ذرا دھیرج قبلہ، ذرا دھیرج! ایک مرتبہ پھر سوچ لیں یہ آپ کے کرنے کا کام ہے یا آپ غلط پچ پر کھیل رہے ہیں، کہیں دور نہ جائیں کیا بنگلہ دیش ، بھارت، سری لنکا، غرضکسی جگہ بھی حکومت کے انتظامی امور میں ایسی مداخلت ہوئی ہے، دنیا کے 160 ممالک کرونا وائرس سے متاثر ہیں، لاک ڈاؤن کے تجربے سے گزررہے ہیں اچھے برے حالات کا سامنا کررہے ہیں اور یہ نہیں کہ وہ کوئی بہت ترقی یافتہ ملک ہیں اکٹریت ہماری طرح کی ہے، ہمارے جیسے غریب ہیں لیکن وہاں تو کوئی ان امور میں مداخلت نہی کرتا، ہر شعبہ اپنا کام کرتا ہے
آپ نے کتنے ڈاکٹر کو اپنے پاس مشورہ کے لیے بلایا۔ کن ڈاکٹروں سے آپ نے رائے لی، چیف صاحب سارے ملک کے ڈاکٹر متفقہ طور پر کہتے ہیں کہ سوشل ڈسٹنسگ کرو، ایک دوسرے سے دور رہو، ہاتھ کو دھوتے رہو،گھر میں بیٹھے رہنا
کورونا وائرس سے دنیا میں سوا تین لاکھ اموات ہو چکیں۔ پاکستان میں روزانہ مریضوں کی تعداد اور اموات میں اضافہ ہو رہا ہے۔ وفاقی وزیر فواد چوہدری نے بھی اس سال کے وسط تک اس وبا کے انتہا پر جانے کا کہا ہے۔ اس وبا سے لڑنے والے ڈاکٹروں اور ہسپتال میں موجود عملے کے سیکڑوں افراد اس مرض کا شکار بھی ہوچکے اور مر بھی چکے ہیں
اب اس عالم میں آپ عید کے کپڑوں کی فکر کرنے لگے، عید کے نئے کپڑے دلانا آپ کی ذمہ داری ہوگئی ہے۔ انتظامی افسران سے ایسے بات کی جاتی جیسے وہ جھوٹے ہوں آج ان سے عید کے کپڑوں کی بازپرس ہورہی ہے کل لوگوں کے مرنے پر ذمہ داری ان ہی سیاسی قائدین اور حکومتوں پر ڈال دی جائے گی ۔ آپ کے حکم پر سب بازار کھول دیے گئے ہیں۔ ساری دکانیں اور شاپنگ مالز بھی کھل گئے ہیں، 21 رمضان کے جلوس نے جو مرض پھیلانا ٹھا اب اس کی انتہا ہوجائے گی۔اب سب اپنی آنکھیں کھلی رکھیں تو شاید کچھ بچ سکیں۔
پاکستان کی سرکاری ویب سائٹ کے مطابق کیس 42 ہزار سے زیادہ ہو چکے ہیں اور اموات 903۔ ابھی کچھ دن گزرے پہلے مریض کی ہلاکت کی خبر آئی تھی۔ اب اللہ جانے کتنے گھروں کے چراغ بجھیں گے لیکن عوام سپریم کورٹ کی مہربانی سے نئے کپڑے پہن لیں گے ۔
کاش کبھی منتخب حکومتوں کو ہٹا کر آنے والے آمروں کے خلاف بھی کوئی ایسا فیصلہ آتا، کاش کبھی آئین کو پامال کرنے والے بھی کٹھرے میں کھڑے ہوتے کاش 12 مئی کو چیف جسٹس افتخار محمد چوہدری کی آمد کے موقع پر ہونے والے قتل عام کے مجرموں کو پکڑا جاتا، کاش بلدیہ فیکٹری میں نذر آتش کئے گئے 300 غریبوں کا کوئی والی وارث ہوتا، کاش یہ سب کچھ ہوتا۔