بلاول ملکی سیاست میں تازہ ہواکا جھونکاتھا، پی پی کی پنجاب دشمن پالیسیزکے باوجودمجھے بلاول سے بہت سی توقعات تھیں کہ وہ نئی سوچ کےساتھ پی پی کولیڈکرکے اس کا کھویاہویامقام پھر حاصل کرسکےگااورپنجابیوں کی سرایکی اشوکے سازشی منصوبےسےناراضگی دورکرسکےگا۔
لیکن یہ تمام توقعات اس وقت خاک میں مل گئیں جب میں نےدیکھاکہ بلاول ایک سیاسی لیڈرکی بجائے زرداری کا شوبوائے بن چکاہے ۔ ایسا کٹھ پتلی جس کی ڈور زرداری اور فریال تالپورہلاتے ہیں چنانچہ آج تک بلاول اپنی کوئی زاتی سیاسی حیثیت نہیں بناسکا، وہ جو کچھ بھی ہے زرداری کی وجہ سے ،جبکہ زرداری پی پی پرگرفت ڈھیلی کرنے کے قطعی موڈ میں نہیں، تلخ حقیقت تو یہ ہے کہ کوئی بھی اس وقت تک بڑا لیڈرنہیں بن سکتا جب تک وہ فیصلوں سے ازادانہ وجود ثابت نہ کردے۔ یاد رکھنا ہوگا کہ بے نظیرگرچہ بھٹو کی بیٹی تھی لیکن اس نے ازادانہ حیثیت منوائی تھی ،اسی وجہ سے بے نظیر کولیڈر مانا جاتا ہے۔
سوچنے کی بات یہ ہے کہ کیا بے نظیر بھٹو پی پی پر کنٹرول اورلیڈرشپ منواسکتی تھی اگروہ نصرت بھٹو کے اشاروں پر چلتی رہتی ؟ بے نظیرنے مضبوط فیصلہ کرتے ہوئے پی پی لیڈرشپ نصرت بھٹو سے چھین کرانھیں گھربھیج دیااور بھٹوکے ساتھیوں یعنی انکلزکو بھی نکال باہر کیا۔
کیا بلاول نے پی پی میں اپنا وجود منوانے کےلئے ایسا کوئی قدم اٹھایا؟ یقینن ابتدا میں بلاول بغاوت کرکے لندن چلاگیا اور خاموش بیٹھ گیا لیکن زرداری نے میٹھی گولی دے کربلاول کوپھررام کرلیا۔ میرا ماننا ہے کہ بلاول کے راستے میں سب سے بڑی رکاوٹ کوئی اور نہیں خود اس کا باپ آصف زرداری ہے۔ اگر بلاول نے خود کو منوانا ہے تو سب سے پہلے زرداری اور فریال کو پی پی سے نکال باہر کرنا ہوگا۔
اب آتے ہیں مریم نواز کی شخصیت اورسیاست کی طرف تو کوئی بڑے سے بڑا ناقد بھی مریم کی کامیاب لیڈرشپ اور کرشمہ ساز شخصیت سے انکارنہیں کرسکتا، مریم نے صرف ایک سال میں پنجاب کو ہلا کررکھ دیا۔ اپنی ازادنہ سوچ اور فیصلوں سے ن لیگ میں اپنی جگہ بنالی ہے ،
گرچہ مریم نوازصرف نائب صدرہے لیکن پارٹی ورکراورپنجابی ووٹرشہبازشریف یا کسی اور کو نہیں صرف مریم نواز کوجانتا ہے۔ مریم نواز کی سیاست میں انٹری سے پہلے میرے زہن میں کئی خدشات تھے کہ نوازشریف کی صحت اورعمرکے حساب سے دیکھا جائے تو اگلی لیڈرشپ کس کے پاس ہوگی ؟
شہبازشریف کرشمہ سازشخصیت نہیں ہے،کہیں پنجاب پرزرداری اورعمران خان آسیب بنکرمسلط نہ ہوجائیں لیکن مریم نواز کی سیاست میں انٹری نےخدشات کورفع کردیا کہ پنجاب اب یتیم نہیں اوردونوں بھیڑیوں کے لئے ترنوالہ ثابت نہیں ہوگا۔ مجھے پنجاب کےحوالےسے مستقبل میں مریم نوازسے بڑی امیدیں وابستہ ہیں۔
یقینن اسٹبلشمنٹ کو مریم نواز ہی کو قبول کرنا پڑے گا کیونکہ کوئی بھی مصنوعی لیڈرشپ پنجاب پرمسلط کرنے کا نتیجہ سیاسی بحران کو مزید سنگین کردے گا جیساکہ عمران خان کو مسلط کرنے کے بعد اسٹبلشمنٹ کے پیروں تلے سے زمین نکلی ہوئی ہے۔
وجہ یہی ہے کہ نوازشریف نے مریم کوفری ہینڈ دیا۔