مرے فلسطین
ترے جوانوں کے زندہ خوں کی
قسم ہے مجھکو
وہ دن قریب آ رہا ہے
جس دن
میں تیری دھرتی کو دشمنوں کے لہو سے تازہ خراج دوں گا
کہ تیری دھرتی نئے اجالوں کی منتظر ہے
میں ان اندھیروں میں جیتے جیتے جوان ہو ہو کے مر رہا ہوں
مرا لہو سرخی وطن ہے
مرے لہو سے یہ شاہراہیں کہ جن کے ماتھے پہ
اک نئ داستاں لکھی ہے
مری ہی پہچان بن گئی ہے
* * **
مرے فلسطیں
مجھے خبر ہے
کہ تیری بوڈھی عظیم ماؤں کی جھیل جیسی عمیق آنکھیں
کہ جن کی پلکوں سے آنسوؤں کی سنہری لڑیاں ڈھلک رہی ہیں
جو اپنے بچوں کے سرخ خوں کا خراج دے کر امر ہوئی ہیں
مجھے خبر ہے
کہ تو نے یاسر سے لاکھوں بیٹے جنم دیۓ ہیں
کہ تو نے لیلیٰ سی بیٹیوں کو فروغ بخشا
جو تیری دھرتی پہ
تیری خاطر
نئے اجالوں کے بیج بونے
نہ جانے کب سے مہیب راتوں کی ظلمتوں سے الجھ رہے ہیں
وہ اک قیامت کا روپ دھارے
نئے خداؤں کے آشیانوں پہ برق بن کر برس رہے ہیں
*****
میں چاہتا ہوں
کہ اے خداۓ عظیم و برتر
مجھے بس اتنی خوشی عطا کر
کہ میں بھی اپنے جواں لہو سے
پیمبروں کی زمیں کو تازہ نکھار بخشوں
میں آگ کی لہر بن کے
ظلمتوں کو پیوند خاک کر دوں
میں جنگ کی داستاں لکھوں
وہ داستاں
جو نڈھال روحوں کو زندگی کا جمال بخشے
******
مرے فلسطیں
میں تیرا بیٹا
اگرچہ یاسر نہ بن سکا میں
تیرے شہیدوں کی رفعتیں میری دسترس سے بہت پرے ہیں
مگر میرے پاس
سچے جزبوں کا بانکپن ہے
وہ سچے جزبے
جو روشنی کی زبان بن کر
نۓ زمانے کو تازہ سورج عطا کریں گے