Warning: Attempt to read property "child" on null in /home/d10hesot7wgn/public_html/wp-content/themes/jnews/class/ContentTag.php on line 45
Warning: Attempt to read property "child" on null in /home/d10hesot7wgn/public_html/wp-content/themes/jnews/class/ContentTag.php on line 25
Warning: Undefined array key 1 in /home/d10hesot7wgn/public_html/wp-content/themes/jnews/class/ContentTag.php on line 86
Warning: Attempt to read property "child" on null in /home/d10hesot7wgn/public_html/wp-content/themes/jnews/class/ContentTag.php on line 25
ہم کراچی والوں کی دو اقسام ہیں، ایک ”شِکرے“ دوسرے ”ناشُکرے۔“ ان دنوں اس شہر میں ایک ہی قسم پائی جاتی ہے ”ناشُکرے“، شِکرے کبھی ہوا کرتے تھے، جو جھپٹ کر پلٹتے اور پلٹ کر جھپٹتے تھے، یہ ان کا لُہو گرم رکھنے ہی کا نہیں جیب گرم رکھنے کا بھی بہانا تھا۔ اب ان میں سے اکثر شکرے شہر سے پرواز کرچکے ہیں، باقی کبوتر، طوطے اور فاختہ بن گئے اور اب اپنی اپنی کابکوں اور گھونسلوں میں چین سے بیٹھے ہیں۔ رہے ناشکرے تو وہ جیسے پہلے تھے ویسے ہی اب بھی ہیں۔ یہ حضرات حکومت اور سرکاری وغیرسرکاری اداروں کی کراچی کے لیے خدمات کو مان کر ہی نہیں دیتے۔ ہمارے دوست شبن بھائی ہی کو لیجیے۔ شبن بھائی المعروف بہ شبن چِراند پہلے بولتے نہیں تھے، لیکن جب سے گُٹکے پر پابندی لگی ہے چُپ ہونے کا نام نہیں لیتے۔ ان کی زبان پر ہر وقت کراچی کے مسائل کا رونا ہوتا ہے اور بات پانی کی قلت سے شروع ہو یا شکوے شکایت کا آغاز بجلی کی بندش سے کریں، تان گٹکے پر آکر ٹوٹتی ہے۔ وہ اپنے دکھ درد کا اظہار کچھ یوں کرتے ہیں، ”پانی ہیں آرہا، جب دیکھو بجلی چلی جاتی ہے، گلی میں کوڑا پڑا ہے، اوپر سے گُٹکے پر پابندی لگادی“،”ایک تو بسوں، چنگچی اور رکشوں کے کرائے اتنے بڑھ گئے ہیں، مہنگائی دیکھو کہاں جارئی ہے، اوپر سے گُٹکے پر پابندی لگادی“ ان کا آخری جملہ ”گُٹکے پر پابندی“ والا نہیں ہوتا، لیکن ہم ان کا آخری جملہ لکھ نہیں سکتے کیوں کہ اس جملے میں آخری درجے کی تمام جملہ مغلظات شامل ہوتی ہیں۔ شبن بھائی جیسے ناشکروں کو حکومت اور اداروں کا شکرگزار بنانے کے لیے ضروری ہے کہ ہم ان کی جانب سے کراچی کے شہریوں کے لیے کی جانے والی خدمات کا تذکرہ کریں۔
شروع کرتے ہیں بارش کے ذکر سے۔ ہر ایک شاکی ہے کہ شہر میں پانی کھڑا ہے۔ یہ حکومت اور بلدیہ کی کارکردگی ہی تو ہے جس کی بنا پر پانی سڑکوں پر کھڑا ہے، سوچیے اگر وہ دوڑ بھاگ رہا ہوتا یا یہ کہہ کر بیٹھ اور لیٹ جاتا کہ ”حضرت داغ جہاں بیٹھ گئے بیٹھ گئے“ تو شہر کا کیا حال ہوتا؟ عجیب منظر ہوتا، آگے آگے شہری سرپٹ دوڑے جارہے ہیں پیچھے پیچھے پانی بھاگا چلا آرہا ہے۔ یہ حکومت کی خوش انتظامی ہے کہ پانی خاموشی سے کھڑا رہتا ہے۔ یہ کراچی والے بھی عجیب ہیں، ہمیشہ قلت آب کی شکایت کرتے ہیں، اور جب فراہمی آب کا ایسا انتظام ہوجائے کہ سڑکیں تالاب، گلیاں جوہڑ اور پورا گھڑ ٹنکی بن جائے، پانی سارے گھر میں یوں لہریں مارنے لگے کہ بیت الخلاءسے لوٹا بہتا ہوا باورچی خانے کی زینت بن جائے اور باورچی خانے میں دھری کیتلی بیت الخلاءکے نل کے نیچے جالگے، تو ہائے پانی ہائے پانی کرتے شہری جائے پانی جائے پانی کا شور مچانے لگتے ہیں۔ اگر یوں شور مچانے کے بجائے وہ ”پانی جا جا مرے گھر سے نکل جا“ کورس کے انداز میں گائیں تو پانی اپنی اس بے عزتی پر شرم سے پانی پانی ہوکر واپسی کی راہ لے گا۔
”کے الیکٹرک“ کے خلاف واویلا مچانا پرلے درجے کا ناشکراپن ہے۔ کے الیکٹرک کو شہریوں کا اتنا خیال ہے کہ وہ چھینٹا پڑتے ہی بجلی بند کردیتی ہے تاکہ شہر کی گوریاں (سانولیاں اور کالی کلوٹیاں ہوں تب بھی کے الیکٹرک کو کوئی اعتراض نہیں) تاروں میں جھولے ڈال کر جھولا جھولیں۔ جنھیں دیکھ دیکھ کر دیکھنے والے اس بہانے بارش میں خوب اچھی طرح منہہ دھولیں۔ عام دنوں میں بھی بجلی بند کرنے پر بلاوجہ اعتراض کیا جاتا ہے، بھئی بجلی بھی کوئی کُھلی چھوڑنے والی چیز ہے۔ یہ الزام بھی بے جا ہے کہ وفاقی حکومت اور کوئی ”ادارہ“ کے الیکٹرک کا دماغ درست نہیں کرتا۔ کوئی کرے بھی تو کیا، جوں ہی کوئی کچھ کرنے آگے بڑھتا ہے کے الیکٹرک ٹھمکے لگا لگاکر گانے لگتی ہے ”بجلی بھری ہے مرے انگ انگ میں، جو مجھے چھولے گا وہ جل جائے گا“ اب آپ ہی بتائیے! اس بجلی بھری کو چھونے کی کس میں ہمت ہوگی۔
ہم کراچی والے ہر چیز کا صرف منفی پہلو دیکھتے ہیں۔ ہمیں یہ تو نظر آتا ہے کہ سڑک پر بڑے بڑے گڑھے پڑے ہیں، یہ دکھائی نہیں دیتا کہ گڑھوں کے درمیان سے غنڈوں میں گھری رضیہ کی طرح شرماتی لجاتی، گھبراتی، کتراتی، بل کھاتی، بچتی بچاتی سڑک گزر رہی ہے۔ یہ تو حکومت اور متعلقہ اداروں کا ان گڑھوں کو حکم ہے کہ سڑکوں پر پڑے رہو ہلنا مَتّی، ورنہ یہ ناہنجار تو گھر گھر جاکر لوگوں کے گلے پڑجائیں۔ سڑک پر ان گڑھوں کا اہتمام بڑی نیک نیتی سے اس مقصد کے تحت کیا گیا ہے کہ گاڑیاں تیزرفتاری کا مظاہرہ نہ کریں اور حادثے نہ ہوں، دوسرا مقصد ہے کہ لوگ اچھلتے کودتے سفر کریں تاکہ ان کا کھانا ہضم ہو اور صحت اچھی رہے، تیسرا مقصد عوام کو ان گڑھوں کے ذریعے قبر کا گڑھا یاد کرواکر بداعمالیوں سے روکنا ہے۔
کوڑے کے ڈھیروں کی شکایت کا معاملہ ذرا مختلف ہے۔ حکم رانوں نے جب کوڑے کے ایک ڈھیر کو اٹھانے کی کوشش کی تو اس نے بڑی ادا سے کہا ”بیٹھے ہیں رہ گزر پہ ہم غیر ہمیں اٹھائے کیوں“ یہ سنتے ہی حکم رانوں نے کہا بھئی ”لڑکے“ کی بات معقول ہے۔ ایک تو وہ کسی کے باپ کے گھر میں نہیں رہ گزر پر بیٹھا ہے، دوسرے کراچی والوں کی طرح وہ بھی ہمیں غیر سمجھتا ہے، شاید وہ چاہتا ہے کہ اسے کوئی اپنا ہی اٹھائے۔ کوڑے کے اس ڈھیر کے موقف کو تمام ڈھیروں کا مشترکہ ”بیانیہ“ سمجھتے ہوئے حکم راں پیچھے ہٹ گئے۔ پھر سنا ہے شہریوں نے آواز اٹھائی کہ میئر وسیم اختر کچرا اٹھائیں۔ انھیں بتایا گیاسراہنے ”میئر“ کے آہستہ بولو، ابھی ٹُک روتے روتے سو گیا ہے۔ جب وسیم اختر صاحب کو بتایا گیا کہ کراچی والوں کی شکایات ایک طرف پنجاب والے بھی طعنہ دے رہے ہیں کہ ”کراچی کے ہر گھر میں کچرا ہوتا ہے“ تو وہ اور ان کی غیرت ایک ساتھ جاگ اٹھے، خود خاصی دیر تک جاگتے رہے تھے۔ انھوں نے کوڑے کے ڈھیروں سے درمندانہ درخواست کی کہ بھیا ہمارے پاس وسائل نہیں ہیں، ورنہ تمھیں اٹھا لیتے، اچھے وقتوں میں ہم نے اچھے اچھے اٹھوالیے تم کیا چیز ہو، براہ مہربانی خود ہی اٹھ جاﺅ۔ مگر ڈھیر ٹس سے مَس نہ ہوئے۔ بے چارے میئر نے ڈھیر کے پہلو میں بیٹھ کر فلم ”تمنا“ کا گانا بھی گایا، ”اُٹھ مری جان مِرے ساتھ ہی چلنا ہے تجھے“ گاتے ہوئے یہ تمنا لیے چلنے لگے کہ ڈھیر جذباتی ہوکر پیچھے پیچھے آرہا ہوگا، مُڑ کر دیکھا ڈھیر ہلنے کے بجائے انگڑائی لے کر وہیں ڈھیر ہوگیا تھا۔
ہمیں یقین ہے کہ شہری ہمارے دلائل سے قائل ہوکر ناشکراپن ترک کردیں گے، پھر سب ہنسی خوشی رہنے لگیں گے
ہم کراچی والوں کی دو اقسام ہیں، ایک ”شِکرے“ دوسرے ”ناشُکرے۔“ ان دنوں اس شہر میں ایک ہی قسم پائی جاتی ہے ”ناشُکرے“، شِکرے کبھی ہوا کرتے تھے، جو جھپٹ کر پلٹتے اور پلٹ کر جھپٹتے تھے، یہ ان کا لُہو گرم رکھنے ہی کا نہیں جیب گرم رکھنے کا بھی بہانا تھا۔ اب ان میں سے اکثر شکرے شہر سے پرواز کرچکے ہیں، باقی کبوتر، طوطے اور فاختہ بن گئے اور اب اپنی اپنی کابکوں اور گھونسلوں میں چین سے بیٹھے ہیں۔ رہے ناشکرے تو وہ جیسے پہلے تھے ویسے ہی اب بھی ہیں۔ یہ حضرات حکومت اور سرکاری وغیرسرکاری اداروں کی کراچی کے لیے خدمات کو مان کر ہی نہیں دیتے۔ ہمارے دوست شبن بھائی ہی کو لیجیے۔ شبن بھائی المعروف بہ شبن چِراند پہلے بولتے نہیں تھے، لیکن جب سے گُٹکے پر پابندی لگی ہے چُپ ہونے کا نام نہیں لیتے۔ ان کی زبان پر ہر وقت کراچی کے مسائل کا رونا ہوتا ہے اور بات پانی کی قلت سے شروع ہو یا شکوے شکایت کا آغاز بجلی کی بندش سے کریں، تان گٹکے پر آکر ٹوٹتی ہے۔ وہ اپنے دکھ درد کا اظہار کچھ یوں کرتے ہیں، ”پانی ہیں آرہا، جب دیکھو بجلی چلی جاتی ہے، گلی میں کوڑا پڑا ہے، اوپر سے گُٹکے پر پابندی لگادی“،”ایک تو بسوں، چنگچی اور رکشوں کے کرائے اتنے بڑھ گئے ہیں، مہنگائی دیکھو کہاں جارئی ہے، اوپر سے گُٹکے پر پابندی لگادی“ ان کا آخری جملہ ”گُٹکے پر پابندی“ والا نہیں ہوتا، لیکن ہم ان کا آخری جملہ لکھ نہیں سکتے کیوں کہ اس جملے میں آخری درجے کی تمام جملہ مغلظات شامل ہوتی ہیں۔ شبن بھائی جیسے ناشکروں کو حکومت اور اداروں کا شکرگزار بنانے کے لیے ضروری ہے کہ ہم ان کی جانب سے کراچی کے شہریوں کے لیے کی جانے والی خدمات کا تذکرہ کریں۔
شروع کرتے ہیں بارش کے ذکر سے۔ ہر ایک شاکی ہے کہ شہر میں پانی کھڑا ہے۔ یہ حکومت اور بلدیہ کی کارکردگی ہی تو ہے جس کی بنا پر پانی سڑکوں پر کھڑا ہے، سوچیے اگر وہ دوڑ بھاگ رہا ہوتا یا یہ کہہ کر بیٹھ اور لیٹ جاتا کہ ”حضرت داغ جہاں بیٹھ گئے بیٹھ گئے“ تو شہر کا کیا حال ہوتا؟ عجیب منظر ہوتا، آگے آگے شہری سرپٹ دوڑے جارہے ہیں پیچھے پیچھے پانی بھاگا چلا آرہا ہے۔ یہ حکومت کی خوش انتظامی ہے کہ پانی خاموشی سے کھڑا رہتا ہے۔ یہ کراچی والے بھی عجیب ہیں، ہمیشہ قلت آب کی شکایت کرتے ہیں، اور جب فراہمی آب کا ایسا انتظام ہوجائے کہ سڑکیں تالاب، گلیاں جوہڑ اور پورا گھڑ ٹنکی بن جائے، پانی سارے گھر میں یوں لہریں مارنے لگے کہ بیت الخلاءسے لوٹا بہتا ہوا باورچی خانے کی زینت بن جائے اور باورچی خانے میں دھری کیتلی بیت الخلاءکے نل کے نیچے جالگے، تو ہائے پانی ہائے پانی کرتے شہری جائے پانی جائے پانی کا شور مچانے لگتے ہیں۔ اگر یوں شور مچانے کے بجائے وہ ”پانی جا جا مرے گھر سے نکل جا“ کورس کے انداز میں گائیں تو پانی اپنی اس بے عزتی پر شرم سے پانی پانی ہوکر واپسی کی راہ لے گا۔
”کے الیکٹرک“ کے خلاف واویلا مچانا پرلے درجے کا ناشکراپن ہے۔ کے الیکٹرک کو شہریوں کا اتنا خیال ہے کہ وہ چھینٹا پڑتے ہی بجلی بند کردیتی ہے تاکہ شہر کی گوریاں (سانولیاں اور کالی کلوٹیاں ہوں تب بھی کے الیکٹرک کو کوئی اعتراض نہیں) تاروں میں جھولے ڈال کر جھولا جھولیں۔ جنھیں دیکھ دیکھ کر دیکھنے والے اس بہانے بارش میں خوب اچھی طرح منہہ دھولیں۔ عام دنوں میں بھی بجلی بند کرنے پر بلاوجہ اعتراض کیا جاتا ہے، بھئی بجلی بھی کوئی کُھلی چھوڑنے والی چیز ہے۔ یہ الزام بھی بے جا ہے کہ وفاقی حکومت اور کوئی ”ادارہ“ کے الیکٹرک کا دماغ درست نہیں کرتا۔ کوئی کرے بھی تو کیا، جوں ہی کوئی کچھ کرنے آگے بڑھتا ہے کے الیکٹرک ٹھمکے لگا لگاکر گانے لگتی ہے ”بجلی بھری ہے مرے انگ انگ میں، جو مجھے چھولے گا وہ جل جائے گا“ اب آپ ہی بتائیے! اس بجلی بھری کو چھونے کی کس میں ہمت ہوگی۔
ہم کراچی والے ہر چیز کا صرف منفی پہلو دیکھتے ہیں۔ ہمیں یہ تو نظر آتا ہے کہ سڑک پر بڑے بڑے گڑھے پڑے ہیں، یہ دکھائی نہیں دیتا کہ گڑھوں کے درمیان سے غنڈوں میں گھری رضیہ کی طرح شرماتی لجاتی، گھبراتی، کتراتی، بل کھاتی، بچتی بچاتی سڑک گزر رہی ہے۔ یہ تو حکومت اور متعلقہ اداروں کا ان گڑھوں کو حکم ہے کہ سڑکوں پر پڑے رہو ہلنا مَتّی، ورنہ یہ ناہنجار تو گھر گھر جاکر لوگوں کے گلے پڑجائیں۔ سڑک پر ان گڑھوں کا اہتمام بڑی نیک نیتی سے اس مقصد کے تحت کیا گیا ہے کہ گاڑیاں تیزرفتاری کا مظاہرہ نہ کریں اور حادثے نہ ہوں، دوسرا مقصد ہے کہ لوگ اچھلتے کودتے سفر کریں تاکہ ان کا کھانا ہضم ہو اور صحت اچھی رہے، تیسرا مقصد عوام کو ان گڑھوں کے ذریعے قبر کا گڑھا یاد کرواکر بداعمالیوں سے روکنا ہے۔
کوڑے کے ڈھیروں کی شکایت کا معاملہ ذرا مختلف ہے۔ حکم رانوں نے جب کوڑے کے ایک ڈھیر کو اٹھانے کی کوشش کی تو اس نے بڑی ادا سے کہا ”بیٹھے ہیں رہ گزر پہ ہم غیر ہمیں اٹھائے کیوں“ یہ سنتے ہی حکم رانوں نے کہا بھئی ”لڑکے“ کی بات معقول ہے۔ ایک تو وہ کسی کے باپ کے گھر میں نہیں رہ گزر پر بیٹھا ہے، دوسرے کراچی والوں کی طرح وہ بھی ہمیں غیر سمجھتا ہے، شاید وہ چاہتا ہے کہ اسے کوئی اپنا ہی اٹھائے۔ کوڑے کے اس ڈھیر کے موقف کو تمام ڈھیروں کا مشترکہ ”بیانیہ“ سمجھتے ہوئے حکم راں پیچھے ہٹ گئے۔ پھر سنا ہے شہریوں نے آواز اٹھائی کہ میئر وسیم اختر کچرا اٹھائیں۔ انھیں بتایا گیاسراہنے ”میئر“ کے آہستہ بولو، ابھی ٹُک روتے روتے سو گیا ہے۔ جب وسیم اختر صاحب کو بتایا گیا کہ کراچی والوں کی شکایات ایک طرف پنجاب والے بھی طعنہ دے رہے ہیں کہ ”کراچی کے ہر گھر میں کچرا ہوتا ہے“ تو وہ اور ان کی غیرت ایک ساتھ جاگ اٹھے، خود خاصی دیر تک جاگتے رہے تھے۔ انھوں نے کوڑے کے ڈھیروں سے درمندانہ درخواست کی کہ بھیا ہمارے پاس وسائل نہیں ہیں، ورنہ تمھیں اٹھا لیتے، اچھے وقتوں میں ہم نے اچھے اچھے اٹھوالیے تم کیا چیز ہو، براہ مہربانی خود ہی اٹھ جاﺅ۔ مگر ڈھیر ٹس سے مَس نہ ہوئے۔ بے چارے میئر نے ڈھیر کے پہلو میں بیٹھ کر فلم ”تمنا“ کا گانا بھی گایا، ”اُٹھ مری جان مِرے ساتھ ہی چلنا ہے تجھے“ گاتے ہوئے یہ تمنا لیے چلنے لگے کہ ڈھیر جذباتی ہوکر پیچھے پیچھے آرہا ہوگا، مُڑ کر دیکھا ڈھیر ہلنے کے بجائے انگڑائی لے کر وہیں ڈھیر ہوگیا تھا۔
ہمیں یقین ہے کہ شہری ہمارے دلائل سے قائل ہوکر ناشکراپن ترک کردیں گے، پھر سب ہنسی خوشی رہنے لگیں گے
ہم کراچی والوں کی دو اقسام ہیں، ایک ”شِکرے“ دوسرے ”ناشُکرے۔“ ان دنوں اس شہر میں ایک ہی قسم پائی جاتی ہے ”ناشُکرے“، شِکرے کبھی ہوا کرتے تھے، جو جھپٹ کر پلٹتے اور پلٹ کر جھپٹتے تھے، یہ ان کا لُہو گرم رکھنے ہی کا نہیں جیب گرم رکھنے کا بھی بہانا تھا۔ اب ان میں سے اکثر شکرے شہر سے پرواز کرچکے ہیں، باقی کبوتر، طوطے اور فاختہ بن گئے اور اب اپنی اپنی کابکوں اور گھونسلوں میں چین سے بیٹھے ہیں۔ رہے ناشکرے تو وہ جیسے پہلے تھے ویسے ہی اب بھی ہیں۔ یہ حضرات حکومت اور سرکاری وغیرسرکاری اداروں کی کراچی کے لیے خدمات کو مان کر ہی نہیں دیتے۔ ہمارے دوست شبن بھائی ہی کو لیجیے۔ شبن بھائی المعروف بہ شبن چِراند پہلے بولتے نہیں تھے، لیکن جب سے گُٹکے پر پابندی لگی ہے چُپ ہونے کا نام نہیں لیتے۔ ان کی زبان پر ہر وقت کراچی کے مسائل کا رونا ہوتا ہے اور بات پانی کی قلت سے شروع ہو یا شکوے شکایت کا آغاز بجلی کی بندش سے کریں، تان گٹکے پر آکر ٹوٹتی ہے۔ وہ اپنے دکھ درد کا اظہار کچھ یوں کرتے ہیں، ”پانی ہیں آرہا، جب دیکھو بجلی چلی جاتی ہے، گلی میں کوڑا پڑا ہے، اوپر سے گُٹکے پر پابندی لگادی“،”ایک تو بسوں، چنگچی اور رکشوں کے کرائے اتنے بڑھ گئے ہیں، مہنگائی دیکھو کہاں جارئی ہے، اوپر سے گُٹکے پر پابندی لگادی“ ان کا آخری جملہ ”گُٹکے پر پابندی“ والا نہیں ہوتا، لیکن ہم ان کا آخری جملہ لکھ نہیں سکتے کیوں کہ اس جملے میں آخری درجے کی تمام جملہ مغلظات شامل ہوتی ہیں۔ شبن بھائی جیسے ناشکروں کو حکومت اور اداروں کا شکرگزار بنانے کے لیے ضروری ہے کہ ہم ان کی جانب سے کراچی کے شہریوں کے لیے کی جانے والی خدمات کا تذکرہ کریں۔
شروع کرتے ہیں بارش کے ذکر سے۔ ہر ایک شاکی ہے کہ شہر میں پانی کھڑا ہے۔ یہ حکومت اور بلدیہ کی کارکردگی ہی تو ہے جس کی بنا پر پانی سڑکوں پر کھڑا ہے، سوچیے اگر وہ دوڑ بھاگ رہا ہوتا یا یہ کہہ کر بیٹھ اور لیٹ جاتا کہ ”حضرت داغ جہاں بیٹھ گئے بیٹھ گئے“ تو شہر کا کیا حال ہوتا؟ عجیب منظر ہوتا، آگے آگے شہری سرپٹ دوڑے جارہے ہیں پیچھے پیچھے پانی بھاگا چلا آرہا ہے۔ یہ حکومت کی خوش انتظامی ہے کہ پانی خاموشی سے کھڑا رہتا ہے۔ یہ کراچی والے بھی عجیب ہیں، ہمیشہ قلت آب کی شکایت کرتے ہیں، اور جب فراہمی آب کا ایسا انتظام ہوجائے کہ سڑکیں تالاب، گلیاں جوہڑ اور پورا گھڑ ٹنکی بن جائے، پانی سارے گھر میں یوں لہریں مارنے لگے کہ بیت الخلاءسے لوٹا بہتا ہوا باورچی خانے کی زینت بن جائے اور باورچی خانے میں دھری کیتلی بیت الخلاءکے نل کے نیچے جالگے، تو ہائے پانی ہائے پانی کرتے شہری جائے پانی جائے پانی کا شور مچانے لگتے ہیں۔ اگر یوں شور مچانے کے بجائے وہ ”پانی جا جا مرے گھر سے نکل جا“ کورس کے انداز میں گائیں تو پانی اپنی اس بے عزتی پر شرم سے پانی پانی ہوکر واپسی کی راہ لے گا۔
”کے الیکٹرک“ کے خلاف واویلا مچانا پرلے درجے کا ناشکراپن ہے۔ کے الیکٹرک کو شہریوں کا اتنا خیال ہے کہ وہ چھینٹا پڑتے ہی بجلی بند کردیتی ہے تاکہ شہر کی گوریاں (سانولیاں اور کالی کلوٹیاں ہوں تب بھی کے الیکٹرک کو کوئی اعتراض نہیں) تاروں میں جھولے ڈال کر جھولا جھولیں۔ جنھیں دیکھ دیکھ کر دیکھنے والے اس بہانے بارش میں خوب اچھی طرح منہہ دھولیں۔ عام دنوں میں بھی بجلی بند کرنے پر بلاوجہ اعتراض کیا جاتا ہے، بھئی بجلی بھی کوئی کُھلی چھوڑنے والی چیز ہے۔ یہ الزام بھی بے جا ہے کہ وفاقی حکومت اور کوئی ”ادارہ“ کے الیکٹرک کا دماغ درست نہیں کرتا۔ کوئی کرے بھی تو کیا، جوں ہی کوئی کچھ کرنے آگے بڑھتا ہے کے الیکٹرک ٹھمکے لگا لگاکر گانے لگتی ہے ”بجلی بھری ہے مرے انگ انگ میں، جو مجھے چھولے گا وہ جل جائے گا“ اب آپ ہی بتائیے! اس بجلی بھری کو چھونے کی کس میں ہمت ہوگی۔
ہم کراچی والے ہر چیز کا صرف منفی پہلو دیکھتے ہیں۔ ہمیں یہ تو نظر آتا ہے کہ سڑک پر بڑے بڑے گڑھے پڑے ہیں، یہ دکھائی نہیں دیتا کہ گڑھوں کے درمیان سے غنڈوں میں گھری رضیہ کی طرح شرماتی لجاتی، گھبراتی، کتراتی، بل کھاتی، بچتی بچاتی سڑک گزر رہی ہے۔ یہ تو حکومت اور متعلقہ اداروں کا ان گڑھوں کو حکم ہے کہ سڑکوں پر پڑے رہو ہلنا مَتّی، ورنہ یہ ناہنجار تو گھر گھر جاکر لوگوں کے گلے پڑجائیں۔ سڑک پر ان گڑھوں کا اہتمام بڑی نیک نیتی سے اس مقصد کے تحت کیا گیا ہے کہ گاڑیاں تیزرفتاری کا مظاہرہ نہ کریں اور حادثے نہ ہوں، دوسرا مقصد ہے کہ لوگ اچھلتے کودتے سفر کریں تاکہ ان کا کھانا ہضم ہو اور صحت اچھی رہے، تیسرا مقصد عوام کو ان گڑھوں کے ذریعے قبر کا گڑھا یاد کرواکر بداعمالیوں سے روکنا ہے۔
کوڑے کے ڈھیروں کی شکایت کا معاملہ ذرا مختلف ہے۔ حکم رانوں نے جب کوڑے کے ایک ڈھیر کو اٹھانے کی کوشش کی تو اس نے بڑی ادا سے کہا ”بیٹھے ہیں رہ گزر پہ ہم غیر ہمیں اٹھائے کیوں“ یہ سنتے ہی حکم رانوں نے کہا بھئی ”لڑکے“ کی بات معقول ہے۔ ایک تو وہ کسی کے باپ کے گھر میں نہیں رہ گزر پر بیٹھا ہے، دوسرے کراچی والوں کی طرح وہ بھی ہمیں غیر سمجھتا ہے، شاید وہ چاہتا ہے کہ اسے کوئی اپنا ہی اٹھائے۔ کوڑے کے اس ڈھیر کے موقف کو تمام ڈھیروں کا مشترکہ ”بیانیہ“ سمجھتے ہوئے حکم راں پیچھے ہٹ گئے۔ پھر سنا ہے شہریوں نے آواز اٹھائی کہ میئر وسیم اختر کچرا اٹھائیں۔ انھیں بتایا گیاسراہنے ”میئر“ کے آہستہ بولو، ابھی ٹُک روتے روتے سو گیا ہے۔ جب وسیم اختر صاحب کو بتایا گیا کہ کراچی والوں کی شکایات ایک طرف پنجاب والے بھی طعنہ دے رہے ہیں کہ ”کراچی کے ہر گھر میں کچرا ہوتا ہے“ تو وہ اور ان کی غیرت ایک ساتھ جاگ اٹھے، خود خاصی دیر تک جاگتے رہے تھے۔ انھوں نے کوڑے کے ڈھیروں سے درمندانہ درخواست کی کہ بھیا ہمارے پاس وسائل نہیں ہیں، ورنہ تمھیں اٹھا لیتے، اچھے وقتوں میں ہم نے اچھے اچھے اٹھوالیے تم کیا چیز ہو، براہ مہربانی خود ہی اٹھ جاﺅ۔ مگر ڈھیر ٹس سے مَس نہ ہوئے۔ بے چارے میئر نے ڈھیر کے پہلو میں بیٹھ کر فلم ”تمنا“ کا گانا بھی گایا، ”اُٹھ مری جان مِرے ساتھ ہی چلنا ہے تجھے“ گاتے ہوئے یہ تمنا لیے چلنے لگے کہ ڈھیر جذباتی ہوکر پیچھے پیچھے آرہا ہوگا، مُڑ کر دیکھا ڈھیر ہلنے کے بجائے انگڑائی لے کر وہیں ڈھیر ہوگیا تھا۔
ہمیں یقین ہے کہ شہری ہمارے دلائل سے قائل ہوکر ناشکراپن ترک کردیں گے، پھر سب ہنسی خوشی رہنے لگیں گے
ہم کراچی والوں کی دو اقسام ہیں، ایک ”شِکرے“ دوسرے ”ناشُکرے۔“ ان دنوں اس شہر میں ایک ہی قسم پائی جاتی ہے ”ناشُکرے“، شِکرے کبھی ہوا کرتے تھے، جو جھپٹ کر پلٹتے اور پلٹ کر جھپٹتے تھے، یہ ان کا لُہو گرم رکھنے ہی کا نہیں جیب گرم رکھنے کا بھی بہانا تھا۔ اب ان میں سے اکثر شکرے شہر سے پرواز کرچکے ہیں، باقی کبوتر، طوطے اور فاختہ بن گئے اور اب اپنی اپنی کابکوں اور گھونسلوں میں چین سے بیٹھے ہیں۔ رہے ناشکرے تو وہ جیسے پہلے تھے ویسے ہی اب بھی ہیں۔ یہ حضرات حکومت اور سرکاری وغیرسرکاری اداروں کی کراچی کے لیے خدمات کو مان کر ہی نہیں دیتے۔ ہمارے دوست شبن بھائی ہی کو لیجیے۔ شبن بھائی المعروف بہ شبن چِراند پہلے بولتے نہیں تھے، لیکن جب سے گُٹکے پر پابندی لگی ہے چُپ ہونے کا نام نہیں لیتے۔ ان کی زبان پر ہر وقت کراچی کے مسائل کا رونا ہوتا ہے اور بات پانی کی قلت سے شروع ہو یا شکوے شکایت کا آغاز بجلی کی بندش سے کریں، تان گٹکے پر آکر ٹوٹتی ہے۔ وہ اپنے دکھ درد کا اظہار کچھ یوں کرتے ہیں، ”پانی ہیں آرہا، جب دیکھو بجلی چلی جاتی ہے، گلی میں کوڑا پڑا ہے، اوپر سے گُٹکے پر پابندی لگادی“،”ایک تو بسوں، چنگچی اور رکشوں کے کرائے اتنے بڑھ گئے ہیں، مہنگائی دیکھو کہاں جارئی ہے، اوپر سے گُٹکے پر پابندی لگادی“ ان کا آخری جملہ ”گُٹکے پر پابندی“ والا نہیں ہوتا، لیکن ہم ان کا آخری جملہ لکھ نہیں سکتے کیوں کہ اس جملے میں آخری درجے کی تمام جملہ مغلظات شامل ہوتی ہیں۔ شبن بھائی جیسے ناشکروں کو حکومت اور اداروں کا شکرگزار بنانے کے لیے ضروری ہے کہ ہم ان کی جانب سے کراچی کے شہریوں کے لیے کی جانے والی خدمات کا تذکرہ کریں۔
شروع کرتے ہیں بارش کے ذکر سے۔ ہر ایک شاکی ہے کہ شہر میں پانی کھڑا ہے۔ یہ حکومت اور بلدیہ کی کارکردگی ہی تو ہے جس کی بنا پر پانی سڑکوں پر کھڑا ہے، سوچیے اگر وہ دوڑ بھاگ رہا ہوتا یا یہ کہہ کر بیٹھ اور لیٹ جاتا کہ ”حضرت داغ جہاں بیٹھ گئے بیٹھ گئے“ تو شہر کا کیا حال ہوتا؟ عجیب منظر ہوتا، آگے آگے شہری سرپٹ دوڑے جارہے ہیں پیچھے پیچھے پانی بھاگا چلا آرہا ہے۔ یہ حکومت کی خوش انتظامی ہے کہ پانی خاموشی سے کھڑا رہتا ہے۔ یہ کراچی والے بھی عجیب ہیں، ہمیشہ قلت آب کی شکایت کرتے ہیں، اور جب فراہمی آب کا ایسا انتظام ہوجائے کہ سڑکیں تالاب، گلیاں جوہڑ اور پورا گھڑ ٹنکی بن جائے، پانی سارے گھر میں یوں لہریں مارنے لگے کہ بیت الخلاءسے لوٹا بہتا ہوا باورچی خانے کی زینت بن جائے اور باورچی خانے میں دھری کیتلی بیت الخلاءکے نل کے نیچے جالگے، تو ہائے پانی ہائے پانی کرتے شہری جائے پانی جائے پانی کا شور مچانے لگتے ہیں۔ اگر یوں شور مچانے کے بجائے وہ ”پانی جا جا مرے گھر سے نکل جا“ کورس کے انداز میں گائیں تو پانی اپنی اس بے عزتی پر شرم سے پانی پانی ہوکر واپسی کی راہ لے گا۔
”کے الیکٹرک“ کے خلاف واویلا مچانا پرلے درجے کا ناشکراپن ہے۔ کے الیکٹرک کو شہریوں کا اتنا خیال ہے کہ وہ چھینٹا پڑتے ہی بجلی بند کردیتی ہے تاکہ شہر کی گوریاں (سانولیاں اور کالی کلوٹیاں ہوں تب بھی کے الیکٹرک کو کوئی اعتراض نہیں) تاروں میں جھولے ڈال کر جھولا جھولیں۔ جنھیں دیکھ دیکھ کر دیکھنے والے اس بہانے بارش میں خوب اچھی طرح منہہ دھولیں۔ عام دنوں میں بھی بجلی بند کرنے پر بلاوجہ اعتراض کیا جاتا ہے، بھئی بجلی بھی کوئی کُھلی چھوڑنے والی چیز ہے۔ یہ الزام بھی بے جا ہے کہ وفاقی حکومت اور کوئی ”ادارہ“ کے الیکٹرک کا دماغ درست نہیں کرتا۔ کوئی کرے بھی تو کیا، جوں ہی کوئی کچھ کرنے آگے بڑھتا ہے کے الیکٹرک ٹھمکے لگا لگاکر گانے لگتی ہے ”بجلی بھری ہے مرے انگ انگ میں، جو مجھے چھولے گا وہ جل جائے گا“ اب آپ ہی بتائیے! اس بجلی بھری کو چھونے کی کس میں ہمت ہوگی۔
ہم کراچی والے ہر چیز کا صرف منفی پہلو دیکھتے ہیں۔ ہمیں یہ تو نظر آتا ہے کہ سڑک پر بڑے بڑے گڑھے پڑے ہیں، یہ دکھائی نہیں دیتا کہ گڑھوں کے درمیان سے غنڈوں میں گھری رضیہ کی طرح شرماتی لجاتی، گھبراتی، کتراتی، بل کھاتی، بچتی بچاتی سڑک گزر رہی ہے۔ یہ تو حکومت اور متعلقہ اداروں کا ان گڑھوں کو حکم ہے کہ سڑکوں پر پڑے رہو ہلنا مَتّی، ورنہ یہ ناہنجار تو گھر گھر جاکر لوگوں کے گلے پڑجائیں۔ سڑک پر ان گڑھوں کا اہتمام بڑی نیک نیتی سے اس مقصد کے تحت کیا گیا ہے کہ گاڑیاں تیزرفتاری کا مظاہرہ نہ کریں اور حادثے نہ ہوں، دوسرا مقصد ہے کہ لوگ اچھلتے کودتے سفر کریں تاکہ ان کا کھانا ہضم ہو اور صحت اچھی رہے، تیسرا مقصد عوام کو ان گڑھوں کے ذریعے قبر کا گڑھا یاد کرواکر بداعمالیوں سے روکنا ہے۔
کوڑے کے ڈھیروں کی شکایت کا معاملہ ذرا مختلف ہے۔ حکم رانوں نے جب کوڑے کے ایک ڈھیر کو اٹھانے کی کوشش کی تو اس نے بڑی ادا سے کہا ”بیٹھے ہیں رہ گزر پہ ہم غیر ہمیں اٹھائے کیوں“ یہ سنتے ہی حکم رانوں نے کہا بھئی ”لڑکے“ کی بات معقول ہے۔ ایک تو وہ کسی کے باپ کے گھر میں نہیں رہ گزر پر بیٹھا ہے، دوسرے کراچی والوں کی طرح وہ بھی ہمیں غیر سمجھتا ہے، شاید وہ چاہتا ہے کہ اسے کوئی اپنا ہی اٹھائے۔ کوڑے کے اس ڈھیر کے موقف کو تمام ڈھیروں کا مشترکہ ”بیانیہ“ سمجھتے ہوئے حکم راں پیچھے ہٹ گئے۔ پھر سنا ہے شہریوں نے آواز اٹھائی کہ میئر وسیم اختر کچرا اٹھائیں۔ انھیں بتایا گیاسراہنے ”میئر“ کے آہستہ بولو، ابھی ٹُک روتے روتے سو گیا ہے۔ جب وسیم اختر صاحب کو بتایا گیا کہ کراچی والوں کی شکایات ایک طرف پنجاب والے بھی طعنہ دے رہے ہیں کہ ”کراچی کے ہر گھر میں کچرا ہوتا ہے“ تو وہ اور ان کی غیرت ایک ساتھ جاگ اٹھے، خود خاصی دیر تک جاگتے رہے تھے۔ انھوں نے کوڑے کے ڈھیروں سے درمندانہ درخواست کی کہ بھیا ہمارے پاس وسائل نہیں ہیں، ورنہ تمھیں اٹھا لیتے، اچھے وقتوں میں ہم نے اچھے اچھے اٹھوالیے تم کیا چیز ہو، براہ مہربانی خود ہی اٹھ جاﺅ۔ مگر ڈھیر ٹس سے مَس نہ ہوئے۔ بے چارے میئر نے ڈھیر کے پہلو میں بیٹھ کر فلم ”تمنا“ کا گانا بھی گایا، ”اُٹھ مری جان مِرے ساتھ ہی چلنا ہے تجھے“ گاتے ہوئے یہ تمنا لیے چلنے لگے کہ ڈھیر جذباتی ہوکر پیچھے پیچھے آرہا ہوگا، مُڑ کر دیکھا ڈھیر ہلنے کے بجائے انگڑائی لے کر وہیں ڈھیر ہوگیا تھا۔
ہمیں یقین ہے کہ شہری ہمارے دلائل سے قائل ہوکر ناشکراپن ترک کردیں گے، پھر سب ہنسی خوشی رہنے لگیں گے