ڈی ڈرائیو میں اس سی ڈی کو داخل کرنے کے بعد ذرا سی دیر میں سفرنامے کا رنگارنگ سرورق اسکرین پر ازخود نمودار ہو جاتا ہے۔اب آپ ماؤس کلک کرتے جائیے ، کتاب کے صفحات پلٹتے جائیں گے۔ کتاب میں متن کے ساتھ ساتھ رنگین تصاویر بھی موجود ہیں جو آپ کے لطف کو دوبالا کرتی جائیں گی۔ فہرست والے صفحے پر یہ سہولت دی گئی ہے کہ ہر باب کے سامنے دیئے گئے صفحہ نمبر پر کلک کرنے سے آپ براہ راست اس باب تک پہنچ سکتے ہیں۔
اسی طرح فہرست کے اگلے صفحے پر کتاب کے تمام صفحہ نمبر دے دیئے گئے ہیں۔ اگر آپ مطالعہ کرتے کرتے کسی کام سے اٹھنا بھی چاہیں تو بعد میں دوبارہ مطالعہ شروع کرتے وقت مطلوبہ صفحہ نمبر کلک کر کے براہ راست اس صفحے پر پہنچ سکتے ہیں۔
اس کتاب کی ایک اور خوبی جو اسے مطبوعہ کتابوں سے مختلف کرتی ہے یہ ہے کہ اس سی ڈی میں سفرنامے سے متعلق مقامات کی وڈیو فلمیں بھی موجود ہیں اور ان کے لنک پر کلک کر کے آپ وہ وڈیوز بھی دیکھ سکتے ہیں۔ عبیداللہ کیہر نے اپنے اس سفرنامے میں پاکستان کے شمالی علاقوں میں آباد سادے اور سچے لوگوں کی حقیقی زندگی کا مشاہدہ پیش کیا ہے۔ مقامی مناظر کے بیانِ دلپذیر کے ساتھ سفرنامے کا شگفتہ اسلوبِ بیان اردو کی اس ڈیجیٹل کتاب کی نمایاں ترین خصوصیات میں سے ہے۔ “
اس تقریب میں معروف کالم نگار جاوید چوہدری نے ایک بڑی انوکھی بات کی۔ کہنے لگے: ”اس سفرنامے میں ایک بہت بڑی خامی بھی ہے، اور وہ یہ کہ یہ ایک ایسا سفرنامہ ہے جو خواتین کے ذکر کے بغیر لکھا گیا ہے۔ یہ اس میں ایک بڑی کمی ہے کیونکہ اس سفرنامے کو پڑھ کر نہ تو کثرتِ گناہ کا احساس ہوتا ہے اور نہ حسرتِ گناہ پیدا ہوتی ہے۔“