ملک میں برسوں سے نئے صوبوں کے قیام کے مطالبے ہوتے رہے ہیں۔ جن میں جنوبی پنجاب میں سرائیکی صوبہ اور صوبہ خیبر پختونخوا میں ہزارہ صوبے کا مطالبہ قابل ذکر ہے۔ حال ہی میں ایم کیو ایم نے بھی کراچی صوبہ کا مطالبہ کیا لیکن اس کا یہ مطالبہ سیاسی گیم اسکورنگ اور اپنی تنظیم کے تنِ مردہ میں جان ڈالنے کی کوشش کے سوا کچھ نہیں۔ کیونکہ سن 80کے عشرے کے اواخر میں جب ایم کیو ایم کے عروج کا دور تھا تو اس نے کبھی الگ صوبے کا مطالبہ نہیں کیا حتیٰ کہ اپنے مہاجر قومیت کے نام نہاد نعرے کی بنیاد پر مہاجرقومیت کو منوانے اور سندھ میں ظالمانہ کوٹہ سسٹم ختم کرانے کے لئے نہ تو آئینی ترمیم کی کوئی سنجیدہ کوشش کی اور نہ ہی اس حوالہ سے کوئی معاہدہ۔
1988 کے انتخابات کے نتیجے میں قومی اسمبلی میں کسی سیاسی جماعت کو اکثریت حاصل نہیں ہوسکی تھی، پاکستان پیپلز پارٹی نے سب سے زیادہ نشستیں حاصل کیں لیکن حکومت سازی کے لئے وہ ناکافی تھیں۔ اس لئے مخلوط حکومت سازی کے لئے انہوں نے ایم کیو ایم سے اتحاد کیا اس موقع پر دونوں جماعتوں نے ایک معاہدہ پر دستخط کئے اس میں سندھ کے شہری علاقوں میں پانی، بجلی، سڑکوں اور دیگر نکات توتھے لیکن مہاجر قومیت کو آئینی تحفظ دینے اور کوٹہ سسٹم کے خاتمے کا ذکر تک نہ تھا۔
اس کے بعد یکے بعد دیگرے دوتین انتخابات میں یہی صورتحال رہی۔ مسلم لیگ ن نے بھی ایم کیو ایم سے اتحاد کیا۔ ملک کے وزرائے اعظم کراچی میں ایم کیو ایم کے مرکزنائن زیرو پر اس کے قائد الطاف حسین کے در پر حاضری دیتے رہے۔ لیکن کراچی سمیت سندھ کے شہری علاقوں کے باشندوں کی حالت کبھی نہ بدلی۔ بلکہ ان پر دہشت گرد اور بھتہ خور کی چھاپ لگ گئی۔
خیر بات کہیں سے کہیں چلی گئی، کہنے کا مقصد یہ ہے کہ صوبوں کے قیام کی بنیاد لسانی نہیں ہونی چاہئے۔ بدقسمتی سے ملک کے چاروں صوبے لسانیت کی بنیاد پر ہیں، اگر ملک کو لسانی، نسلی اور علاقائی عصبیت سے پاک کرنا ہے اور جدید ترین بنیادوں پر ملک کو ترقی دینا ہے تو صوبوں کے اس اسٹرکچر کو ختم کرنا ہوگا۔ اس وقت ملک میں 154اضلاع ہیں۔ جن کو صوبوں کی حیثیت دی جانی چاہئے۔ کراچی سمیت جن شہروں میں ایک سے زائد اضلاع ہیں، انہیں ایک صوبہ بنایا جائے۔ جن علاقوں میں چھوٹے چھوٹے اضلاع ہیں، وہاں دو یا تین اضلاع کو ملا کر ایک صوبہ بنایا جائے۔اس طرح ملک میں 120صوبے وجود میں آجائیں گے، جن کی بنیاد لسانی یا نسلی نہیں، بلکہ انتظامی ہوگی۔
چھوٹی اسمبلیاں اور چھوٹے سیکرٹریٹ بنائے جائیں، اس کا فائدہ یہ ہوگا کہ لوگوں کے مسائل بنیادی سطح پر ہوں گے اور عوام کو حق حکمرانی میسر آسکے گا۔ مالی وسائل کی تقسیم آبادی کے بجائے صوبے کی آمدنی کی بنیاد پر کی جائے۔ آئین میں اٹھارویں ترمیم کے نتیجے میں تعلیم صوبوں کے کنٹرول میں آگئی ہے، جبکہ تعلیم کا کنٹرول وفاقی حکومت کے ہاتھوں میں ہونا ضروری ہے۔
یہ طریقہ ملک کی ترقی و خوشحالی کے لئے زیادہ مؤثر ہے، اگر یہ قابل قبول نہیں تو موجودہ صوبوں کو برقرار رکھاجائے اور مقامی حکومتوں کا خودمختار نظام قائم کیا جائے۔ امریکہ اور یورپ کے بیشتر ملکوں میں مقامی حکومتوں کے نظام کی بدولت ہی ملکوں نے ترقی کی اور عوام خود اپنی تقدیر کے مالک بنے۔ ہمارے وطن عزیز کی بدقسمتی یہ ہے کہ یہاں مارشل لاء اور ڈکٹیٹرشپ کے دور میں فوجی حکمرانوں نے اپنے مفاد کی خاطر اور اپنے اقتدار کو دوام بخشنے کے لئے مقامی حکومتوں کے نظام کو اپنایا۔ اور جمہوری حکومتوں میں مطلق العنان اقتدار کی خاطر مقامی حکومتوں کے نظام کا گلا گھونٹا گیا (ان کے انتخابات نہ کراکے)۔
مثال کے طور پر جنرل ایوب خان نے بنیادی جمہوریتوں کا نظام قائم کیا اور ان کے ذریعہ خود کو صدر مملکت منتخب کرالیا۔ جنرل ضیاء الحق نے بلدیاتی نظام قائم کیا اور اسے اپنے اقتدار کو طول دینے کے لئے استعمال کیا۔اسی طرح جنرل پرویز مشرف نے مقامی حکومتوں کا نظام قائم کیا، جس میں ضلعی حکومتیں اور کراچی اور لاہور کی شہری حکومتیں اتنی بااختیار تھیں کہ اس کی مثال ماضی میں نہیں ملتی لیکن انہوں نے بھی مقامی حکومتوں کو اپنے مقاصد کے لئے استعمال کیا۔
سوال یہ ہے کہ جمہوری حکومتیں بلدیاتی یا مقامی حکومتوں کے نظام سے کیوں کتراتی ہیں؟ اس کی وجہ یہ ہے کہ بلدیاتی نظام میں ارکان پارلیمنٹ، صوبائی اسمبلی اور وزراء کے اختیارات میں کمی آجاتی ہے۔ جیسا کہ جنرل مشرف کے دور میں ہوا، تمام مالی اختیارات مقامی حکومتوں کے پاس تھے اور صوبائی اور قومی اسمبلیوں کے ارکان کے پاس صرف قانون سازی کا کام رہ گیا تھا اور وزراء بے اثر ہوگئے تھے۔ جبکہ “مالی وسائل”کے بغیر اسمبلیوں کی رکنیت کا کیا فائدہ؟؟
اگر ملک کو ترقی دینا اور عوام کو اپنی تقدیر کا مالک اور حق حکمرانی دینا ہے تو ملک میں 120کے قریب صوبے تشکیل دئیےجائیں یا یورپ کی طرز کا مقامی حکومتوں کا نظام اپنایا جائے۔ ورنہ وہی ہوتا رہے گا، جو 73برسوں سے ہوتا چلا آرہا ہے۔ شبیر ابن عادل کا تجزیہ