روزنامہ جسارت سے منسلک ہوئے تو بہت سے نئے ساتھیوں سے ملاقات ہوئی، جو چند ہفتوں میں دوستی میں بدل گئی ۔ ان میں قیصر محمود، راشد عزیز، زاہد حسین اور مقصود یوسفی وغیرہ شامل تھے ۔
اس بات کو اب چالیس سال سے زائد عرصہ گزر چکا ہے ۔ اتنے طویل وقت نے سب کچھ بدل کر رکھ دیا ۔ لیکن قیصر محمود نہیں بدلے ۔ وہی بذلہ سنجی اور شگفتگی، جو جوانی میں تھی، سو اب بھی تھی۔
جسارت کے دور میں ہمارے سینئر ساتھی نذیر خان بہت شگفتہ مزاج تھے۔ ان کی مزیدار باتوں سے رپورٹنگ روم زعفران زار بنا رہتا، ان کی باتوں میں قیصر گرہ لگاتے تو مزا اور دوبالا ہو جاتا ۔
مجھے یاد ہے کہ اس زمانے میں انہوں نے نئی اسپورٹس بائیک خریدیں تھی ۔ ان کے ساتھ کئی دفعہ میں نے بھی سفر کیا ۔
ہمارے رپورٹرز روم میں ستی ڈیسک بھی تھی ۔ اس کے انچارج فیض الرحمن مرحوم ہوا کرتے ۔ کام کے دوران ہم لوگ مذاق کیا کرتے ۔
ادریس بختیار مرحوم اس زمانے میں کچھ عرصے قبل ہی جسارت چھوڑ کر روزنامہ حریت سے وابستہ ہوئے تھے ۔ مگر اکثر و بیشتر دفتر جسارت آیا کرتے تھے ۔
قیصر محمود پیشہ ورانہ مہارت کے حامل تھے ۔ اس زمانے میں کامرس رپورٹر تھے ۔ اپنی پیشہ ورانہ مہارت کی وجہ سے وہ مشہور تھے ۔ مدیر جسارت محمد صلاح الدین تقریبا روز ہی رپورٹنگ ڈیسک پر آتے اور دوسروں کے علاوہ خاص طور پر قیصر محمود سے گفتگو کرتے ۔ اس دور کی کتنی باتیں کی جائیں اور کیا کیا یاد کیا جائے ۔
پانچ سال روزنامہ جسارت میں گزارنے کے بعد مجھے پاکستان ٹیلے وژن یا پی ٹی وی میں نیوز پروڈیوسر کی حیثیت سے جاب مل گئی ۔ کچھ عرصے بعد قیصر بھائی دی نیوز سے وابستہ ہوئے اور پھر جنگ اور جیو ٹی وی سے ۔
دیگر ساتھی بھی مختلف اداروں میں چلے گئے ۔
وقت یوں ہی گزرتا چلا گیا، ہم سب زندگی کے گورکھ دھندوں میں ایسے پھنسے کہ دوستوں سے میل جول کم ہوگیا ۔ زندگی کی دوڑ میں سب نہ جانے کہاں کھو گئے ۔
قیصر محمود سے کبھی کبھار مختلف پروگراموں میں ملاقات ہوتی رہتی تھی ۔
کچھ عرصے قبل ان کی بیماری اور نیشنل انسٹیٹیوٹ آف بلڈ ڈیزیز میں داخلے کی اطلاع ملی ۔ اس کے ساتھ ہی شدید بارشیں شروع ہوگئیں ۔
آج (یعنی 10 ستمبر 2020) کو یہ روح فرسا اطلاع ملی کہ قیصر بھائی ہمیشہ کے لئے اس جہان فانی سے جاچکے ہیں اور میں نے رات گیارہ بجے فیس بک دیکھی تو محترم راشد عزیز کی یہ پوسٹ پڑھیں ۔ آنسوؤں کے چند قطرے ڈھلک کر بہہ گئے ۔ اس سے زیادہ افسوس یہ ہوا کہ عشاء کے بعد ڈیفنس سوسائٹی کے قبرستان میں ان کو سپرد خاک کیا جاچکا ہے ۔
افسوس میں ان کے سفر آخرت میں شرکت سے محروم رہا ۔ جس کا دکھ ساری عمر رہے گا ۔۔ قیصر بھائی ۔ تم بہت یاد آو گے ۔
اس وقت منیر نیازی کی یہ نظم یاد آگئی:
ﻭﮦ ﺟﻮ ﺍﭘﻨﺎ ﯾﺎﺭ ﺗﮭﺎ ﺩﯾﺮ ﮐﺎ،
ﮐﺴﯽ ﺍﻭﺭ ﺷﮩﺮ ﻣﯿﮟ ﺟﺎ ﺑﺴﺎ،
ﮐﻮﺋﯽ ﺷﺨﺺ ﺍُﺱ ﮐﮯ ﻣﮑﺎﻥ ﻣﯿﮟ
ﮐﺴﯽ ﺍﻭﺭ ﺷﮩﺮ ﮐﺎ ﺁ ﺑﺴﺎ.
ﯾﮩﯽ ﺁﻧﺎ ﺟﺎﻧﺎ ﮬﮯ ﺯﻧﺪﮔﯽ،
ﮐﮩﯿﮟ ﺩﻭﺳﺘﯽ ﮐﮩﯿﮟ ﺍﺟﻨﺒﯽ،
ﯾﮩﯽ ﺭﺷﺘﮧ ﮐﺎﺭِ ﺣﯿﺎﺕ ﮬﮯ،
ﮐﺒﮭﯽ ﻗُﺮﺏ ﮐﺎ، ﮐﺒﮭﯽ ﺩُﻭﺭ ﮐﺎ.
ﻣﻠﮯ ﺍِﺱ ﻣﯿﮟ ﻟﻮﮒ ﺭﻭﺍﮞ ﺩﻭﺍﮞ،
ﮐﻮﺋﯽ ﺑﮯ ﻭﻓﺎ ﮐﻮﺋﯽ ﺑﺎ ﻭﻓﺎ,
ﮐﭩﯽ ﻋُﻤﺮ ﺍﭘﻨﯽ ﯾﮩﺎﮞ ﻭﮬﺎﮞ،
ﮐﮩﯿﮟ ﺩﻝ ﻟﮕﺎ ﮐﮩﯿﮟ ﻧﮧ ﻟﮕﺎ.
ﮐﻮﺋﯽ ﺧُﻮﺍﺏ ﺍﯾﺴﺎ ﺑﮭﯽ ﮬﮯ ﯾﮩﺎﮞ،
ﺟﺴﮯ ﺩﯾﮑﮫ ﺳﮑﺘﮯ ﮬﻮﮞ ﺩﯾﺮ ﺗﮏ,
ﮐﺴﯽ ﺩﺍﺋﻤﯽ ﺷﺐِ ﻭﺻﻞ ﮐﺎ،
ﮐﺴﯽ ﻣﺴﺘﻘﻞ ﻏﻢِ ﯾﺎﺭ ﮐﺎ.
ﻭﮦ ﺟﻮ ﺍِﺱ ﺟﮩﺎﮞ ﺳﮯ ﮔﺰﺭ ﮔﺌﮯ،
ﮐﺴﯽ ﺍﻭﺭ ﺷﮩﺮ ﻣﯿﮟ ﺯﻧﺪﮦ ﮬﯿﮟ,
ﮐﻮﺋﯽ ﺍﯾﺴﺎ ﺷﮩﺮ ﺿﺮﻭﺭ ﮬﮯ،
ﺍﻧﮩﯽ ﺩﻭﺳﺘﻮﮞ ﺳﮯ ﺑﮭﺮﺍ ﮬُﻮﺍ.
ﯾُﻮﻧﮩﯽ ﮬﻢ ﻣُﻨﯿﺮؔ ﭘﮍﮮ ﺭﮬﮯ،
ﮐﺴﯽ ﺍِﮎ ﻣﮑﺎﮞ ﮐﯽ ﭘﻨﺎﮦ ﻣﯿﮟ,
ﮐﮧ ﻧﮑﻞ ﮐﮯ ﺍﯾﮏ ﭘﻨﺎﮦ ﺳﮯ،
ﮐﮩﯿﮟ ﺍﻭﺭ ﺟﺎﻧﮯ ﮐﺎ ﺩَﻡ ﻧﮧ ﺗﮭﺎ.