مرشد سے میرا تعلق کوئی دستوری، آئینی یا نظمیہ نہیں تھا میرا سارا تعلق غزلیہ تعلق تھا میرا سارا تعلق محبوبانہ تعلق تھا، وہ میرے محبوب تھے، میں مرشد کا قصیدہ گو تھا میں مرشد کا غزل خواں تھا، ہوں اور رہوں گا، مرشد اپنے قبیلے سے بچھڑگئے تھے ان کا قبیلہ 1400 سال پہلے آچکا تھا اور دنیا پر چھاچکا تھا، وہ قبیلہ کہ جس کی تشکیل مکہ میں ہوئی اور وہ 23 سال میں مدینہ منورہ میں مکمل ہوا، پاکباز و پاکیزہ روحوں کا وہ قبیلہ کہ اس جیسے نفوس دنیا کے نقشے پر نہ اس سے پہلے دکھائی دئے نہ آئندہ کبھی نظر آئیں گے۔
مرشد اسی حق گو اور بہادر قبیلے کی بچھڑی ہوئی بھٹکی ہوئی روح تھے جو ایک ایسی قوم اور خطے میں آگئی کہ جہاں صدیوں سے صرف غلام آباد ہیں اور نہ جانے کب ٹک رہیں گے ، وہ 52 گز کا آدمی بالشتیوں کے دیس میں پیدا ہوگیا، اور یہ بالشتیے اپنے پنجوں پر کھڑے ہوکر اس کا دامن کھنچتے رہے، وہ رستم و سھراب سے زیادہ بہادر ہاری ہوئی اور دھتکاری ہوئی قوم میں پیدا ہوگیا، وہ منصور حلاج اور سرمد سے زیادہ سچا، جھوٹے کاذب اور مکاروں کے درمیان آگیا، وہ ایسا سچا تھا کہ اس کا سچ اس کی اپنی جماعت برداشت نہ کرسکی وہ جماعت کہ جو اس سید زادے کے خون میں ساتھ ساتھ بہتی تھی وہ جماعت کہ جو سید کا پہلا اور صرف پہلا عشق تھی کہ اس جماعت کے علاوہ سید منور حسن نے کسی سے دل نہیں لگایا کسی کو دل میں نہی بسایا۔
برادر عطا محمد تبسم کہ ہمیشہ مجھ پر مہربان رہے ہیں، میرے مربی اور محسن ہیں، آج سید صاحب پر مرتب کی گئی پہلی کتاب میرے لئے لائے، یہ ساتھ ساتھ بتاتا چلوں کہ میں اس کتاب کو دوبار پڑھ چکا ہوں اس کتاب کی نوک پلک سنوارنے میں کچھ وقت میں نے بھی لگایا ہے جس کا ذکر عطا بھائی نے بھی کیا ہے، میں نہ عطا بھائی کی تعریف کروں گا نہ یہ بتائوں گا کہ اس کتاب کو لانے کے لئے سفید پوش عطا بھائی کو کیا مشکلات پیش آئیں، یہ کتاب پہلا تحریری مواد ہے جو سید صاحب کو سن کر ،ان کے پاس بیٹھ کر اور گھنٹوں لگا کر لکھا گیا ہے، یہ سید پر آنے والی پہلی کتاب ضرور ہے لیکن آخری نہیں، سید صاحب سیاست کے طالبعلموں کے لئے ایک ایسا موضوع ہیں کہ جن پر انکی زندگی میں بےشمار کتابیں اور مقالات آنے چاہئے تھے لیکن کیا کیا جائے کہ جب انکی جماعت نے 65 سال تک پاکستانی سیاست کے متحرک کردار کی یادداشتوں کو محفوظ کرنے کا کوئی انتظام نہیںکیا، عطا بھائی آپ خوش قسمت ہیں کہ آپ نے اس جنتی روح کے لئے یہ کام کیا، ایک درخواست ان تمام دوستوں سے کہ جو اس کتاب کو پڑھیں گے کہ عطا بھائی ایک سفید پوش آدمی ہیں۔