میرغوث بخش بزنجو قوم پرست بلوچ لیڈر اور ایک بڑا نام، چونکہ سٹوڈنٹ لائف میں میں بھی کمیونسٹ نظریات کا حامل تھاتولامحالہ بزنجو صاحب سے بھی متاثر رہا،اگرچہ سرایکی اشو انہوں نے ہی پہلی بار کسی سیاسی جماعت کی بنیاد پر اٹھایا تھا لیکن پھر بھی ان کا احترام باقی رہا لیکن اس وقت مجھ پر حیرتوں کےپہاڑ ٹوٹ پڑے جب شاہ ایران کی خفیہ ایجنسی ساواک کے آخری چیف کی کتاب کے اقتباسات ایک اخبار ڈان کے بک ریویو سیکشن میں پڑھے جن میں بزنجو کو ایرانی خفیہ ایجنسی ساواک کے پے رول پر بتایا گیا، مجھے کافی دیر تک یقین نہ آیا، ساواک ایک بدنام زمانہ خفیہ ایجنسی تھی جو سیاسی مخالفین کو غائب کرنے اور بدترین تشدد کرکے ہلاک کرنے کی شہرت رکھتی تھی،ساواک سخت کمیونسٹ دشمن تھی،
بزنجو صاحب لیفٹ کے سیاستدان تھے اور جب بلوچستان میں نیپ کی پہلی گورنمنٹ بنی تو شاہ ایران کو کمیونسٹ گورنمنٹ بننے پر اعتراض تھا ، پھر بھٹو صاحب نے نیپ گورنمنٹ ڈسمس کردی ، بلوچ نوجوان پہاڑوں پر چڑھ گئے ، بلوچ بغاوت کچلنے میں پاکستانی فوج کے ساتھ ایرانی ایئر فورس نے بھی حصہ لیا تھا۔
اس بیک گراؤنڈ کے بعد ساواک چیف کا انکشاف خوفناک تھا،
20 سال بعد :
کراچی میں ایک جرنلسٹ ہواکرتے تھے جو میرے والد کے کولیگ بھی رہے اور کٹر مارکسی تھے ، ڈاکٹر اعزاز نذیر جیسے کمیونسٹ لیڈر اور دانشور سے ان کی بڑی قربت تھی ،وہ جرنلسٹ پاکستان میں پرتشدد خونی انقلاب کی باتیں کرتے، بعد ازاں امریکا چلے گئیے،
20 سال پہلے نیویارک میں ایک محفل میں اچانک ان سے ملاقات ہوگئی ، باتوں باتوں میں ، میں نے ساواک چیف کے انکشاف کا زکر کیا تو گہری سوچ میں ڈوب گئیے ، پھر ٹھہر ٹھہر کر بولے
“شہزاد، آج تم نے میرے زہن کی پرانی گتھی سلجھادی ، جب میں نوجوان انقلابی ہوتا تھا تو بزنجو صاحب کے بنگلے پر ساتھیوں سمیت حاضر ہوتا توان کے پاس اس وقت ایک سیٹلائٹ فون بھی ہوتا تھا جوکسی کے پاس نہیں ہوتا تھا ، جب وہ فون آتا تو وہ محفل سے اٹھکر چلے جاتے ، کبھی نئیں بتایا کہ فون کس کا تھا نہ کبھی کسی کے سامنے کال اٹینڈ کرتے جبکہ وہ عام ٹیلی فون والی سیاسی گفتگو شیئر کرتے تھے،میں ہمیشہ اس بارے متجسس رہتا کہ وہ ہم نظریاتی ساتھیوں سے ایسا کیا چھپاتے تھے،تو آج پتہ چلا کہ وہ سیٹلائٹ فون بزنجو کو کس نے دیا تھا”۔
وہ صاحب اب امریکا میں ہیں ،کمیونسٹ نظریات سے تائب ہوچکے ہیں اور اپنی تمام جدوجہد کو وقت کا ضیاع سمجھتے ہیں ۔
اس سے اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ سیاسی لیڈر نوجوانوں کو نظریات کے نام پر کیسے استعمال کرتے رہے،