مسئلہ تحریک انصاف یا عمران کا نہیں بلکہ اس نظام اور اس نظام کی کوکھ سے جنم لینے والی سوچ کا ہے۔ مجھے یاد ہے کہ تحریک انصاف کی سوچ رکھنے والے میرے انتہائی اچھے، قابل اور قربانی کا جذبہ رکھنے والے دوست اچھی خاصی نوکریاں چھوڑنے بلکہ چھوڑ کر کچھ کر دکھانے کے جذبہ سے سرشار اس نئی حکومت اور فضاء میں کام کرنے کے لئیے نہ صرف تیار ہوئے بلکہ کوشش بھی کی۔
لیکن دیکھتے دیکھتے جب پیروں سے نظر اٹھا کر نئے پاکستان کا سر اور چہرہ دیکھا تو وہی سر اور چہرے نظر آئے جن کا فسانے میں کہیں نام تک نہ تھا۔ اُردو محاورے کی زبان میں بولے تو گاؤں بسا نہیں تھا کہ پرانے لٹیرے پہنچ گئے تھے۔ ان لٹیروں کو میرے مخلص دوستوں کے برعکس گاؤں کے رستوں کا بھی پتا تھا اور مختلف گھروں میں پڑے مال کا بھی جو لٹنے کو ہر وقت موجود رہتا ہے۔ میرے ساتھی شریف تھے، ڈرپوک تھے جس وقت وہ یہ سوچ رہے تھے کہ یار میں کسی کو کیا بتاؤں کہ تحریک انصاف کے لئیے میں نے کیا کیا ہے یا یہ کہ یار اب میں اپنے منہ سے کیا کہوں کہ میں کیا کیا کر سکتا ہوں کتنے کام کا بندہ ہوں، ڈاکو اس وقت عمران کو استعمال کرکے کام کے لئیے بندے نہیں بلکہ بندوں کے لئیے کام ڈھونڈ رہے تھے۔
پرانے گھاگ ڈاکوؤں کو پتا تھا کہ عزت آنی جانی چیز ہے۔ جس ملک میں دو وزراعظم کو سینکڑوں عوام کے سامنے مارا گیا، ایک آرمی چیف، ایک ائیر چیف ہوا میں ہی غائب ہو گئے، جہاں لوٹ مار والوں کو اس لئیے بار بار لایا جاتا ہے کہ ان کو ڈیل کرنا آسان ہے وہاں کسی نے کیا پوچھنا ہے اور جہاں پڑدادا کی کرپشن کی داستان پڑ پوتے کے اقتدار میں آنے کے بعد سامنے آتی ہے جب کرپشن کرنے والے پڑدادا کی ہڈیاں تک مٹی بن چکی ہوتی ہیں اور جہاں لوٹ کا مال تقسیم کرکے قانوناً آپ رہا کیے جائیں وہاں اگر ڈکیتی کا پتا لگ بھی جائے تو کیا مضائقہ۔
نوے دن دو سال میں بدل بھی گئے اور عوام ذلیل سے ذلیل تر ہو گئے ہیں کیونکہ ٹیم نوے دن والی نہیں بلکہ نوے فیصد وہی تھی جو دس برس لوٹ کا تجربہ رکھتی تھی۔ کوئی بھی تحریک انصاف کا ورکر صرف نظر دوڑا کر دیکھے دس فیصد سے زیادہ حقیقی ورکر اقتدار میں نظر نہیں آئے گا۔ بلکہ اب تو یہ کہا جا رہا ہے کہ تحریک انصاف کے نام پر قوم کے ساتھ فراڈ ہوا ہے وہ عوام جو حکمران خاندانوں اور غنڈوں سے تنگ آ چکی تھی اور کسی انقلاب کی طرف گامزن تھی ان کو روکنے اور موڑنے کے لئیے یہ سارا ڈرامہ کیا گیا کہ عوام جب بھی تبدیلی کا سوچیں ان کو یاد دلایا جائے کہ وہ ایک ناکام کوشش کر چکے ہیں۔ ان کے پاس دوسری غلطی کی گنجائش نہیں ہے۔ میرے وہ ساتھی فی الوقت کڑتے رہیں اور انتظار کریں کہ یا تو سارے ڈاکو ختم ہو جائیں اور یا وہ دن آئیں جب لٹنے کو کچھ نہ بچے اور ڈاکو یہ کہہ کر گاؤں چھوڑ دیں “مزاہ نہیں آیا یار، کیا فضول عوام ہیں، کچھ بھی نہیں ان کے پاس۔۔۔”