پولیس اور عدالتیں ڈاکوئوں کو تحفظ فراہم کرنے کے ادارے بن چکے ہیں۔ اسی حقیقت کو وسیع پیمانے اور اعلی و ملک گیر سطح پر دیکھا جائے تو ہم۔جانے کب سے بڑی پرامن اور منظم انارکی ہی میں جی رہے ہیں
آئین، قوانین٬ قواعد وضوابط عمرانی معاہدے کے تحت کسی ریاست کے شہریوں اور مختلف نور کی وحدتوں کی باہمی رضامندی سے جنم لیتے ہیں اور ان کی حیثیت انھیں تسلیم کیے جانے سے مشروط ہے۔ اگر ان کے نفاذ میں انصاف اور مساوی سلوک سے انحراف کیا جارہا ہو، صرف ایک۔طبقے، چند گروہوں، وحدتوں یا افراد ہی کے حق میں استعمال کیا جارہا ہو اور قانون و آئین شکنی سے متاثر کوئی افراد یا گروہ ان کے فوائد سے محروم ہو تو یہ شقیں، دفعات، قوانین اور ضابطے بے معنی ہوجاتے ہیں۔
یہ بھی پڑھئے:
جمہوریت کے خلاف سازش کا ایک اور سنسنی خیز باب
سپریم کورٹ کے فیصلے کے بعد پاکستان کہاں کھڑا ہے؟
پھر بس طاقت کا قانون ہی راج کرتا ہے اور قانون اور انصاف کے ادارے بس تماشا گاہ بن کے رہ جاتے ہیں۔ مثال کے طور پر کراچی میں شہریوں کے ہتھے چڑھ جانے والے ڈاکوئوں کا قتل قانون اور ائین کے بے جان لفظوں میں کسی بھی سزا کا مستحق ہو لیکن مجھ سمیت کراچی والوں کی اکثریت اسے سو فی صد جائز سمجھتی ہے کیوں کہ ریاست کے قوانین اور متعلقہ ادارے شہریوں کو تحفظ فراہم کرنے میں ناکام ہوچکے ہیں۔
الٹا پولیس اور عدالتیں ڈاکوئوں کو تحفظ فراہم کرنے کے ادارے بن چکے ہیں۔ اسی حقیقت کو وسیع پیمانے اور اعلی و ملک گیر سطح پر دیکھا جائے تو ہم۔جانے کب سے بڑی پرامن اور منظم انارکی ہی میں جی رہے ہیں۔ اس ملک کے گلے سڑے نظام میں ائین، عدالتیں اور ائین وقانون سے متعلق تمام ادارے جھوٹ اور فریب کے گورکھ دھندے کے سوا کچھ نہیں رہے۔ یہاں طاقت، دولت٬ مقبولیت اور ضرورت ہی دستور کی من مانی تشریح اور قوانین کا من چاہا نفاذ کرتی ہیں۔ لب لباب یہ ہوا کہ ائین، قوانین اور قواعد کا یک طرفہ اور جانب دارانہ استعمال خود ائین و قانون سے انحراف ہے اور اس انحراف کا مقابلہ ایسے ہی حربوں سے کیس جاتا ہے۔ بس سارا کھیل کس میں ہے کتنا دم کا ہے۔