ہائے، اس غریب قوم کے بھکاری لیڈر۔ اس قوم کی لیڈرشپ کی سب سے بڑی صلاحیت ہی بیرون ملک سے بھیک و قرضے لانا ہوتی ہے جس میں نواز شریف اور زرداری کا ریکارڈ اتنا بُرا نہیں تھا۔
لیکن بھائی لوگو!” کماتا ہے تو کھاتا بھی ہے بلکہ شاید بہت زیادہ کھاتا ” والوں سے ناراض ہو کر اپنی دانست چھوٹے پیٹ والا بھکاری لیکر آئے تاکہ زیادہ سے زیادہ حصہ باقی قبیلے کو مل سکے۔ اس نے بھی نوکری سے پہلے تارے بھیک میں لانے کا دعوی کیا کہ سارے دنیا کے خزانے ہی کھینچ لئے گا۔
اس کی جاب ایپلیکیشن میں واضح طور پر لکھا ہوا تھا کہ وہ غریب سے غریب بھوکے کے منہ سے نوالہ نکلوا سکتا ہے، کوئی ہاتھ ملائے تو سمجھتا ہے پیسے دے رہا ہے،قوم نے اس “کماؤ بھکاری” کو اپنے لئے نعمت سمجھ کر ہاتھوں ہاتھ لیا۔
اب حال یہ ہے کہ بظاہر بھیک و قرضے کی رقوم میں اضافہ تو ہواہے لیکن یہ مال نہ جانے کس جن کے ہاتھ لگ گیا کہ قوم بھوکی کی بھوکی اور واقعتاً بھوکوں کے منہ سے نوالے نکل چکے ہیں۔
بھائی نے یہ بھی وعدہ کیا تھا کہ کہ اسکے “دور بھکارت “ میں دور دیشوں کے لوگ کمائی کے لئے ہمارے وطن آئیں گے وہ بھی پورا کیا کہ اب (بھکاری بادشاہ کے) دربار میں تو بریف کیس سمیت دساور سے نوکری کے طلبگاروں کے قطار نظر آتی ہے۔
یہ تو خیر سخن گسرانہ بات تھی ، یا کہ سکتے ہیں بھائی کیلے سے پھسلتا ہوا کہاں سے کہاں نکل آیا۔ یہ مسئلہ ہوتو ہم جیسے کیلے کے سوار کے ساتھ ہے ہی پھسلنے میں کبھی بات ٹوٹی اورکبھی ٹانگ۔ اللہ خیر کرے ٹانگ کی حفاظت ضروری ہے۔ یہ بات تو آنی جانی ہے اس بات کی تو کوئی بات نہیں ۔
آجکل بھائی لوگ جماعت اسلامی کے سربراہ سراج الحق کے صاحبزادے کی بس کے انتظار میں بیٹھے ہوئی تصویر کو فخریہ طور ہر بھی پیش کررہے ہیں اور مخالفین مضحکہ بھی اُڑا رہے ہیں۔
اس تصویر کو پھیلانے کی ضرورت پر یقیناً گفتگو کی جاسکتی ہے، لیکن یہ بات واضح ہے کہ ان صاحب کا فقر اصلی ہے۔ اس قحط الرجال کے دور میں لیڈر تو بے تحاشا ملتے ہیں لیکن لیڈروں میں فقیری اور دیانت نہیں ملتی۔ اس لئے عوام نے “قابلیت “ کو رد کر کرکے چوروں کے خلاف نفرت کے اظہار کے لیئے موجودہ “ ایماندارشھزادے فقیر “ کو ووٹ دیا جو محلات میں چھوٹی سی کٹیا بنا کر کسی شیرو نام کے جانور کے ساتھ رہتا ہے۔ اس جانور کی دل بستگی کے کیا انتظام فرمایا ہے، اس کی خبر نہیں۔الف لیلہ کی کہانیوں گزارنے والے کچھ بھی نہ کریں تو جو ہوگا کمال ہی ہو گا۔
اس کی بہ نسبت اہل مدرسہ کے “فقیر” ہیں مدرسہ کی ایک بھی اینٹ اپنی جیب سے نہیں لگتی صرف اور صرف زبان (تقاریر و واعظ) کی کمائی ، آج عظیم الشان عمارات انکی اور انکی اولاد کی جائیداد، اولاد ہمیشہ ہی وارث بنتی ہے۔بڑی بڑی کاروں میں بھی گھومتے ہیں، زمینیں بھی حاصل کرتے ہیں اور ان کے بھائیوں کو بغیر مقابلے کے امتحانوں کے اعلی ترین ملازمتیں بھی ملتی ہیں پھر بھی تقدس مآبی پر کوئی دھبّہ نہیں آتا۔
یہ ایک تیسرا فقیر ہے، بچپن سے لیکر جوانی تک غربت میں گذارا اور طلباء کی منظم ترین تنظیم کی سربراہی تک پہنچا، طلبا می تنظیم کی نظامت اعلی سے لیکر اسمبلی کی ممبری سے لیکر وزارت سے امارت تک اسکے دامن پر کوئی دھبّہ نہ پایا گیا۔ذرایع آمدنی بھی جماعت سے ملنے والی حقیر تنخواہ نہ بنگلہ نہ محل۔
اب لوگوں کے سامنے تین “ایماندار” ہیں تینوں فقیر ہاتھ سے کمانا تو نہیں جانتے ۔ابھی تک “فقیر شھزادے “کو بادشاہ بناکر ایک ٹکٹ میں دو مزے لئے جارہے ہیں اور ملک کے ساتھ جو ہورہا ہے اس پر وہ گھسی پٹی حکایت یاد آگئی جب ایک ملک میں حکمران کے بارے میں جھگڑا ہو گیا ہے اور اس بات کا فیصلہ نہ ہو سکا کہ آیندہ کون شخص حکمران ہو گا تو شہر والوں نے فیصلہ کیا کہ جو کل صبح سویرے جو بھی شخص سب سے پہلے شہر میں داخل ہو گا وہی آیندہ کا حکمران ہو گا ۔
اگلی صبح سب سے پہلے ایک فقیر شہر کے دروازے پر پہنچا تو دربانوں نے اسے ہاتھوں ہاتھ لیا اور کہا کہ آپ آج سے ہمارے بادشاہ ہیں، پہلے پہل تو فقیر نے مزاحمت کی اور کہا کہ وہ ایک فقیر ہے اسے اس کے حال میں خوش رہنے دیا جائے لیکن جب اس کی ایک نہ سنی گئی تو اس نے اپنے آپ کو حالات کے رحم و کرم پر چھوڑ دیا اور شاہی محل میں پہنچ گیا ۔
شاہی محل میں اس کو بادشاہوں والا لباس فراہم کیا گیا ۔ فقیر نے بادشاہوں والا لباس تو پہن لیا لیکن اپنا فقیروں والا لباس ایک تھیلے میں بند کر کے ایک طرف سنبھال کر رکھ دیا اور شاہی تخت پر بیٹھ کر حکمرانی شروع کر دی۔ شاہی خزانے کے منہ غریبوں کے لیے کھول دیے گئے جو بھی دربار میں حاضر ہوتا اس کی جھولی اشرفیوں سے بھر کر واپس لوٹایا جاتا ۔ دن گزرتے رہے، ایک وقت ایسا بھی آیا کہ ہمسایہ ملک کے بادشاہ نے جب دیکھا کہ فقیر کی بادشاہی میں اس کا ہمسایہ ملک کمزور ہوتا جا رہا ہے تو اس نے اپنی فوج کو حملہ کرنے کا حکم دے دیا ۔
اس حملے کی اطلاع وزیر نے جب فقیر بادشاہ کو دی تو اس نے حکم دیا کہ حلوہ پکایا جائے اور اس کو تقسیم کیا جائے ۔ اس عجیب و غریب حکم کی تعمیل کی گئی اور حسب حکم حلوہ پکا کر تقسیم کر دیا گیا دوسرے روز پھر وزیر نے بادشاہ کو بتایا کہ دشمن ملک کی فوجیں قریب پہنچ گئی ہیں ، اب کیا کیا جائے۔ بادشاہ نے پھر حلوہ پکانے کا حکم جاری کیا ، وزیر اور مشیر یہ سمجھ رہے تھے کہ حلوہ پکانے میں فقیر منش بادشاہ کی کوئی حکمت ہو گی ۔
جب دشمن فوجیں شہر کے باہر پہنچ گئیں تو بادشاہ کو اس کی اطلاع دی گئی، فقیر بادشاہ نے کہا کہ میری گدڑی لائی جائے، وزیر بھاگم بھاگ بادشاہ کے پرانے کپڑے لے آیا۔ بادشاہ نے شاہی خلعت اتاری اور اپنے فقیروں والے بوسیدہ لباس کو زیب تن کیا اور وزیروں مشیروں سے مخاطب ہوئے کہا کہ ہم تو حلوہ کھانے آئے تھے سو حلوہ کھا کر جا رہے ہیں، تم جانو اور تمہارا دشمن ملک جانے۔ یہ کہہ کر بادشاہ شاہی محل سے نکل گیا ۔
یہاں پر بھی آفتوں نے پوری قوم کو گھیرا ہوا ہے، فقیر شھزادہ بادشاہی کے مزے پورے دربار کو حلوہ کھلا کر مزے لے رہا ہے، کہ فقیری میں مانگنا اور حلوہ کھانا ہی سیکھا ہے۔
ایک دن اس نے بھی اپنا لباس فقیری پہن کر وہیں جا پہنچنا ہے جہاں سے وہ ان دنوں پہلے سے پہنچنے والوں کو بلانے کے دعوے فرمائے جاتے ہیں۔
چونکہ فقیروں ہی کے درمیان مقابلہ ہے تو کون کتنا قابل قبول ہے، اس کے لیےانتخاب اپنا اپنا