بالاخر وہ معاہدہ طے پاہی گیا جس کی عدم موجودگی کی وجہ سے امریکن سٹورز خالی پڑے تھے اور شاپنگ مال میں خریداروں کو اشیا نہیں مل رہی تھیں ، معاہدہ صدر بائیڈن نے یونین ، شپنگ کمپنیز اور جائنٹ ریٹیل کمپنیوں کے درمیان کروایا ہےاس میں وال مارٹ اور ٹارگٹ جیسی بڑی ریٹیلرز کمپنیوں نے بھی حصہ لیا۔
اس کے تحت لاس اینجلز پورٹ چوبیس گھنٹے ساتوں دن کام کرے گی ، صورت حال یہ تھی کہ چھ چھ ماہ سے سامان سے لدے بحری جہازوں کی قطاریں پورٹ پر باری کے انتظار میں کھڑی تھیں ،ڈھائی لاکھ کنٹیرز صرف پورٹ پر پڑا ہواتھا لیکن سٹوریج اور ٹرک دستیاب نئیں تھے ، امریکا دنیا کی سب سے بڑی کنزیومر مارکیٹ اور سب سے بڑی مڈل کلاس ہے، لوگوں کے پاس خریداری کےلئے ڈالرز تو موجود ہیں لیکن اشیا موجود نہیں کیونکہ گھریلو اور عام استعمال کی اشیا چین ، براعظم لاطینی امریکا کے ممالک اور دیگر ترقی پذیر ملکوں سے آتی ہیں ، کووڈ کی وجہ سے امریکا کو کنزیومر گڈز کی سپلائی متاثر ہوگئی اور وہ سٹورز اور شاپنگ مال جو نئے فیشن کی اشیا سےبھرے ہوتے تھے ایک سال سے خالی پڑے ہیں ، امریکن ہر تین ماہ بعد کپڑے اور اشیا تبدیل کردیتے ہیں چاہے وہ نئی حالت میں ہی کیوں نہ ہوں ، یہ نئے فیشن کے کپڑے ، شوز ہربار خریدتے ہیں ،
امید ہے کہ اب امریکن سٹورز کو مال کی سپلائی شروع ہوجائے گی ، رونقیں واپس آجائیں گی ، نومبر کا لاسٹ جمعہ امریکا میں بلیک فرائیڈے کہلاتا ہے ، اس رات لوگوں کی لمبی لائنیں ہرشاپنگ مال کے سامنے لگ جاتی ہیں اور گھنٹوں میں بڑے بڑے سٹورز خالی ہوجاتے ہیں لیکن اس بار اشیا ہی نہیں تھیں جس کا سیاسی فائدہ مخالف پارٹی ری پبلیکن نے اٹھانا تھا اورویسے بھی مڈٹرم الیکشن آنے والے ہیں۔
لیکن صورتحال کا ایک پہلو یہ بھی ہے کہ امریکا میں ٹرک ڈرایئورز کی کمی ہوگئی ہے، امریکا بہت بڑا ملک ہے ، نیویارک سے لاس اینجلز کا زمینی فاصلہ تین ہزارمیل ہے ،کلومیٹر میں حساب خود ہی لگالیں، ٹرک ڈرایئور کو ابتدائی تنخواہ 40 ڈالر فی گھنٹہ ملتی ہے اور اب تو paid trainingکی آفرز دی جارہی ہیں لیکن ٹرک ڈرایئورز کوشکایت ہے کہ ہمیں معاوضہ کم مل رہا ہے،درجنوں پاکستانی ٹرک کی طرف چلے گئے ہیں ، نظر نہیں آتے، لمبے لمبی روٹ پر ہائی ویز پر بڑے بڑے ٹرک دوڑاتے پھرتے، قیام کے لئے راستے میں تھری سٹار ہوٹل اور طعام کی زمے داری بھی کمپنی کی۔
اب امریکا نے نومبر سے میکسیکو اور کینیڈا بارڈر کھولنے کا اعلان بھی کردیا ہے۔
ایک جاننے والا سردار نظر آیا تو میں نے پوچھا کیسی چل رہی ہے جاب؟
بولا،۔” ویر ڈالر تے تگڑے بن رئے نیں ،پر آپاں نوں سکون تد ہی لبھ دا وا جد پنسلوانیا توں نیویارک دی بلڈنگز نظر آن لگ پیندیاں نیں، ساڈا دل اپنے شہر نیویارک دے بغیر نہیں لگ دا، دیسی رونق میلہ بس ایتھے ای وا۔”