اس آرٹیکل کو لکھنے سے پہلے کچھ باتیں واضح کرنا بہت ضروری ہیں۔ پہلی بات تو یہ کہ اس پوری لکھائی کو آپ بیتی کہیں یا پھر باپ بیتی سمجھنا تھوڑا مشکل ہے کیونکہ اس میں ذکر دونوں کا ہی ہے۔ پھر دوسری بات یہ کہ کسی سیاسی مسئلے یا معلوماتی چیزوں پر آرٹیکل لکھنا بہت آسان ہے مگر کسی ایک انسان پر آرٹیکل لکھنا جس سے اس کا دل بھی خراب نہ ہو زیادہ مشکل ہے۔ تیسرا یہ کہ جب وہ انسان کوئی اور نہیں بلکہ خود آپ کے والد صاحب ہوں جن کی عزت اور احترام آپ پر لازم ہے اور چوتھا یہ کہ اس کالم نگاری میں خود والد صاحب کا جواب نہ ہو تو یہ میرے لیے اور بھی مشکل ہوجاتا ہے۔
یہاں میں یہ کہنے میں ذرا شرمندگی محسوس نہیں کروں گی کہ یہ آرٹیکل لکھنے سے پہلے میں نے اپنے ہی والد کی تمام تحریروں کو نہ صرف پڑھا بلکہ اس کو کاپی کرنے کی بھی کوشش کی مگر افسوس باپ باپ ہی ہوتا ہے اور اولاد جتنی بھی بڑی ہو جائے اور خود ان کے جوتے میں پاؤں ڈال دے مگر پھر بھی جوتا ڈھیلا ہی رہتا ہے خیر میں نے پھر بھی ان پر آرٹیکل لکھنے کی گستاخی کرہی لی لہٰذا معاف فرمائیے گا۔
یوں تو ہر ریٹائرڈ بوڑھا آدمی عمر کے اس حصے میں اپنے آپ کو خبر کی دنیا کا بادشاہ سمجھتا ہے۔ مطلب خود اس کا صحافت سے تعلق نہ بھی ہو مگر ہر اخبار کو پڑھنا اور ہر نیوز کو دیکھنا اور وہ بھی کئی بار اور بار بار کہ گھر کے باقی لوگوں کو وہ نیوز زبانی یاد ہو جائے اور پھر خود اس نیوز سے متعلق دوسرے تمام نیوز چینل کی نیوز کو جوڑنا اور ملانا ان کا ہر روز کا مشغلہ ہو۔صرف یہی نہیں بلکہ ہر جانے والے کو اس نیوز کی آگاہی دینا اور کچھ اس طرح کے جیسے نیوز خود کتاب کی صورت میں ان کے پاس رکھی ہے اور یہ اس کتاب کو پڑھ رہے ہیں اور ان سے زیادہ تو کسی کو اس کے بارے میں معلومات ہو ہی نہیں سکتی ان کی عادت بن جاتی ہے۔
آپ ان لوگوں سے کچھ کہہ نہیں سکتے کیونکہ یہ ان کے وقت گزارنے کا اہم سہارا ہوتا ہے۔ میرے والد محترم بھی انہی میں سے ایک ہیں مگر والد صاحب کا صحافت سے بھی گہرا تعلق ہے لہٰذا جیسے ہی کورونا کی خبر نیوز چینلز پر گونجی تو میرے والد صاحب نے بھی ساری دوسری خبروں کو چھوڑ کر پورا دھیان کورونا پر ہی لگا لیا۔ ہر خبر، ہر ویب سائٹ اور ہر وہ معلومات جو دوسروں سے ملتی والد صاحب اسے نہ صرف پڑھتے اور سنتے بلکہ ہم سب گھر والوں اور اپنے تمام دوستوں اور رشتے داروں کو بھیجنے میں بھی پہل کرتے۔ اور اخبارات میں کرونہ پر کئی کالم بھی لکھ ڈالے۔
لہٰذا اوروں کی طرح گھر والوں کو بھی یوں محسوس ہوا کہ چو نکہ ملک میں لاک ڈاؤن لگا ہے اور سب اپنے گھروں میں محصور ہیں اور اب والد صاحب کچھ نہ ہونے کی وجہ سے اس کورونا کی معلومات میں مصروف ہین اور کیونکہ وہ خود ساری معلومات دوسروں کو بھیج رہے ہیں لہذا خود بھی اس پر عمل کر ہی رہے ہونگے۔
لیکن جیسے ہی لاک ڈاؤن ہٹا تو والد صاحب نے اپنے آپ کو ایسا آزاد محسوس کیا جیسے بچے اسکول میں چھٹی کی گھنٹی بجنے پرمحسوس کرتے ہیں۔ لہٰذا اس لاک ٹاؤن کے ختم ہوتے ہی والد صاحب نے پاکستان کے دوسرے لوگوں کی طرح کورونا کے بارے میں تمام جانکاری ہونے کے باوجود لوگوں سے ملنا، شادیوں میں جانا، ہسپتال میں دوستوں اور رشتہ داروں کی عیادت کرنا، مشاعروں میں جانا اور مذہبی محفلوں میں بھی حاضری لگانا شروع کر دی۔
کورونا کسی کا سگا تو ہے نہیں اس کو حملہ کرنا تھا اس نے موقع ملتے ہی حملہ کردیا شروع میں جب طبیعت خراب ہوئی توان کو قریب ہی فدائی اسپتال لے جایا گیا تو ڈاکٹر نےموسم کا اثر ہے کہہ کر گھر بھیچ دیا مگر جیسے ہی کورونا کا وار سخت ہوا تو ایسا لگا جیسے لہو منہ کو لگ گیا ہے۔ اب تک جو کچھ کورونا کے بارے میں دوسروں سے سنا اور نیوز میں دیکھا تھا آج وہی والد صاحب کے پھیپھڑوں کے اندر رقص کر رہا تھا۔ افسوس اس بات کا ہے کہ پاکستان کے ڈاکٹرز جن کو میں دنیا کے سب سے بہترین ڈاکٹرز میں شمار کرتی ہوں مرض بھانپنے میں کافی دیر لگائی شروعات میں موسمی زکام اور وقتی موسمی اثر بتا کر ہم سب کو مطمئن کر دیا جب کہ اس حالت میں کرونا ٹیسٹ تو بنتا تھا جہاں پوری دنیا پیر کی ہڈی کے علاج کے لیے بھی کرونا ٹیسٹ کروا رہی ہے وہیں ہمارے ڈاکٹر اس کو صرف موسمی ذکام بتا کر لوگوں کو مزید اس بیماری کو پھیلانےکا موقع دے رہے ہیں۔
کیونکہ جب تک مریض کو پتہ ہی نہیں ہوگا کہ کورونا ہوا ہے اور اب اپنے آپ کو کورنٹین کرنا ہے اتنی دیر میں نہ جانے کتنے اور لوگ اس کاشکار ہو سکتے ہیں اور ہوا بھی کچھ ایسا ہی ہے والد صاحب کی طبیعت کو موسمی زکام سمجھ کر گھر آئی ہوئی میری بڑی بہن جو کچھ دن کے لیے والدین سے ملنے آئی تھی وہ بھی اس کا شکار ہو گئی اور واپس جاتے جاتے جہیز کی صورت میں کورونابھی اپنے گھر لے گئی اور یوں انجانےطور پر اور لوگ بھی اس کا شکار ہوگئے اور یوں کورونہ نے اپنا وار سخت کرنا شروع کر دیا۔ گھر والے ویسے ہی والد صاحب کی طبیعت کو لے کر پریشان تھے اور اب بہن اور امی کی طبیعت بھی خراب ہوگئی۔ ان سب کی حالت دیکھتے ہوئے پاکستان میں مقیم چھوٹی بہن اور چھوٹے بھائی ہی نہیں بلکہ پریشانی کی لہر ریاض اور لندن میں مقیم بڑے بھائی اور مجھ تک بھی جا پہنچی اور یوں ایک گھر کی پوری دنیا ہی کورونا کی زد میں تھی۔
کورونا جب والد صاحب کی باڈی میں تھوڑا بے قابو ہوا تو ان کو فورا آغا خان اور لیاقت نیشنل جیسے بڑے ہسپتال لے جایا گیا مگر ان دونوں ہسپتالوں نے داخل کرنے سے ہی انکار کردیا یہ کہہ کر کے ان کا کورونا ٹیسٹ ہی نہیں ہوا اور اس وجہ سے ان کو فورا ڈو میڈیکل ہسپتال لے جایاگیا وہاں ان کی آکسیجن چیک کرکے فورا آکسیجن ماسک لگایا گیا اور دیگر ضروری اقدامات کئے گئے۔ اور تھوڑا سد ھار آتے ہی یہ کہہ کر گھر بھیج دیا کہ ان کو گھر میں ہی آکسیجن لگوائیں اور کورنٹین کروائیں یہاں تک بھی کسی نے کورونا ٹیسٹ نہیں کروایا نا فدائی اسپتال والوں نے جہاں پہلے گئے تھے اور نہ ڈو میڈیکل والوں نےجنہوں نے والد صاحب کو کورنٹین کروانے کو کہا تھا۔
مگر اب گھر والوں کو سمجھ آ گیا تھا کہ والد صاحب کو کورونا ہو چکا ہے ۔چھوٹا بھائی جو والد صاحب کے زیادہ قریب ہے ان کو وہاں چھوڑنے پر راضی نہ تھا اس ارادے سے گھر لے آیا کہ خود ہی ان کا خیال رکھے گا گھر آتے ہی والد صاحب کو فورا کورنٹین کیا گیا اور آکسیجن سلنڈر بھی منگوا لیا گیا دو دن والد صاحب کی طبیعت ٹھیک رہی مگر تیسرے دن کورونا کا اثر تیز ہوا تو ان کو فورا ڈاؤ میڈیکل اسپتال لے جایا گیا جہاں ان کی حالت دیکھتے ہی فوراً داخل کرلیا گیا اور آکسیجن بھی لگائی گئی وہاں کے ڈاکٹرز نے ان کا کافی خیال رکھا جس کی وجہ سے گھر والے خاص طور پر چھوٹا بھائی کافی مطمئن تھے۔
والد صاحب آٹھ دن تک وہاں زیر علاج رہے اور حالت میں بہتری آتے ہی نہ صرف وہاں کی تصاویریں لیں بلکہ گھر آتے ہی اس کو آرٹیکل کی صورت میں بھی ڈھال دیا اور زبان چکھا سب اس میں لکھ ڈالا۔ یہ صحافت کے حوالے سے ان کا فرض بھی تھا کہ اپنے حالات اور کورونا کے وار سے دنیا کو باخبر کریں۔ میری بس یہی درخواست ہے کہ پاکستانی ڈاکٹرز خود بھی کورونا کو سنجیدگی سے لیں۔ اس ایک کیس میں پورے دو مہینے سے زیادہ لگا اس کو پکڑنے اور علاج کرنے میں۔ وہ اگر پہلی بار میں ہی ٹیسٹ کروالیتے تو مریض فورا ہی کورنٹین کر لیتا اور ضروری علاج بھی بر وقت ہوجاتا۔ اور کوئی اور بھی اس کا شکار نہ بنتا۔
رہی بات والد صاحب کی تو دراصل بچے اور بوڑھےمیں کوئی خاص فرق نہیں ہوتا۔ دونوں ہی سنتے سبکی ہیں اور مگر کرتے اپنی ہیں یا پھر یوں کہوں کہ بوڑھا اور بچہ برابر ہوتے ہیں تو غلط نہ ہو گا۔ بس ان کو سمجھانے کا اور ان سے اپنی بات منوانے کا طریقہ الگ ہوتا ہے۔ والد صاحب کی حالت میں کافی حد تک سدھار ہے تو اندر کا بچہ پھر سے باہر جانے کو مچل رہا ہے جس پر گھر والے خاص طور سے دونوں بھائی روکنے کی کوشش کرتے ہیں کبھی ہاتھ جوڑ کر تو کبھی ناراضگی کا اظہار کر کے۔ اس لیے کہتے ہیں کہ پہلے ماں باپ بچوں کو پالتے اور سمجھاتے ہیں اور بعد میں بچے اپنے والدین کو سمجھاتے ہیں یہی دستور دنیا ہے اور صحیح بھی ہے۔
آخر میں بس اتنا ہی کہونگی کہ
. . اے خدا میرے ابو سلامت رہیں۔
کندھوں پہ میرے جب بوجھ بڑھ جاتے ہیں۔۔۔۔
میرے بابا مجھے شدت سے یاد آتے ہیں ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔