یہ دل کا معاملہ بھی عجیب ہے‘ کم بخت عمر کے کسی بھی حصے میں ٹک کر بلکہ یہ کہیں گے تھک کر نہیں بیٹھتا۔ جوانی کی دہلیز پر قدم رکھیں تو دل کا پنچھی ہر ڈال پر بیٹھنے کی ضد پکڑ لیتا ہے‘ چاہے دانہ ملے نہ ملے‘ نادیدوں کی طرح بس اِدھر اُدھر اپنی چاہت اور محبت کا دانہ تلاش کرنے میں لگا رہتا ہے۔ بدقسمتی سے جوانی میں ہم اپنے گروپ میں وہ ’شریف‘ انسان تھے جو ’صاحب محبوبہ‘ نہیں تھے۔ یہ اور بات ہے کہ ہم نے گاواسکر کی طرح چھکا مارنے کی بڑی کوششیں کیں لیکن بدقسمتی سے باؤنڈری پر ہی کیچ آؤٹ ہوجاتے۔ اب آپ ذرا تصور کریں کہ یار دوستوں کی بیٹھک لگی ہو اور ہر کوئی اپنی مہ جبیں کے حسن و جمال اور ملاقاتوں کے ’قصہ خوانی بازار‘ کھول کر بیٹھا ہو تو احساس کمتری اور شرمندگی کی جس خفت اورجن القاب کا سامنا کرنا پڑتا تھا‘ وہ یہاں بیان نہیں کیے جاسکتے۔طعنہ تو ہمیں یہ بھی سننے کو ملتا ہے کہ ’کو ایجوکیشن میں پڑھنے کے باوجود ہم اب تک کسی کو اپنی محبت میں کیوں گرفتار نہیں کرسکے؟
عالم یہ تھا کہ اماں کے پاس ٹیوشن کے لیے جو لڑکیاں آتی تھیں‘ اُن پر بھی ڈورے ڈالنے کی کوشش کی۔ اب اماں‘ اماں ہوتی ہیں‘ اسی لیے ایک دن آواز دے کر کہا ’بیٹا‘ جاؤ بہنوں کو گھر تک چھوڑ آؤ‘ آج جلدی چھٹی کررہی ہوں۔‘ اماں نے لفظ ’بہنوں‘ پر کچھ ضرورت سے زیادہ زور دیا تھا۔ اب کیا کریں جناب جب گھر والے ہی ارمانوں کا خون کرنے پر آمادہ ہوں۔ ایسے میں تھک ہار کر فیصلہ کرلیا کہ دانش بھائی کی شاگردی اختیار کرلی جائے جن کے متعلق مشہور تھا کہ وہ ’ماہر عشقیات‘ ہیں۔ لاتعداد عشق لڑائے تھے اور اپنے تجربات کی فصل سے دوسروں کی زندگیوں میں پیار، عشق اور محبت کی خوش حالی لانے میں مشاق ٹھہرے تھے۔
ایک دن ہمت کرکے اپنی خواہش بیان کی تو انہوں نے خلا میں گھورتے ہوئے کسی مفکر کی طرح سوچا اور پھر کسی تھرڈ کلاس ہیرو کی طرح سگریٹ کا کشن لگاتے ہوئے گویا ہوئے ’کوئی ہے تمہاری کلاس میں ایسی لڑکی جس کی زلف کا کوئی اسیر نہ ہو؟‘ اب کیا بتاتے کہ ہمارے سارے ہم جماعت‘ ٹیچر کے نہ آنے تک سر سے سر ایسے ملاکر بیٹھتے کہ ایک دوسرے کی جوؤں کے لیے ’اور ہیڈ برج‘ کی کمی پوری ہوجاتی ہے اور جن کا زلفوں کا اسیرکوئی نہیں تھا‘ وہ ہمیں گھاس ڈالنے کو آمادہ نہیں تھیں۔ اس کا ہرگز یہ مطلب نہیں کہ ہماری شکل و صورت شفقت چیمہ یا نیر اعجاز سے ملتی تھی۔ بلکہ ہمارا وہ شرمیلا پن تھا‘ جس کے آگے سارے جذبات اور احساسات کچھ بولنے کی سکت ہی نہیں دیتے تھے۔
’ارے کیا کوئی ملی؟‘ دانش بھائی کی آواز کانوں میں پڑی تو ہم خیالوں کی دنیا سے نکل کر حقیقت میں آگئے۔
’بھائی سوچ رہا ہوں۔ذہن میں کوئی آہی نہیں رہی۔‘ ہم نے لاچار ہو کر جواب دیا۔
’سوچو سوچو‘ آجائے گی کوئی نہ کوئی یاد‘ اسی پر نیٹ پریکٹس کرو تاکہ اصل میچ جب ہو تو اچھا پرفارم کرسکو۔‘ دانش بھائی نے شان بے نیازی سے کہا اور گھڑی کی طرف ایسے دیکھا جیسے کہہ رہے ہو کہ بس اب کٹ لو۔
گھر آنے کے بعد بستر پر لیٹتے ہوئے اپنی کلاس کی ہر قطار کی ایک ایک لڑکی کا سوچا‘ تو اچانک ذہن بلقیس پر آکر جیسے منجمد ہوگیا۔بلقیس ہماری کلاس کی سب سے پڑھاکو طالبہ تھی۔ چہرے پریہ موٹی عینک ہوتی۔ جس میں اس کی آنکھیں اور بڑی لگنے لگتیں۔ بیگ میں کورس کی کتابوں کے علاوہ پتا نہیں کون کون سی بھاری بھرکم کتابوں کا خزانہ ہوتا۔ جبھی گھر سے ایک ملازم کلاس تک اس کا بیگ اٹھا کر جاتا تھا جبکہ ایک دفعہ تو اس کے ’کتابی کیڑا‘ ہونے پر کسی شرارتی لڑکے نے بلیک بورڈ پر یہ شعر بھی لکھ دیا تھا کہ
پستی کا حد سے کوئی گزرنا دیکھے
بلقیس کا وقت بے پڑھنادیکھے
یہ دیکھ کر بے چاری بلقیس اتنا دھاڑیں مار مار کر روئی کہ اسے چپ کرانے کے لیے کلاس کی لڑکیاں کم پڑ گئیں۔ ویسے آپس کی بات ہے اُس دن ہمیں بھی بہت برا لگا تھا۔ خواہش تو ہماری بھی تھی کہ اس کے آنسوؤں کو خشک کروائیں لیکن اس کی فلک شگاف چیخوں اور آہ وپکار سننے کے بعد ہمیں خیال آیا کہ ہم تو ویسے ہی کمزور دل ہیں کہیں یہ نیکی بھاری نہ پڑ جائے۔ اسی لیے دور دور سے بس اپنے دل ہی دل میں اسے چپ کراتے رہے۔
بلقیس کا تصور کرکے ہماری شیطانی سوچ چہرے پر عیاں ہونے لگی۔ لیکن پھر خیال آیا کہ اگر اس کو ’نیٹ پریکٹس‘ سمجھ کر عشق فرمانے لگے تو کہیں وہ کمبل ہوگئی تو کیا ہوگا۔ اماں کا خیال آیا‘ جنہیں پڑوسن کئی بار ہماری چغلیاں لگا چکی تھیں‘ لیکن اماں ہر مرتبہ یہی کہتیں کہ بی بی ثبوت لاؤ۔اگر میرا بیٹا ان چکروں میں پڑا ناں دیکھ لینا اس کا کیا جلوس نکالوں گی۔‘اب ایسے میں ہم نے صرف یہ سوچا کہ جو ہوگا دیکھا جائے گا۔ اتنا تو ہمیں معلوم تھا کہ کپڑے دھونے کے ڈنڈے سے پورا دن اماں ہماری دھلائی کر بھی دیں تو رات میں وہ ہماری بھیگتی آنکھیں دیکھ کر موم کی طرح پگھل جاتی تھیں اور جب کبھی ہمیں آنسو نہ آتے تو ہم تولیہ بھگو کر آنکھوں پر مل لیتے۔خیر جی پھر طے ہوا کہ بلقیس ہی درست رہے گی۔ دوست مذاق اڑائیں گے تو اڑانے دیں۔ کچھ پانے کے لیے کچھ تو کھونا ہی پڑے گا۔ خیالوں میں ہم بلقیس سے راہ رسم بڑھانے کے مکالمات کو بھی دہراتے رہے اور پھر نجانے کب آنکھ لگ گئی۔
اگلے دن اسے ہماری قسمت ہی کہیے کہ بریک کے دوران بلقیس ہمیں تنہا مل ہی گئی‘ کھڑکی کے پاس بیٹھی تھی اور باہر دیکھ دیکھ کر کاپی پر کچھ لکھتی جارہی تھی۔ ہمت کرکے آگے بڑھے لیکن پھر پتا نہیں کہاں سے شرافت کا بھوت آکر ہم سے چمٹ گیا۔ جہاں تھے وہیں کھڑے رہے۔قدم تو ایسے لگ رہے تھے منوں وزنی ہوگئے ہو۔۔ یکدم خیال آیا کہ اگر بلقیس کو ہماری یہ ’دعوت عشق‘ ناگوار گزری تو کون اسے سنبھالے گا۔ یہی سوچ کر جہاں کھڑے تھے وہیں سے ’یوٹرن‘ مارا۔کلاس سے باہر نکل رہے تھے کہ اچانک بلقیس کی گرج چمک والی آواز کانوں پر پڑی۔’صوفی۔۔۔ تم کھیل نہیں رہے۔۔۔؟‘
ہم نے گردن گھما کر دیکھا تو بلقیس نے باہر کھیلتے ہوئے لڑکوں کی طرف اشارہ کیا تھا۔
’میرا دل نہیں چاہ رہا تھا۔۔ آج گرمی بہت ہے زیادہ۔۔‘ ہم نے اٹکتے ہوئے جواب دیا
ّ’کوئی نہیں۔۔ اتنی اچھی ٹھنڈی ہوا چل رہی ہے‘ میرا تو دل چاہ رہا ہے کہ پنکھا بند کردو اور اس تازہ ہوا کے مزے لوں۔‘ بلقیس بولی
ادھر ہم سوچ رہے تھے کہ اگر اس کا یہ بیان عملی ثابت ہوا تو ہمارا کیا ہوگا۔
’کہاں کھو گئے؟‘ بلقیس نے ہمیں گم صم دیکھا تو پھر چہکی۔
’سینڈوچ کھاؤ گی؟‘ یہ جملہ نجانے کیسے اور کس طرح ہمارے جیسے گھبراٹو کے منہ سے نکل ہی گیا۔
اک بات بتاؤ اتنے فری کیوں ہورہے ہو؟ آج سے پہلے تو ایک سپاری کا دانہ تک نہیں کھلایا‘ بلقیس نے آنکھیں نکا ل کر اور ہاتھ چلا کر دریافت کیا۔ دل میں سوچا کہ اب ’دانہ‘ ہی تو ڈال رہا ہوں۔
’وہ۔۔ میں میں۔۔۔‘ یہاں آکر ہم نے پھر ایک لوز بال پھینکی
’بکری ہو کیا؟‘ بلقیس نے پھر سے ہم پر ایک اور وار کردیا۔ ’ویسے تم بول رہے ہو تو لے آؤ۔ دونوں بیٹھ کر کھائیں گے۔‘
’وہ میں کینٹین سے لے کر آتا ہوں۔‘ یہ ہم تھے
’ارے دفعہ کرو۔ ۔کب آؤ گے کب کھاؤگے۔ ۔ ’چپس کھاؤ گے۔۔ چھوڑو یار؟
’یار‘ کہنے پر تو ہماری بانچھیں کھل ہی گئیں اور کسی نادیدے کی طرح گردن اثبات میں ہلائی تو بلقیس نے اپنے بیگ سے چپس کا پیکٹ نکالا۔ جس کی بیرونی حالت دیکھ کر یہی اندازہ لگایا کہ نجانے کتنے مہینوں پہلے اُسے خریدا ہوگا۔ کیونکہ جس کمپنی کے چپس تھے‘ اس کا نام و نشان تک مٹا ہوا تھا۔ بلقیس نے ہاتھ ڈال کر اپنی مہندی لگی ہتھیلی پر جو چیز رکھ کر ہمیں پیش کی، کم از کم اسے چپس کی کسی بھی صنف میں شمار نہیں کیا جاسکتا تھا۔ عجیب سے میلے کچلے تھے۔ جنہیں دیکھ کر ہی کراہیت آرہی تھی۔۔ دل پر پتھر بلکہ دل کے ہاتھوں مجبو ر ہو کر ہی نہ چاہتے ہوئے تڑے مڑے چپس کو کھانے کے لیے ہاتھ بڑھایا تو بلقیس نے کسی شرارتی بچے کی طرح پیچھے ہاتھ کرلیا اور پھر جناب دیکھتے ہی دیکھتے پورا پیکٹ‘ ڈیسک پر الٹ دیا‘ آنکھوں سے کھانے کی دعوت دی۔ ہم اس دعوت کے مزے تو نہیں اڑا رہے تھے لیکن پھر بھی دل رکھنے کے لیے دو تین ٹکڑے حلق میں اتارتے رہے۔
’یہ تم باہر دیکھ کر کاپی پر کیا لکھ رہی تھیں؟‘ ہم نے بڑے اشتیاق سے دریافت کیا۔
ّ ’یہ۔۔۔؟؟؟‘ بلقیس نے کاپی کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا اور پھر بولنا شروع ہوئی ’ میں یہ نوٹ کرتی ہوں کہ آج کون گراؤنڈ میں کھیل رہا تھا اور کون غائب ہے۔ کون کل تھا اور آج بھی ہے۔‘
دل میں ہم نے سوچا بڑا ہی فارغ ٹائم ہے اس کے پاس‘ لیکن اپنے مقصد کوذہن میں رکھتے ہوئے بولے ’یعنی تم مانیٹرنگ کررہی ہو۔واہ واہ‘
’وہی تو۔۔۔ مجھے سب پتا ہے۔۔۔‘ بلقیس نے آنکھیں مٹکاتے ہوئے کہا
’تمہارا کوئی دوست ہے کوئی؟‘ چپس کا ٹکڑا منہ میں رکھتے ہوئے ہم نے اصل مدعے پر آنے لگے‘ بلقیس نے منہ تک جاتے ہوئے ہمارے چپس پر اپنی آنکھیں رکھتے ہوئے جواب دیا ’پوری کلاس میری دوست ہے۔‘
بلقیس نے جب یہ کہا تو دل مسوس کر رہ گئے کہ ہائے بے چاری کتنی معصوم ہے‘ جانتی نہیں کہ ہم جماعت کیا کیا سوچتے ہیں اس کے بارے میں۔
’میرا مطلب قریبی دوست سے بلقیس۔۔۔ ایسا دوست جو تمہیں اچھا لگتا ہو اور اُسے تم‘ جس سے تم دل کی بات کھل کر کرسکو؟‘ ہم اسے پھر
ٹریک پر لا رہے تھے۔بلقیس ایک بار پھر چہکی۔
’ہاں ناں۔۔ میرا منگیتر ہے فرید۔اُس سے ہر بات کرلیتی ہوں دل کی۔‘ ان الفاظ کے بعد اسکول کا گھنٹہ ٹن ٹن کرکے بجنے لگا اور ہمیں ایسا محسوس ہوا کہ ہتھوڑا ہمارے سر پر ہی پڑ رہا ہو۔
میرا منگیتر ہے فرید۔اُس سے ہر بات کرلیتی ہوں دل کی۔‘ ان الفاظ کے بعد اسکول کا گھنٹہ ٹن ٹن کرکے بجنے لگا اور ہمیں ایسا محسوس ہوا کہ ہتھوڑا ہمارے سر پر ہی پڑ رہا ہو۔