کشمیر کی سیاسی تاریخ میں تیرہ جولائی 1931ء کا دن بڑی اہمیت کا حامل سمجھا جاتا ہے ، یہی وہ دن تھا جب شہیدوں کے خون سے تحریک حریت کشمیر کا باقاعدہ آغاز ہوا تھا۔
اس واقعہ کا پس منظر کچھ یوں تھا کہ چند ہفتہ پہلے 21 جون 1931ء کو سید علی ہمدانی کی درگاہ میں فرزندان کشمیر کا ایک جلسہ منعقد ہوا جس میں انہوں نے ایک ہندو کانسٹیبل کے ہاتھوں توہین قرآن پر احتجاج کیا تھا۔ یہ جلسہ اختتام پذیر ہونے ہی والا تھا کہ اچانک مجمع سے اجنبی نوجوان، عبدالقدیر خان کھڑا ہوا اور اس نے عوام کو مخاطب کرتے ہوئے انہیں ظلم کے خلاف اٹھ کھڑے ہونے کی دعوت دی۔
اس واقعے کے بعد ریاست کی حکومت نے عبدالقدیر خان کو گرفتار کرلیا اور اس پر عوام کو بغاوت پر اکسانے کا مقدمہ قائم کردیا۔ یہ مقدمہ چونکہ اپنی نوعیت کا پہلا مقدمہ تھا اس لیے عام لوگوں کو ملزم سے ہمدردی اور اس مقدمے سے بڑی دلچسپی پیدا ہوگئی۔
تیرہ جولائی 1931ءکو سینٹرل جیل کشمیر میں عبدالقدیر خان پر قائم کردہ مقدمے کی سماعت کا آغاز ہوا۔ اس موقع پر ملزم سے اخوت اور یکجہتی کے مظاہرے کے لیے ہزاروں افراد جیل کے احاطے کے باہر جمع ہوگئے۔ابھی مقدمے کی سماعت جاری تھی کہ نماز ظہر کا وقت ہوگیا۔ اس موقع پر عوام نے جیل کے نزدیک نماز کے اہتمام کے لیے اذان دینی چاہی تو ان کے اس ارادے کی راہ میں ریاستی پولیس حائل ہوگئی۔ چنانچہ جونہی ایک نوجوان نے اذان دینی شروع کی تو پولیس نے اس نوجوان کو گولی مار کر شہید کردیا۔ اس کے شہید ہوتے ہی ایک اور نوجوان اٹھا اور اس نے اپنے پیش رو کی جگہ اذان دینی شروع کردی۔ پولیس نے اس نوجوان کو بھی شہید کردیا، یہ سلسلہ یونہی جاری رہا اور اذان کی تکمیل تک 22 فرزندان اسلام شہید کردیئے گئے۔
اس ایمان افروز واقعہ نے پوری ریاست کشمیر میں آگ لگادی اور کشمیر میں جدوجہد آزادی کا باقاعدہ آغاز ہوگیا۔اہل کشمیر ہر سال 13 جولائی کو اسی واقعہ کی یاد تازہ کرتے ہیں۔