سابق ڈپٹی چیف آف آرمی اسٹاف اور کور کمانڈر کراچی لیفٹیننٹ جنرل (ر) مظفر حسین عثمانی دیانتدار، نیک، اور انسان دوست شخصیت تھے ۔ پوری زندگی سادگی اور اپنے رب کی مرضی کے مطابق گزاری ۔
اس کی ایک تازہ مثال یہ ہے کہ بدھ اور جمعرات کی شب (یعنی یکم اکتوبر) کو کراچی میں ڈیفنس کے علاقے میں جس گاڑی سے ان کی لاش ملی، وہ 35 سال پرانی کار تھی اور نہ تو ان کے ہمراہ کوئی ڈرائیور تھا اور نہ کوئی ملازم۔ اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ وہ بہت سادہ اور دیانتدار سپاہی تھے ۔ اس دور میں ریٹائرمنٹ کے بعد پرانی گاڑی چلانے والے جرنیل کو میں تو صوفی ہی کہوں گا ۔
اطلاعات کے مطابق وہ ڈیفنس فیز 8 میں دو دریا کے قریب کار چلا رہے تھے کہ انہیں دل کا دورہ پڑا اور وہ کار میں ہی انتقال کرگئے۔پولیس اہلکاروں نے ایدھی رضاکاروں کی مدد سے میت پی این ایس شفاء اسپتال منتقل کی۔ڈاکٹروں کی ابتدائی رپورٹ کے مطابق مظفر حسین عثمانی دل کا دورہ پڑنے سے انتقال کرگئے ان کی عمر 76 سال تھی ۔
لیفٹیننٹ جنرل (ر) مظفر حسین عثمانی مشرف دور کے بااثر جنرل تھے اور کور کمانڈر کراچی کے علاوہ ڈپٹی چیف آف آرمی اسٹاف کی حیثیت سے بھی خدمات انجام دیتے رہے۔
اس وقت کے وزیراعظم میاں نواز شریف کے حکم پر 12 اکتوبر 1999 کو پاک فوج کے سربراہ جنرل پرویز مشرّف کا طیارہ کراچی میں اترنے سے روک دیا گیا تھا ۔ جنرل عثمانی کو اطلاع ملی تو وہ فوجی دستوں کے ساتھ فوری طور کراچی ایئرپورٹ پہنچے اور ایئرپورٹ کا کنٹرول سنبھال لیا اور جہاز کی لینڈنگ کرائی تھی.
میں اس زمانے میں پاکستان ٹیلی ویژن (پی ٹی وی) میں سینئر نیوز پروڈیوسر اور رپورٹر تھا اور اپنے آفس میں موجود ۔ ہم لوگ شام سے حالات پر نظر رکھے ہوئے تھے ۔ پہلے فوجی دستوں نے اسلام آباد میں پی ٹی وی کا کنٹرول سنبھالا، پھر پی ٹی وی کراچی کا ۔
کراچی میں کور ہیڈکوارٹرز ہمیں کنٹرول کررہا تھا ۔ جنرل پرویز مشرف کی بحفاظت لینڈنگ کی اطلاع بھی ہمیں ملی اور جنرل عثمانی کے مشورے پر جنرل مشرف کئی گھنٹوں تک کراچی ایئرپورٹ کے وی آئی پی لاونج میں براجمان رہے ۔
آئی ایس پی آر کے پریس ریلیز میں عموماً جنرل عثمانی کا پورا نام نہیں لکھا جاتا تھا، بلکہ جنرل ایم ایچ عثمانی ہوتا تھا ۔
پھر یہ بھی معلوم ہوا کہ وہ دیندار شخصیت ہیں اور فوٹو کھنچوانے تک سے پرہیز کرتے ہیں ۔ اس لئے جب بھی پی ٹی وی کا کیمرہ ان کی طرف جاتے تو اپنے چہرے کو ادھر ادھر کرلیتے یا کھجلی کے بہانے اپنی انگلیاں چہرے پر رکھ لیتے تاکہ ویڈیو میں ان کا چہرہ تک نہ آئے ۔
ہمیں یہ بھی ہدایت تھی کہ کیمرہ مین کو ان سے دور رکھیں ۔ وہ میڈیا سے گھلنا ملنا پسند نہیں کرتے تھے ۔
جنرل پرویز مشرف نے 2001 میں جنرل عثمان کو ڈپٹی چیف آف آرمی اسٹاف بنا دیا تاہم کچھ ہی عرصے بعد طالبان اور افغانستان کے مسئلے پر ان کے جنرل پرویز مشرف سے اختلافات ہو گئے تھے ، جس کے نتیجے میں آرمی چیف جنرل پرویز مشرف نے آئی ایس آئی کے سربراہ جنرل محمود احمد اور ڈپٹی چیف آف آرمی اسٹاف جنرل مظفر عثمانی کو عہدے سے ہٹا دیا تھا ۔ جنرل مظفر عثمانی 2002 میں ریٹائر ہو گئے تھے
جنرل عثمانی 1944 میں مراد آباد، بھارت میں ایک سنّی متوسط گھرانے میں پیدا ہوئے۔ آپ شیخ الاسلام مفتی محمد تقی عثمانی کے عزیز ہیں۔ آپ کے خاندان نے 1947 میں پاکستان ہجرت کی۔
1966 میں آپ نے پی ایم اے 36 میں کامیاب ہوکر پاک فوج کی فرنٹیرفورس رجمنٹ میں آرمڈ بٹالین میں شمولیت اختیار کی۔ آپ نے کمانڈ اینڈ اسٹاف کالج کوئٹہ سے گریجویشن کیا اس کے علاوہ رائل کالج آف ڈیفینس برطانیہ سے تعلیم حاصل کی۔ کچھ عرصہ آپ سعودی عرب میں بھی تعینات رہے آپ کے لیفٹیٹنٹ جنرل کے عہدے پر ترقی پانے کے بعد پاک فوج کی دو کورز (کراچی اور بھاولپور) آپ کے زیرکمان رہیں۔ بعد میں آپ کو ڈپٹی چیف آف آرمی اسٹاف بنادیا گيا جس سے آپ 2002 میں ریٹائرڈ ہوئے۔
آپ راسخ العقیدہ مسلمان تھے اور اسلامی شعار کا بہت احترام کرتے تھے۔ آپ پاک فوج کی ان اعلی ترین افسران میں شامل ہیں جو تبلیغی جماعت سے وابستہ رہے۔
وائس چیف آف آرمی اسٹاف ہونے کے باوجود ان میں حصول زر کی ہوس نہ تھی اور نہ ہی وہ دنیاوی آسائشوں کی طرف لپکے ۔
اقتدار کے ایوانوں میں مزے لوٹنے والوں کو یہ سبق حاصل کرنا چاہئے کہ سب کچھ ختم ہونے والا ہے ۔ ہم میںسے ہر ایک کی زندگی یوں ہی اچانک ختم ہونی ہے چاہے وہ جنرل ہو یا فقیر جوان ہو یا بوڑھا ۔ اس لئے کرپشن اور لوٹ مار کرکے ہم ایسے کام کیوں کریں، جس کی آخرت میں جواب دہی کرتا پڑے ۔
کور کمانڈر جب کہیں تشریف لے جاتے ہیں تو صرف ان کی روٹ ڈیٹیلنگ پر 50 سے زائد لوگ اور 8 سے اوپر ڈیپارٹمنٹس تعینات ہوتے ہیں. بلیٹ پروف کاروں کا ایک کاروان ہوتا تھا جو ایک جگہ سے دوسری جگہ سفر ممکن بناتا تھا.
مگر آپ دیکھئے یہ خاتمہ ہے جہاں ہم سب کو جانا ہے. اس دنیا کا سفر اکیلے ہی کرنا ہے. کیا روٹ ڈیٹیلنگ اور کہاں کی سیکورٹی، کیسی بلٹ پروف گاڑیاں اور کونسی نوابی، سب لاد چلے گا بنجارہ. کوئی پاس نہیں تھا، نہ ماتحت، نہ دوست، نہ اولاد، نہ رشتے دار
اللہ مرحوم کو جنت نصیب کرے اور ہم جیسے مغرور لوگوں کو سوچنے کا موقع دے کہ اپنی زندگی کی ڈگر بدلیں ۔
نظر سوئے مرقد، نظر سوئے دنیا
کدھر دیکھتا ہے، کہاں جا رہا ہے