شاعری انسان کے ذاتی دکھوں، جذبات اور معاملات حسن و عشق کا بیان ہی نہیں بلکہ اپنے عہد کے حالات اور مسائل کا بیان بھی ہے جس کے ذریعے اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ کوئی عہد کس تجربے سے گزرا اور اس زمانے میں سانس لینے والوں پر کیا بیتی۔ ہمارے عہد کے شاعر طاہر حنفی کی شاعری میں یہی مضامین ایسی فن کاری سے ملتے ہیں کہ پڑھنے والا اس کے سحر میں آ جاتا ہے۔ طاہر حنفی 26 نومبر 1955 کو راولپنڈی میں پیدا ھوئے ۔ ایم اے پولٹیکل سائنس پنجاب یورسٹی سے 1981 اور ایم ایس سی ڈیفنس اینڈ اسٹریٹیجک سٹڈیز کی ڈگری نیشنل ڈیفنس یونیورسٹی اسلام آباد سے 2007 میں حاصل کی۔ آپ ایشیا پیسفک سنٹر ہونولولو ہوائی امریکہ2004 اور برمنگھم یونیورسٹی برطانیہ 2008 سے بھی سیکیورٹی اینڈ سٹریٹجک اسٹڈیز میں فارغ التحصیل ہیں 33 برس تک پاکستان کی قومی اسمبلی میں ملازمت کے بعد 2015 میں ایڈیشنل سیکرٹری کے عہدے سے ریٹائر ہوۓ شاعری کا آغاز 1970 میں کیا ان کے پہلے شعری مجموعہ ،، شہرِ نارسا ،، کا، اپریل 2014 میں پہلا ایڈیشن اور جون 2014 میں دوسرا ایڈیشن شائع ھوا دوسرا شعری مجموعہ “گونگی ہجرت” 2019 میں شائع ہوا اور پاکستان اور بیرونی ممالک کے ادبی حلقوں میں اسے خوب سراہا گیا ہے۔ ان کا تیسرے شعری مجموعے ’’خانہ بدوش آنکھیں‘‘ کی اکتوبر کے پہلے عشرے میں اشاعت متوقع ہے، توقع ہے کہ ان کی یہ کتاب بھی قارئین میں مقبول ہوگی۔
جدید اور خوبصورت لب و لہجے میں اشعار کہتے ہیں آئیے ان کے کچھ اشعار آپ کے ذوق مطالعہ کی نذر
*****
مری اداسی کا نقشِ پا ہے، اداس لفظوں کا ایک جنگل
یہ غم کی راتوں کو جانتا ہے، اداس لفظوں کا ایک جنگل
کسی کی آنکھوں میں دھیرے دھیرے اتر رہا ہے،نمی کا بادل
قلم سے کس کے نکل رہا ہے، اداس لفظوں کا ایک جنگل
شکستہ کاغز پر آنسؤں کا بنا ہوا ہے جو ایک تالاب
وہ میری آنکھوں سے بہہ رہا ہے، اداس لفظوں کا ایک جنگل
اٹھائی کل رات ڈائیری اور میں نے کر ڈالی نذرِ آتش
سو ساتھ اس کے ہی جل گیا ہے، اداس لفظوں کا ایک جنگل
کہ دل میں جتنی اذیتیں تھیں،قلم سے طاہر انھیں لکھا ہے
غزل کی صورت میں ڈھل چکا ہے، اداس لفظوں کا ایک جنگل